جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے پاک بھارت مفاہمت ضروری ہے
شیئر کریں
بھارت کا کہنا ہے کہ سازگار ماحول اور دہشت سے پاک فضا میں پاکستان سے بات چیت کے مرحلے کا دوبارہ آغاز کیا جا سکتا ہے۔بھارتی میڈیا پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے پاک-بھارت مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے امکانات کی خبروں پر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارا موقف اب بھی وہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر قائم ہیں کہ بات چیت کے مرحلے کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار ماحول اور فضا ہونی چاہیے، اور ماحول ہمیشہ دہشت گردی سے اور دہشت گردوں سے پاک ہو، جنہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔خیال رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی دسمبر 2015 میں پاکستان آمد کے موقع پر بھارت اور پاکستان نے دو طرفہ بات چیت کے مرحلے کے بعد تعلقات بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔تاہم بعد ازاں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہوگئے تھے جس کی وجہ بتاتے ہوئے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ مبینہ طور پر پاکستان کی دہشت گرد تنظیم کی جانب سے 2016 میں پٹھان کوٹ حملے کے بعد بات چیت کا عمل رک گیا۔سارک کے حوالے سے سوال پر رویش کمار کا کہنا تھا کہ کہ صرف ایک ملک چاہتا تھا کہ ایسی صورتحال پیدا کی جائے، جہاں باتوں کا کوئی مقصد ہو اور کامیابی حاصل ہو۔
سینیٹ کے پاک۔ بھارت دوستی گروپ نے بھی گزشتہ دنوںسینیٹر کریم خواجہ کی زیرصدارت اپنے اجلاس میںدونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے پارلیمانی سطح پر مذاکرات شروع کرنے کی سفارش کی تھی، وزارت خارجہ کے حکام نے گروپ کو دونوں ممالک کے تعلقات پر تفصیلی بریفنگ دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے، بھارت کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اس اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے مختلف پہلوئوں پر غور کے بعدگروپ نے تمام ارکان سے پاک۔ بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے تجاویز مانگ لی تھیں،گروپ کا کہنا تھا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات بات چیت کے ذریعے ہی بہتری کی طرف بڑہ سکتے ہیں۔دوستی گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ دونوں ممالک کے عوام اور پارلیمان کے درمیاں روابط کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔پاک۔ بھارت دوستی گروپ کا کہنا تھا کہ عسکری نمائندوں اور وزارت خارجہ کی سطح پر بات چیت کے علاوہ دونوں ملکوں کے پارلیمانی اراکین کا بھی تعلقات کی بہتری کے لیے مکالمہ ہونا چاہیے۔
پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے پاکستان میں پارلیمانی سطح پر ہونے والی کاوشوں اور پاکستانی پارلیمان کے ارکان کی اس خواہش کے باوجود بھارتی رہنمائوںکے رویے سے نااہل وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ جب تک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں ہیں، پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید بہت کم ہے۔ریڈیو پاکستان کو ایک انٹرویو کے دوران سرتاج عزیز کا کہنا تھا، ‘ کہ پاک بھارت تعلقات میں اْس وقت تک بہتری نظر نہیں آسکتی جب تک نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت ہے’۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان کے پارلیمانی رہنمائوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے خیالات اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کے اظہار سے یہ ثابت ہوتاہے کہ پاکستان کی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور حکومت پاکستان خطے کے بہترین مفاد میں بھارت سے کشیدگی کا خاتمہ چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے نامساعد حالات اور بھارتی رہنمائوں کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیوں اورحوصلہ شکن بیانات کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کے لیے تمام تر سفارتی کوششیں جاری رکھی ہیں۔
حکومت پاکستان بار بار یہ واضح کرچکی ہے کہ بھارت کے ساتھ تمام معاملات پر پوری سنجیدگی سے بات کرنے اور تمام تنازعات افہام وتفہیم کے ماحول میں طے کرنا چاہتے ہیں تاہم اس کے ساتھ پاکستان ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بھی واضح کرچکاہے کہ مسئلہ کشمیرپر پاکستان کا موقف اصولی ہے ، پاکستان کایہ موقف کسی طرح کی ہٹ دھرمی پر مبنی نہیں ہے پاکستان یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنے طورپر کسی طرح کی کوئی شرط عاید کرنا نہیں چاہتا بلکہ پاکستان کی صرف یہی خواہش ہے کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادی دے کر حل کیاجائے، بھارت خود یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ گیاتھا اور سلامتی کونسل کی جانب سے کشمیری عوام کو حق خودارادی دینے کا وعدہ کیاتھا۔اس صورت حال میں کشمیری عوام کی جانب سے اپنے پیدائشی حق خود ارادی کے حصول کے لیے شروع کی گئی جددجہد کو نہ تو دہشت گردی قرار دیاجاسکتاہے اور نہ ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کو کسی طور بھی غلط قرار دیاجاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان یوں تو کبھی بھی تعلقات ایسے نہیں رہے جنھیں خوشگوار قرار دیاجاسکے لیکن تعلقات میں تازہ ترین کشیدگی کا آغاز 18 ستمبر کو کشمیر کے اوڑی فوجی کیمپ میں ہونے والے حملے کے بعد ہو جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے، بھارت نے حسب معمول واقعے کی تحقیقات شروع کرنے سے قبل ہی کسی ثبوت کے بغیر اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں کا آغاز کیا تھا تاہم اسلام آباد نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا۔بعدازاں 29 ستمبر کو بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے اطراف پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈز پر سرجیکل اسٹرائیکس کیں جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔پاکستان نیبھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا واقعہ تھا جس کے نتیجے میں اس کے دو فوجی جاں بحق ہوئے۔بعد ازاں یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے ایک بھارتی فوجی کو پکڑا بھی گیا ہے جبکہ بھرپور جوابی کارروائی میں کئی بھارتی فوجی ہلاک بھی ہوئے بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کشمیر کی موجودہ صورتحال پر دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے اس طرح اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ رواں برس 8 جولائی کوبھارتی فورسز کے ہاتھوں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگی اور پولیس سے جھڑپوں اور مظاہروں میں اب تک سیکڑوں کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ چھرے لگنے سے 150 سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ بھارت اس صورت حال کی ذمے داری بھی پاکستان پر عاید کرکے عالمی برادری کے سامنے خودکومظلوم بناکر پیش کرنا چاہتاہے،اب یہ ہماری وزار ت خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی برادری کو اصل صورت حال سے آگاہ کریں بھارت کے ساتھ تعلقات عمول پر لانے کی خواہش کو اجاگر کریں اور یہ ثابت کریں مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کا بنیادی سبب بھارتی رہنمائوں کامنافقانہ اور جارحانہ رویہ ہے، اور جب تک بھارتی رہنمائوں کو اپنا یہ رویہ ترک کرنے پر مجبور نہیں کیاجاتاپاک بھارت تعلقات معمول پر نہیں آسکتے اور جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کاماحول برقرار ہے،نہ صرف یہ کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کاخطرہ موجود رہے گا بلکہ اس خطرے کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کاامن خطرے سے دوچار رہے گا۔