عمران خان اور جہانگیرترین نااہلی کیس کا فیصلہ ایک ساتھ کرینگے، چیف جسٹس
شیئر کریں
اسلام آباد(بیورو رپورٹ)سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گہرائی سے دونوں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں عمران خان اور جہانگیرترین نااہلی کیس کا فیصلہ ایک ساتھ کریںگے۔ بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جہانگیرترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی جہانگیرترین کے وکیل سکندربشیرنے جے ڈی ڈبلیوکمپنی پردلائل دیتے ہوئے کہاکہ جہانگیرترین جے ڈی ڈبلیوکے ڈائریکٹرتھے حصص کی خریداری کے وقت جہانگیرترین وزیرنہیں تھے، اگرانسائڈ ٹریڈ سے کچھ کمایا توکسی کا نقصان تو نہیں ہوا، چیف جسٹس نے جہانگیرترین کا کمپنی میں عہدے سے متعلق پوچھا تووکیل نے بتایاکہ جہانگیرترین چیف ایگزیکٹوکے عہدے سے مستعفی ہوکربورڈ ممبربنے۔ چیف جسٹس نے پوچھا جہانگیرترین نے کمپنی ڈائریکٹرکے طورپراپنے ڈرائیورکے نام حصص خریدے، جس پروکیل نے بتایاکہ اللہ یاراورحاجی خان سے متعلق باورچی اورمالی ہونے غلط ہے، دونوں افراد جہانگیرترین کے پرانے ملازم ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کمپنی کے شیئرزکی خریداری کے لیے کتنی رقم خرچ کی گئی اور اللہ یارنے کتنی رقم کے شیئرخریدے جس پروکیل نے بتایاکہ اللہ یارنے ایک کروڑ 30لاکھ کے شیئر خریدے اور 4کروڑ 60لاکھ میں فروخت کیے جس میں 3کروڑ 30لاکھ کا نفع ہوا، ایس ای سی پی نے ان سائیڈ ٹریڈ کا نفع واپس لے لیا تھا۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ مخصوص معلومات کوجہانگیرترین نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا، کیا عہدے کی بنیاد پرملنے والی معلومات کوذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا درست ہے جائزہ لے رہے ہیں کہ جہانگیرترین کا اقدام شفاف اور درست تھا۔ اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ درخواست گزار مبینہ اعتراف پر کارروائی چاہتے ہیں، جسٹس بندیال نے کہا کہ اعتراف کا مطلب سزا یافتہ نہیں ہوتا، سکندر بشیر نے کہاکہ جہانگیرترین کو بھی وہی حقوق حاصل ہے جو کسی دوسرے شہری کو حاصل ہے، عدالت کے سامنے اپنی گزارشات اور مفروضات پیش کر رہا ہوں،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قانون کی موشگافیوں کاسہارا لیکر جان چھڑانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اس پر سکندر بشیر نے کا کہنا تھا کہ آپ کا ہاتھ پاؤں مارنے کا لفظ درست نہیںہے۔ موکل کو دفاع کاآئینی حق حاصل ہے سیکورٹی ایکسچینج کمیشن قانون کی شق 15اے 15ای کا آرٹیکل 73سے کوئی تعلق نہیں ہے، 15اے 15ای شقوں کا ایمانداری سے کوئی تعلق نہیں،اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ جہانگیرترین نے اپنے تحریری جواب میں دونوں شقوں کو چیلنج نہیں کیا، سکندر بشیر نے کہا کہ دونوں سیکشن منی بل کا حصہ نہیں تھے۔ دوران سماعت جسٹس بندیال نے جہانگیر ترین کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر آپ کے پاس تکنیکی پوائنٹ ہے، میرٹ پر آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں، اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ اگر کوئی قانون غلط ہے تو کیاعدالت اس کا جائزہ نہیں لے سکتی، عدالت آئین کی محافظ ہے عدالت کسی فراڈ قانون سازی پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے۔