ہائے اس زود پشیماں کاپشیماں ہونا
شیئر کریں
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گزشتہ روز میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند ملک دشمن عناصر پاکستان میں بداعتمادی اور عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔گزشتہ روز دھماکے میں شہید ہونے والے کیپٹن حسنین نواز کے گھر پرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جتنی قربانی دیں اورکامیابی حاصل کی اس کی مثال کسی قوم میں نہیں ملتی جس قوم میں شہید کیپٹن حسنین جیسے بہادر جوان ہوں اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔وزیرداخلہ نے کہا کہ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ملک میں ہرچیزکا بیڑاغرق اور ستیاناس ہے ہمیں ایسا کہنے والے طبقے سے اختلاف ہے ایسے عناصر پاکستان میں بداعتمادی اور عدم استحکام پیدا کررہے ہیں جس ملک کا استحکام کمزورہو اس کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔ آج پاکستان آدھاگلاس بھرا ہوا بھی ہے اور آدھا گلاس خالی بھی، اب اس بات کاانحصار ہم پرہے کہ ہم کون سے گلاس کو چنتے ہیں ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں ہمیں پاکستان کے مثبت پہلو ابھارنے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں غیرملکی مغویوں کے حوالے سے ہمیں معلومات دی گئیں تو پاک فوج نے بہادری کے ساتھ بحفاظت تمام مغویوں کو بازیاب کرالیا اس کارنامے کی پوری دنیا معترف ہے۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان ایک جذبے کا نام ہے اس جذبے کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی یہ قوم اور اس کی فوج خطرات سے نہیں گھبراتی پاک فوج کے جوان ملکی سلامتی کے لیے ہر خطرے کا سامنا کرنے کیلیے تیار ہیں۔اس موقع پر انھوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ میں نے جو بیان دیا تھا وہ فوج کے خلاف نہیں تھا جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی وضاحت کر دی ہے اب بات ختم ہوچکی ہے، پاک فوج، پولیس، سیکورٹی ادارے اور ہم سب دہشت گردی کے خلاف کمربستہ و متحد ہیں اور حکومت، پاکستانی قوم اور فوج ایک جسم کی مانند ہیں دیگر ممالک کو چاہئے کہ وہ بھی خطے میں امن کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کرجدوجہد کریں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک سادہ سے بیان پر اچانک بھڑک اٹھنے والے وفاقی وزیر داخلہ کی جانب کے اس بیان سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کو جذبات میں بہہ کر یا وقتی واہ واہ کے چکر میںپاک فوج کے خلاف بیان بازی کے مضمرات کااحساس ہوگیاہے یا انھیں احساس دلادیاگیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کے بیان میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر اس قدر سخت اور درشت رویہ اختیار کیاجائے اور اپنے ہی وطن کے محافظوں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا جائے،گزشتہ دنوں پریس بریفنگ میں فوجی ترجمان نے بڑے شائستہ اور شستہ انداز میںتمام صورت حال کی وضاحت کردی تھی سلجھا ہوا انداز اور محتاط گفتگو اگرچہ اہل سیاست کا خاصہ ہونا چاہیے مگر اس کا اظہار فوج کی جانب سے ہوا ہے۔ انتہائی نپے تلے انداز میں فوجی ترجمان نے درخواست کی کہ پاک فوج کے خلاف ہمیں دشمن کے بیانیے کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور ایسے طرز عمل سے اجتناب برتنا چاہیے جس کی وجہ سے دشمن کی پاک فوج دشمنی کا ایجنڈا پورا ہو سکے۔ موجودہ تنا ئوکے ماحول میں اس قدر سنجیدگی ‘ متانت اور خلوص سے بھرپور گفتگو پر آئی ایس پی آر کے میجر جنرل آصف غفور کو بلاشبہ خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے اور لمحہ بھر کے توقف کے بعد اس بات پر غور کرنا از حد ضروری ہے کہ اہل سیاست کے ایک گروہ اور قومی میڈیا کے ایک مخصوص طبقے نے اپنی افواج کے خلاف جو غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے کیا اب اس کی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔
عوام ارباب حکومت اور خاص طورپر سویلین بالادستی کے نام پر مورچہ زن خواتین و حضرات سے یہ سوال کرنے کاحق رکھتے ہیںکہ اب وہ وضاحت کریں کہ وہ پاک فوج کے خلاف کیوں ہیں؟۔ ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں” کی کیفیت کو ختم کرکے یا تو وہ اپنی ہرزہ سرائی بند کر دیں کہ یہی تقاضہ حب الوطنی ہے یا پھر بلیک اینڈ وائٹ میں نشاندہی کریں کہ سویلین بالادستی کی منزل کے حصول میں انہیں کہاں رکاوٹ دکھائی دے رہی ہے تاکہ قوم ان کرداروں کا محاسبہ کر سکے جو ان رکاوٹوں کی وجہ بن رہے ہیں۔ نواز شریف کی پیشی پر رینجرز واقعہ کو بنیاد بنا کر وفاقی حکومت کے وزرا اور دیگر لیگی قیادت نے جس طرح ریاست کے اندر ریاست کی رٹ لگائی اور اس کی وجہ سے اپنی ہی فوج کو جیسے بدنام کیا ہے وہ نرم سے نرم الفاظ میں قابل مذمت ہے۔ خواجہ سعد رفیق کا ردِ عمل اگرچہ شدید ہوتا ہے لیکن اس روز انہوں نے قدرے تحمل اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا جب کہ احسن اقبال وزرات داخلہ کے انچارج ہونے کے ناطے بہت سیخ پا ہوئے اور غصے میں وہ کچھ کہہ ڈالا جو ان کے منصب کے شایان شان بھی نہ تھا اور جس کے سبب فوج کی صفوں میں بے چینی پھیلنا یقینی تھا۔فوجی قیادت نے غصے کا جواب نہایت تحمل اور بردباری سے دے کر اس قومی ڈائیلاگ کا آغاز کر دیا ہے جس کی طرف نواز شریف فریقین کو دعوت دے رہے ہیں۔ ماضی ، حال اور مستقبل کی بجائے ہمیں حال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، حال بہتر ہو گا تو مستقبل بھی محفوظ ہو جائے گا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت کافوج کی موجودہ قیادت سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے چنانچہ پاناما کیس کے تناظر میں فوجی قیادت کے خلاف جو مقدمہ مسلم لیگ ن کھڑا کرنے میں مصروف ہے وہ قطعاً بے بنیاد ہے۔ میں دعویٰ کے ساتھ ایک بات کہہ سکتا ہوں وہ یہ کہ لیگی قیادت کو فوج کی قیادت سے وہی شکوہ ہے جو انہیں اپنے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ہے۔ پرویز رشید بھولپن میں ایک بات کہہ گئے ہیں۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑے تند مزاج پرویز رشید سے رپورٹر نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں پوچھا تو وہ گویا ہوئے کہ وہ ہماری کوئی مدد نہیں کر سکے تو کسی اور کی کیا کریں گے۔ یہ سوال پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کے تناظر میں چوہدری نثار کی مدد کے بارے میں تھا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت چونکہ پانامہ کیس میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے لہٰذا وہ اپنے بچائو کے لیے مدد چاہتی تھی جو کہ فوجی قیادت نے مہیا نہیں کی۔ بس فوج کا یہ قصور ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسی کے پاس جو معلومات موجود تھیں وہ اس نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے اراکین کو کیوں دیں؟ اس وجہ سے حکومتی ٹیم جے آئی ٹی کو جن آئی ٹی پکارتی رہی۔ ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا فوج یکسر نیوٹرل ہو سکتی تھی؟ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ کیا ایسی صورت بن سکتی تھی کہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے ساتھ بالکل تعاون نہ کیا جاتا اور تمام معلومات خفیہ ہی رہنے دی جاتیں؟ اگر یہ صورت بن سکتی تو شاید جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے دو اراکین کو شامل کرنے کا جواز ہی ختم ہو جاتا کیونکہ عدالت عظمی نے حقائق جاننے کے لیے بنائی گئی ٹیم میں ان اراکین کو شامل کرنا اس لیے ضروری خیال کیا ہوگا کہ ان کے پاس معلومات دستیاب بھی ہوتی ہیں اور وہ وسائل موجود ہیں جو معلومات تک آسان رسائی کا باعث بن سکتے ہیں۔ فوجی ترجمان کی پریس بریفنگ میں اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کو انہوں نے فالو کیا اور ہمارے دو اراکین وہ حکم بجا لائے جو انہیں سونپا گیا تھا۔ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فوج کا کردار کیا یہی نہ بنتا تھا؟ کیا ایسا کرنا آئینی ہوتا کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کے لیے فوج کی ایجنسی کے اراکین تجویز کرتی اور فوجی قیادت یہ نام دینے سے انکارکردیتی؟
عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فوج کے خلاف پانامہ معاملے میں سارا غصہ کیوں اور کس لیے ہے؟ فوجی ترجمان نے محتاط الفاظ میں فوج کا جو مدعا بیان کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دشنام طرازی اور برا بھلا کہنے کے بجائے صاف لفظوں میں ان کونے کناروں کی نشاندہی کی جائے جو بظاہر ارباب حکومت کوناگوار گزررہی ہے۔ وزیر داخلہ نے چونکہ اب اس حوالے سے بحث ختم کرنے کااعلان کردیا ہے اس لیے اب اس بحث کو طول دینے کابظاہر کوئی سبب نظر نہیں آتا لیکن ہمارے خیال میں اب ارباب اختیار کوئی بھی بات کرنے اور خاص طوپرر مسلح افواج کے بارے میں زبان کھولنے سے قبل اس کے محرکات اور مضمرات پر اچھی طرح غور کرکے کریں اور محض بھرے بازی کے لیے کوئی بھی ایسی بات زبان سے گریز کریں جس سے ملک کی سلامتی اوردفاع ااور قومی وقار پر حرف آنے کااندیشہ ہو۔