میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکام جی ایس پی پلس کی سہولت برقرار رکھنے کی فکر کریں

حکام جی ایس پی پلس کی سہولت برقرار رکھنے کی فکر کریں

منتظم
منگل, ۲۰ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

رواں ماہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو دی جانیوالی جی ایس پی پلس کی سہولت کی ریویو میٹنگ ہونیوالی ہے جس میں فیصلہ کیا جائیگا کہ پاکستان کو یہ سہولت جاری رکھی جائے یا ختم کردی جائے۔ جی ایس پی یورپی یونین کی جانب سے ایک ایسا ترجیحی نظام ہے جوکہ WTO کے عام قوانین سے چھوٹ اور آسانی فراہم کرتا ہے جس کی سہولت یورپی یونین کی جانب سے90 سے زائد ترقی پذیرممالک کودی جا رہی ہے جبکہ جی ایس پی پلس یورپی یونین کی جانب سے ٹیکسز کی رعایت کی خصوصی اضافی سہولت ہے جو پاکستان سمیت 25 ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہے تاکہ وہ اس استفادہ کرتے ہوئے اپنی ترقی کی شرح کو برقرار رکھیں مگرجی ایس پی پلس کی سہولت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ملک کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ اپنے ملک میں انسانی و لیبر حقوق کی پاسداری کریں، ماحولیاتی تحفظ کا خیال رکھیں اور اپنے عوام کو بہترین گورننس فراہم کرنے کے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی نمایاںصنعتی قوانین پر موثر و مکمل طریقے سے عمل کریں۔

پاکستان کو یہ سہولت یکم جنوری 2014میں ملی تھی مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ برآمدات بڑھانے کی توقعات پر کماحقہ اترنے یا اس کی جانب گامزن ہونے کی تو کیا بات ہم تو برآمدات کی جانب منفی سمت میں سفر جاریرکھے ہوئے ہیں کیونکہ جی پی پلس کی سہولت برآمدات کو بڑھانے کے لیے دی گئی تھی مگر ہماری برآمدات گذشتہ 4 سال میںمجموعی طور پانچ ارب ڈالرز کم ہوگئی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جی ایس پی کی سہولت ملنے کے بعد یورپی یونین کے لیے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے یعنی 2014 میں یورپی یونین کے لیے پاکستان کی برآمدات 5.51 ارب ڈالرز تھیں وہ بڑھ کر 6.29 ارب ڈالرز ہوگئی ہیں مگر اس سہولت کے تحت یورپی یونین کی جانب سے بہترین پسندیدہ ملک کو حاصل سہولت سے بھی 20فیصد کم ڈیوٹیز لگائی گئی ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنی ٹیکسٹائل، لیدر اور گارمنٹس کی مصنوعات کی برآمدات نمایاں حد تک بڑھا سکتے تھے۔ مگر ہم اس بہترین سہولت کا مکمل فائدہ نہ اٹھا سکے حالانکہ ٹیکسٹائل، لیدر اور گارمنٹس کی مصنوعات میں پاکستان کے مدمقابل ممالک جیسے چین، بھارت، ویت نام، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا وغیرہ کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے اس لیے یہ بات درست ہے کہ ہم جی ایس پی پلس کی موجودگی کا فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے جبکہ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ اگر ہم جی ایس پی پلس کی سہولت سے استفادہ کریں تو اپنی برآمدات کو گرانقدر سطح تک بڑھا سکتے ہیں جس کی جانب ہمارے ارباب اختیار واقتدار کی جانب سے کوشش ہی نہیں کی جا رہی۔ پہلے بھی یورپی یونین میں ہمارے کچھ محب وطن اور مخلص دوستوں کی شبانہ روز محنت وکاوش کے نتیجے میں ہمیں یہ سہولت حاصل ہوئی تھی اور اب بھی باوجود کہ ہم گذشتہ4 سال میں اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے مگر ہمارے بہت سے دردمند اورملک کی خیر چاہنے والے افراد اس سہولت کو جاری رکھنے کے لیے یورپی یونین کے اکابرین میں لابنگ کر رہے ہیں اوریہاں یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ گذشتہ دنوں برسلز کے دورے پر گئے ہوئے افراد جن میں حکومتی اور حزب اختلاف کے نمائندگان بھی شامل تھے وہ بھی یورپی یونین کے حکام میں پاکستان کا بہتر تاثرابھارنے کی کوششیں اور پاکستان کے لیے لابنگ کرتے رہے کیونکہ یہ جی ایس پی پلس کی سہولت پاکستان کے لیے مستقبل میں انتہائی سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سہولت ختم ہوئی تو پاکستان کی معیشت کو بھاری نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ ایک طرف تو ہماری حقیقی کارکردگی گزشتہ4 سال میں مایوس کن رہی ہے۔

دوسری طرف بھارت ہے جو پاکستان کو گزند پہنچانے میں ہمہ وقت متحرک رہتا ہے اور وہ اس وقت بھی امریکی و اسرائیلی آشیرباد کے ساتھ پوری قوت اور انتہائی عیاری سے پاکستان کے خلاف یورپی یونین کے ممالک میں لابنگ کر رہا ہے جبکہ اس وقت ہمارے اکابرین اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اپنی توانائیاں صرف کر کے دنیا کے سامنے تماشہ بنے ہوئے ہیں حالانکہ اس وقت ہونا تو یہ چاہئے کہ ہماری وزارت تجارت وخزانہ اور اقتصادی امور کے حکام یکسو ہوکر پاکستان کے تمام تاجروں و صنعتکاروں کے نمائندگان کو ایک صفحے پر لے کر اور تاجروں و صنعتکاروں کے نمائندگان کی آراکو سامنے رکھ کر پوری قوت واتحاد کے ساتھ پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے یورپی یونین میں لابنگ کریں اور ان ممالک میں موجود کمرشل قونصلرز کو مزید متحرک کریں تاکہ ہمارے لیے جی ایس پی پلس کا درجہ برقرار رہے کیونکہ پاکستان کی معاشی فلاح وبقا کا راز اس میں مضمر ہے کہ پاکستان کی برآمدات بڑھیں مگر یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جو امریکا اور یورپ کی تابعداری اور غلامی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں مگر ان ممالک سے ان کی معاشی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی بات نہیں کرتے اورنہ ہی ہماری مصنوعات کی باآسانی رسد کے مواقع حاصل کرتے ہیں جبکہ ہم گذشتہ 50سال سے عموماً اور گذشتہ 17سال سے خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک کے صف اول کے اتحادی بنے ہوئے ہیں اور ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش اور فرمائش کے سامنے سرتسلیم خم کررہے ہیں مگر پھر بھی ناپسندیدہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی تمام ترغلامیوں اور احکامات کی بجاآوریوں کے باوجود مصر کی بھی طرح نہ ہوسکے جس نے اپنے قرضے معاف کرا لیے یا بھارت کی طرح بھی نہ ہوئے جو ان کے نہ کوئی ناجائز مطالبات مانتا ہے اور نہ ان کی سنتا ہے مگر جمی کارٹر ہوں، بش ہوں، کلنٹن ہوں یا اوباما صدر ہوں سب کے سب بھارت کا اپنے سینکڑوں تاجروں و صنعتکاروں کے ساتھ چار چار اور چھ چھ روزہ طویل دورے کرتے رہے ہیں مگر ہمارے یہاں نہ وہ خود آتے ہیں اور نہ ہی اپنے تاجروں و صنعتکاروں کو آنے کے مواقع و ترغیب دیتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ وہ ہر ماہ اپنے شہریوں کو ایڈوائس جاری کرتے ہیںکہ آپ پاکستان نہ جائیں وہاں آپ کی مال و جان کو خطرہ ہے۔ اس سے بڑھ کر ان کی انشورنس کمپنیاں بھی پاکستان کے لیے انشورنس نہیں کرتیں۔

ہماری تمام تر غلامیوں، تابعداریوں ا ور وفاداریوں کے باوجود آج تک امریکا اور یورپ نہ ہم پر اعتبار کرنے اور نہ ہی ہم سے تجارتی روابط استوار کرنے کو تیار ہیں، نہ ہی تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی کوئی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی منڈیوں تک ہماری مصنوعات کی رسائی ہونے دیتے ہیں حالانکہ اس نے کئی رعایتیں دنیا کے کئی ممالک کو دے رکھی ہیں۔ پہلے 2005تک کوٹے کی پابندیاں ہمارے اوپر لاگو تھیں اور ہماری مصنوعات پر مختلف ڈیوٹیاں لگا کر ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان کا تجارتی توازن کسی ملک کے ساتھ بھی قابل ذکر نہیں رہا۔ ان سب حقائق کے باوجود ہمیں ملک کے وسیع ترین مفاد اور معاشی ترقی و بہتری کی خاطر ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور جی ایس پی پلس کا درجہ برقرار رکھنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اس وقت پاکستان کی مجموعی برآمدات کا 60 فیصد ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور اس کا بڑا حصہ یورپی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے اس لیے یہ رعایت برقرار رہی اور ہم اپنے ملک میں برآمد کنندگان کو سہولتین فراہم کرنے میں کامیاب رہے تو عین ممکن ہے کہ ہم اپنی برآمدات دگنی کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ممکن ہے کہ پاکستان کو مزید3 سال کے لیے جی ایس پی پلس کی سہولت حاصل ہو جائے مگر اس کا فائدہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ہماری پیداواری لاگت کم ہو اور پاکستان کے برآمد کنندگان کا دوسرے ملکوں کے برآمد کنندگان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں۔ پاکستان میں بجلی، گیس، پانی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ انتہائی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ہم برآمدات میں بیرونی دنیا اور حریف ممالک سے مقابلے کی سطح سے باہر ہو جاتے ہیں اگر یہی منفی پالیسیاں رہیں تو ہم کبھی بھی جی ایس پی پلس یا اس جیسی کسی بھی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں