خواجہ آصف کے حالیہ بیانات پر سابق فوجیوں کوشدیداعتراضات اورتحفظات
شیئر کریں
پاکستان میں سابق فوجیوں کی تنظیم وٹرنز آف پاکستان (جس کا ماضی میں نام پی ایس اے تھا) کے لیفٹیننٹ (ریٹائرڈ) جنرل علی قلی خان کی زیر صدارت تنظیم کی ایگزیکٹو کونسل کے ایک اجلاس کے بعد جاری کئے گئے ایک بیان میں جس میں سابق وائس ایڈمرل احمد تسنیم، برگیڈئر میاں محمود، برگیڈئر اربی خان، سلیم گنڈاپور، کرنل دلیل خان، میجر فاروق حامد خان، بریگیڈیئر مسعود الحسن اور دیگر شریک تھے نے کھل کر کہا ہے کہ انھیں وفاقی وزرا کے بیانات سے دکھائی نہیں دیتا کہ فوج اور حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک پیچ پر ہیں۔ سابق فوجیوں کی تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے بعد جاری کئے گئے اس بیان سے ظاہرہوتاہے کہ سابق فوجیوں کو وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حالیہ بیانات پر شدید اعتراضات اور تحفظات ہیں۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے حال ہی میں ایک بیان میں پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے سمیت مزید اقدامات کرنے کے امریکی مطالبے سے اتفاق کیا تھاجبکہ ان کایہ بیان دراصل پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کی نفی کرتا ہے جس کے مطابق یہ گروپ کافی پہلے افغانستان منتقل ہو چکا ہے۔اجلاس کے شرکا کا موقف تھا کہ فوجی سربراہ کے بیان کی تائید سابق افغان صدر حامد کرزئی کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان نصف افغانستان پر قابض ہیں لہٰذا وٹرنز کے بقول شدت پسندوں کو پاکستان میں کسی پناہ گاہ کی ضرورت نہیں ہے۔وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے امریکا میں حالیہ بیانات پر پاکستان کی فوج نے تو اب تک کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن سابق فوجیوں کو لگتا ہے کہ وزیر خارجہ کا بیان قابل قبول نہیں ہے۔
سابق فوجی اہلکاروں نے کہا کہ حامد کرزئی کے بیانات کہ امریکا داعش کے جنگجوؤں کو مسلح کر رہا ہے کافی خطرناک پہلو ہے۔ ان کے مطابق یہی بیان دو افغان اراکینِ پارلیمان نے بھی دیا تھا۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بطور صدر انتخاب سے قبل ہیلری کلنٹن پر دولت اسلامیہ تخلیق کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔سابق فوجیوں نے وزیر خارجہ کے اس بیان پر بھی کڑی تنقید کی کہ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو بھارت کے حوالے کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ صرف مچھیرے ہی واپس کیے جاسکتے ہیں۔سابق فوجی افسران کے مطابق امریکا سے واپسی پر وزیر خارجہ نے امریکا کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے آخری موقع ہے اور پاکستان کو نقصان ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دفتر خارجہ نے فوجی سربراہ کے حالیہ کابل کے انتہائی کامیاب دورے کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔اجلاس میں وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے فوج کے ساتھ احتساب عدالت پر رینجرز کی تعیناتی کے معاملے کو ایک نیا محاذ قرار دیا گیا۔سابق فوجیوں کا خیال تھا کہ اس مسئلے پر عوامی سطح پر بیان دینے سے بہتر تھا کہ وہ واپس لوٹ کر تحقیقات کا حکم دیتے۔ بیان کے مطابق وزیر داخلہ کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے کسی نے نہیں روکا تھا وہ تو عدالت میں ایک ملزم کے حامی کے طور پر جا رہے تھے۔
واضح رہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف ملک کے پہلے وزیر خارجہ ہیں جنھوں نے پوری دنیا کے سامنے، کیمرے پر آ کر امریکا اور بھارت کی جانب سے پاکستان پرکئے جانے والے اعتراضات کا دفاع کرنے کے بجائے اعتراض کرنے والے پاکستان مخالف ممالک کے موقف کی تائید کرتے ہوئے حافظ سعید کو پاکستان پر بوجھ قرار دے دیا اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکا کے ساتھ مل کر کارروائی کرنے کاعندیہ دے کر بالواسطہ طورپر امریکا کایہ الزام بھی تسلم کرلیا کہ حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے پاکستان میں موجود ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ پاکستان سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیے پاک فوج نے کتنی بھاری قیمت ادا کی ہے پاک فوج کے کتنے جوانوں کو اس کام کی انجام دہی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑی ہے اور ان قربانیوں کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد ہی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے خم ٹھونک کر یہ اعلان کیاتھا کہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کاصفایا ہوچکاہے اور حقانی نیٹ ورک پاکستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ کر افغانستان منتقل ہوگیا ہے۔یہی نہیں بلکہ ہمارے وزیر خارجہ نے حقانی نیٹ ورک کے علاوہ کچھ دوسرے گروہوں کے نام لے کر بالواسطہ طورپر پاکستان میں ان کے وجود کو بھی تسلیم کرلیا۔
خواجہ آصف جو حافظ سعید کو بوجھ ثابت کرنے پر تلے ہیں وزیرِ خارجہ بننے سے پہلے وزیرِ دفاع ہوا کرتے تھے۔ اصل میں اس وقت تک وزیرِ دفاع عملاًخود نواز شریف ہوتے تھے لیکن جب سپریم کورٹ نے مسنگ پرسنز کے کیس میں حکم جاری کیا کہ کیونکہ دفاعی اداروں کے اہلکار عدالت میں پیش ہونے سے انکاری ہیں اس لیے وزیرِ دفاع خود پیش ہوں۔ نواز شریف کو زْعم تھا کہ وزیرِاعظم عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا اس لیے انہوں نے خواجہ آصف کو وزیرِ دفاع بنایا جو فوراً عدالت عظمٰی میں پیش ہوئے اور مسنگ پرسنز یا انہیں مسنگ بنانے والے اہلکاوں کو ڈھونڈنے کے بجائے وہ سیدھے کراچی پریس کلب پہنچے جہاں بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین نے احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔خواجہ انہیں پیشکش کی کہ وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں اور وہ ٹرین کا کرایہ خود دینے کو تیار ہیں۔لگتا ہے کہ اب وزیرِ خارجہ بن کر بھی خواجہ آصف کی جیب میں صرف ٹرین کا کرایہ ہے لیکن انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ٹرین ا سٹیشن سے کب کی نکل چکی۔
جہاںتک حافظ سعید کا تعلق ہے تو اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ حافظ سعید اور ان کے حامیوںپر پاکستان میں کہیں بھی دہشت گردی کی کسی بھی واردات میں ملوث ہونے کاکوئی الزام نہیں ہے انھوں نے نہ کبھی کسی مسجد پر حملہ کرایا، نہ اسکولوں میں گھس کر بچوں کو شہید کیا، نہ کبھی جی ایچ کیو پر وار کیا ۔دشمن ملک کہتا ہے کہ انہوں نے مْمبئی میں کچھ کیا تو ہم یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اول تو کچھ کیا ہی نہیں اور اگر کیا تو تمھارے پاس ثبوت کیا ہے؟ثبوت پیش کرو ہمارے وزیر خارجہ کو بھی حافظ سعید کو بوجھ قرار دینے کے بجائے امریکا کو یہی بتانا چاہئے تھا کہ اگر ان کے پاس یا ان کے حلیف اول بھارت کے پاس حافظ سعید کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ پیش کرے پاکستان کی حکومت ان ثبوتوں کی روشنی میں حافظ سعید کے خلاف خود کاررروائی کرے گی اوراگر ان پر کوئی قصور ثابت ہواتو انھیں اس کی قرار واقعی سزا دی جائے گی لیکن ہمارے وزیرخارجہ نے جو اس ملک کے غریب عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے بھاری تنخواہ اورمراعات حاصل کرتے ہیں اس ملک کے عوام کی دلی خواہشات کی ترجمانی کرنے کے بجائے امریکا کے سامنے جو پاکستان کے وجود کے درپے ہے جی جناب کی تصویر بن گئے۔ایک آزاد اور خود مختار ملک کے وزیر خارجہ کے اس طرز عمل کوکسی بھی طرح شایان شان قرار نہیں دیاجاسکتا ۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی وزیر خارجہ کے اس طرح کے بیانات کانوٹس لیتے ہوئے ان سے اس حوالے سے سختی کے ساتھ بازپرس کریں گے اور انھیں آئندہ اس حوالے سے محتاط رہنے کی ہدایت کریں گے۔