میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شاہد خاقان عباسی کی امریکا کو یقین دہانیاں

شاہد خاقان عباسی کی امریکا کو یقین دہانیاں

منتظم
هفته, ۲۳ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واشنگٹن کے کونسل برائے خارجہ تعلقات میں ایک گھنٹے طویل نشست کے دوران صحافیوں سے گفتگو اور ان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات 70 سال پرانے ہیں اور پاک امریکا تعلقات صرف افغانستان میں جاری تنازع کی بنیاد پر نہیں ہیں ۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے نمائندہ برائے قومی سلامتی ڈیوڈ سینجر سے گفتگو کے دوران کہا کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کو شکست دینے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم امریکا کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور آئندہ سامنے آنے والے اختلافات کے حل کے لیے بھی مل کر کام کرتے رہیں گے‘۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے بڑھ کر افغانستان میں امن کا خوہش مند کوئی اور ملک نہیں ‘۔انھوں نے افغانستان کی جانب سے سرحد پار دراندازی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کو انتہائی سنجیدہ قراردیااور کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے مفاد میں ہے اور ہم اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں صاف صاف لفظوں میں یہ واضح کردیا کہا کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کا سیاسی یا فوجی کردار نہیں دیکھتا۔وزیراعظم کے مطابق ’افغانستان میں بھارتی مداخلت کچھ حل کرنے کے بجائے صورتحال کو مزید گمبھیرکرنے کا سبب بنے گی‘۔انہوں نے کہا کہ ’بھارت کو افغانستان کی معاشی معاونت کا استحقاق حاصل ہے تاہم ہم افغانستان میں بھارت کے سیاسی یا فوجی کردار کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ ہی اسے تسلیم کریں گے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی واضح کیا کہ طالبان افغان شہری ہیں اور افغانستان کو چاہیے کہ ان سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کرے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی اسلحہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان کا محفوظ، قابل بھروسہ اور مضبوط جوہری کمانڈ اور کنٹرول سسٹم مکمل طور پر سول نگرانی میں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمارے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاری موجود نہیں ہیں ، پاکستان نے بھارت کے کولڈ اسٹارٹ نظریے سے نمٹنے کے لیے کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیار تیار کیے تھے جو دیگر اسٹریٹجک ہتھیاروں کی طرح کڑی نگرانی میں ہیں ‘اوروقت ثابت کرچکا ہے کہ ہمارے جوہری ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے حوالے سے کسی سوال کی گنجائش نہیں ۔ کنٹرول لائن پر کشیدگی کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی جارحیت کا مقصد جموں و کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔وزیراعظم نے امریکی میڈیا کے سامنے اپنے اس موقف کااعادہ کیاکہ پاکستان جموں و کشمیر کے معاملے پر اعتماد اور عزت کی بنیاد پر بھارت سے رابطے کی خواہش رکھتا ہے۔اس سے قبل شاہد خاقان عباسی اور مائیک پینس کے درمیان ملاقات کے بعد سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وزیراعظم نے امریکا کے نائب صدر کو افغانستان اور جنوبی ایشیاکے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کردیاہے اور افغان صدر نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی تھی۔
اب یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیاپاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے محاذ جنگ میں استعمال ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں (ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنز) کے پاکستان کے پاس نہ ہونے کے دو ٹوک بیان نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے ایک حصے کے بارے میں کئی برسوں سے جاری متنازع بحث کو سمیٹ دیا ہے۔وزیراعظم کا یہ بیان کہ پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار نہیں ہیں ، اس موضوع پرپاکستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار کی طرف سے دیا گیا پہلا باضابطہ اور اعلیٰ ترین سطح کا بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔اگرچہ پاکستان نے ان ہتھیاروں کی تیاری کا کبھی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ذخیرے میں ان کی موجودگی کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے باوجود بعض بھارتی اور یورپی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس یہ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ۔
ٹیکٹیکل ہتھیار ان چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کو کہا جاتا ہے جو دوران جنگ، فوجوں کے آمنے سامنے ہونے کے باوجود استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔یہ ہتھیار اتنے چھوٹے اور محدود دائرہ اثر والے ہوتے ہیں کہ انہیں دشمن کی پیش قدمی کی صورت میں اپنی سرزمین پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہتھیار ایک گولی کی صورت میں ایک مخصوص بندوق سے بھی چلائے جا سکتے ہیں ۔پاکستانی حکومت ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کی روایتی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے۔اسی لیے بھارت نے چند برس قبل جب ’کولڈ ا سٹارٹ ڈاکٹراین‘ کے نام پر ایک مبینہ جارحانہ فوجی حکمت عملی اپنائی تو پاکستانی ایٹمی ماہرین نے اس کے جواب میں زیادہ مؤثر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے کا اعلان 9 ستمبر 2015 کو پاکستان کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اس اعلیٰ ترین ایٹمی پالیسی ساز ادارے کے اجلاس میں پاکستان کی ایٹمی پالیسی کو ایک نیا رخ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان نے ‘فل ا سپیکٹرم ڈیٹرنس کیپیبلیٹی نامی پالیسی کے تحت چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔نصر میزائل اسی سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ہے لیکن ماہرین 60 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اس میزائل کو ٹیکٹیکل میزائل ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔پاکستان میں ان چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں پاکستانی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کرنے والے ادارے ایس پی ڈی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد قدوائی کہتے ہیں کہ بھارت کی جنگی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو ٹیکٹیکل ہتھیار بنانے چاہئیں ۔’اگر آپ دیکھیں کہ ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے علاوہ پاکستان کے پاس کس قسم کے جوہری ہتھیار موجود ہیں ، تو تب بھی جنوبی ایشیا میں عقل حاوی رہے گی کیونکہ دونوں ملک جانتے ہیں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ یقینی ہے کہ دونوں ملک تباہ ہو جائیں گے‘۔بعض دیگر پاکستانی ماہرین ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے حصول کے مخالف بھی ہیں ۔ایس پی ڈی ہی میں آرمز کنٹرول برانچ کے سابق سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم احمد سالک کے مطابق ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا حصول نہ صرف خطرناک بلکہ پاکستان کی ایٹمی پالیسی سے انحراف بھی ہو گا۔’پاکستان کی ایٹمی پالیسی کا محور دفاع ہے نہ کہ جارحیت، اور یہ چھوٹے ایٹمی ہتھیار جارحیت کی نمائندگی کرتے ہیں جو خطے میں استحکام کا ضامن نہیں ہو سکتی۔‘ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حامی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان ہتھیاروں کی دیکھ بھال دیگر بڑے ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہوتی ہے اور ان ہتھیاروں کے چوری ہونے اور غیر متعلقہ افراد کے ہاتھ لگنے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس اعتبار سے پاکستان نے اس قسم کے ایٹمی ہتھیار تیار نہ کرکے ایک ذمہ دار ملک ہونے کاثبوت دیا ہے، لیکن بھارتی حکومت اور خاص طورپر بھارتی فوج کے سربراہ گزشتہ چند ماہ کے دوران جس طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں اس سے یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ بھارت پاکستان کو اسی طرح ایٹمی ٹیکٹیکل اسلحہ بنانے کی جانب دھکیل رہاہے جس طرح اپنی جارحانہ روش کے ذریعہ پاکستان کو ایٹم بم بنانے پر مجبور کیاتھا اس لیے اگر عالمی برادری اس خطے کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتی ہے تو یہ ضروری ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو دھمکیوں کے جواب میں پاکستان کی پشت پر کھڑی ہو تاکہ امریکا کے ہوش وحواس کھو بیٹھنے والے مخبوط الحواس صدر کو یہ اندازہ ہوسکے کہ قوموں کی برادری میں پاکستان تنہا نہیں ہے اور پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحانہ قدم کا انتہائی سخت جواب مل سکتاہے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے سفارت خانوں کو اتنا مضبوط بنائے کہ وہ مختلف ممالک کے سربراہوں کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں اور امن کے لیے اس کی کوششوں کاقائل کرسکیں جبکہ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی قربانیوں کا کھل کراعتراف کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا اور خاص طور پر مغربی ممالک بھارت کے جھوٹ کو تو سچ ماننے کو تیار ہیں اور سچ مان رہے ہیں لیکن پاکستان کے سچ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ حکومت اپنے سفارت خانوں کو فعال بنانے کے لیے محض سفارش اور ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر سفارتکاروں میں تعینات کئے جانے والوں کو ہٹاکر حقیقی معنوں میں قابل سفارت کاروں کو یہ ذمہ داری سونپنے پر غور کرے اور پاکستانی سفارت خانوں کوہمہ وقت فعال رکھنے کے لیے ان کی کارکردگی کی باقاعدگی سے نگرانی کانظام وضح کرے ،جب تک ایسا نہیں کیاجائے گا محض زبانی کلامی یقین دہانیوں اور بیانات سے اس ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتاہے اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک بھی پاکستان کے احتجاج کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرتے رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں