میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسئلہ کشمیر پوری قوت سے عالمی برادری کے سامنے اٹھانے کی ضرورت

مسئلہ کشمیر پوری قوت سے عالمی برادری کے سامنے اٹھانے کی ضرورت

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۱ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، افغانستان کے ساتھ یہ معاملہ متعدد مرتبہ اٹھایا ہے۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے، رواں ہفتے 15 معصوم کشمیری شہید کردیے گئے، عالمی برادری معصوم کشمیریوں کا قتل عام رکوانے میں ناکام رہی ہے ، نفیس زکریا نے بتایا ہے بھارت مقبوضہ کشمیر میں اکثریتی مسلم علاقوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے ،انھوں نے واضح کیاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دی ہیں اور پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے تاہم بھارت پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو 70 سال کا عرصہ گزر چکا ہے،ان70برسوں کے دوران ہزاروں کشمیری آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ اب بھی مقبوضہ کشمیر کابچہ بچہ آزادی کے حصول کیلئے جان کی بازی لگانے کوتیار ہے،دوسری جانب جیسا کہ نفیس زکریا نے بتایا ہے کہ بھارت ممکنہ رائے شماری کے نتائج پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک سازش کے تحت بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا ہے لہذا عالمی برادری بھارتی ہتھکنڈوں کا نوٹس لے۔
عالمی برادری سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت رواں برس 2017 کے دوران کنٹرول لائن کی 500 سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کرچکا ہے، بھارت اس طرح کے حربوں کے ذریعہ دراصل عالمی برادری کی تومقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتاہے، بھارت چاہتا ہے کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے ثابت کر سکے کہ سرحد پار سے دراندازی ہو رہی ہے،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی درندگی ،حقوق انسانی کی پامالی اور ماورائے عدالت قتل کا اندازہ 2006 میں وادی میں ملنے والی اجتماعی قبروں سے لگایاجاسکتاہے جن میں سیکڑوں کشمیری دفن تھے، ڈی ین اے ٹیسٹ سے ثابت ہوچکاہے کہ یہ تمام لوکل کشمیری تھے۔ اب بھارت پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے ،پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان کے ساتھ یہ معاملہ متعدد مرتبہ اٹھایا جاچکاہے جب کہ امریکا کے سامنے بھی افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال کا معاملہ رکھا جاچکا ہے۔
اب جبکہ امریکا افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی حکام اس حقیقت کوتسلیم کریں کہ ہر مسئلہ صرف طاقت سے حل نہیں ہوسکتا مسائل کے حل کا بہترین راستہ مذاکرات ہیں اور افغان مسئلے کا حل بھی مذاکرات ہی سے نکل سکتاہے، اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کایہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ حزب اسلامی کے ساتھ ہی طالبان سمیت تمام متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریانے بجاطورپر یہ واضح کیا ہے کہ ہم افغان پناہ گزینوں کی با عزت واپسی چاہتے ہیں تاہم کسی افغان پناہ گزین کو زبردستی واپس نہیں بھیجا گیا، افغان پناہ گزین اپنی مرضی سے ایک منظم پروگرام کے تحت وطن واپس جا رہے ہیں۔
جہاں تک مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کاتعلق ہے تو عالمی میڈیا اس کاگواہ ہے کہ قابض فوج کی بربریت کے خلاف مقبوضہ وادی میں مظاہرے اور ہڑتالیں جاری ہیں عالمی برادری کافرض ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیے کا نوٹس لے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مسئلہ کشمیر کو انسانی المیہ بنانے میں بھارت کے علاوہ سوویت یونین، امریکا اور برطانیہ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس کے باعث بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے منحرف ہونے میں آسانی ہوئی۔ پاکستان نے جب بھی سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھائی تو سوویت یونین نے قرارداد کو ویٹو کردیا، یوں ایک کروڑ مظلوم کشمیریوں کا مستقبل بین الاقوامی سیاست کی سازشوں کے بھینٹ چڑھایا جاتا رہا۔ در پردہ امریکا اور برطانیہ بھی بھارت کی حمایت کرتے رہے۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جب تک عالمی برادری نوٹس نہیں لے گی کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ عالمی برادری کا بھی انسانی حقوق کے بارے میں معیار دْہرا ہے۔ اگر معاملہ جنوبی سوڈان‘ مشرقی تیمور اور اسرائیل کا ہو تو مغربی ممالک ایک پیج پر آجاتے ہیں اور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ شمالی سوڈان کی مسلم اکثریت جنوبی سوڈان کی مسیحی اقلیت پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ یہی کیس مشرقی تیمور اور انڈونیشیا کا تھا لیکن جب کشمیریوں کا مسئلہ درپیش ہو تو ساری قوتیں، بھارت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔اس تناظر میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی برادری کی بھرپور حمایت حاصل کرنا ضروری ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سیاسی، سفارتی اور اخلاقی ذرائع استعمال کرتے ہوئے دْنیا بھر کے آزادی پسندوں اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم سے آگاہ کرکے بھارتی حکمرانوں پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو بڑھانے کی کوشش کرے اگر عالمی برادری اس مسئلے پر کشمیریوں کابھرپور انداز میں ساتھ دینے پر تیار ہوجائے تو بھارت یقینا عالمی رائے عامہ کا دبائو برداشت نہیں کرسکے گا۔
عالمی براردی کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بھارت تنازع کشمیر کو خود اقوام متحدہ میں لے کر گیاتھا اور اقرار کیا تھاکہ وہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے گا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا اور بھارت کو رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی۔لیکن عالمی ادارے کی قرارداد کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بھارت اپنے وعدے سے منحرف ہوگیا اوروہ اپنی من مانی تاویلیں کرنے لگا ۔ کشمیری اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی راہ میںلاکھوں جانیں قربان کر چکے ہیں۔ آزادی کے لیے دنیا میں شاید ہی کسی قوم نے اتنی جانی قربانیاں دی ہوں۔ اس تناظر میں دبئی کانفرنس کے شرکاکی کاوشیں اپنی جگہ قابل تحسین ہیں لیکن بھارت پر ایسی قراردادوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری اور خود بھارت کے اندر بیٹھے منصف مزاج لوگ بھارت کو جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد اور اعتماد کی بحالی کے اقدامات پر آمادہ کریں۔ اسی طرح بڑی طاقتیں امریکا، روس اور دوسری عالمی طاقتیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احساس کریں اور بھارت پر دبائو ڈالیں بصورت دیگرنہتے کشمیریوں کا خون بہتا رہے گا۔
اب جبکہ 4سال کے طویل انتظار کے بعد ملک میں ایک کل وقتی وزیر خارجہ کاتقرر کیاجاچکاہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر پوری قوت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے اٹھایاجائے اور دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر یہ مسئلہ فوری طورپر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیاجاتا تو یہ خطہ کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کاایندھن بن سکتا ہے جس سے صرف بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک بھی اس آگ سے نہیں بچ سکیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں