چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے بنیادی حقوق کے تحفظ کاعزم
شیئر کریں
پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز ایک بیان میں اس عزم کااظہار کیا ہے کہ خلاف آئین اقدام پر کسی بھی اتھارٹی یا ادارے کو روکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کوئی اتھارٹی یا ادارہ آئین کے خلاف وئی کام کرتاہے تو تو عدالت کو اسے روکنے کا اختیار حاصل ہے۔ چیف جسٹس صاحب محترم نے ایک مرتبہ پھر اس بات کی تلقین کی کہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر ذمے داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ خلاف آئین اقدام اور کارروائیوں کو روکنا اورقانون کی حکمرانی کو ہر صورت میں برقرار رکھنا عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ناانصافیاں قوموں کو افرا تفری اور انتشار کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کیاجاسکتا کہ ملک میں جمہوریت کے تحفظ اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کو یقینی بنایاجائے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں اور اس کے ذمہ داروں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے،اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیںکہ عدلیہ بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بناتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے عمومی طورپر مکمل طور پر آزاد کبھی بھی نہیں رہے یہ صحیح ہے کہ گزشتہ 70سال کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے بعض جج صاحبان انصاف کی فراہمی کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں جس کی وجہ سے جسٹس کارنیلس جیسے معزز جج صاحبان کا نام آج بھی ہر طبقہ خیال کے لوگوں میں عزت واحترام سے لیا جاتا ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والے بعض حضرات نے جن کے نام گنوانا ضروری نہیںاس کرسی کے ساتھ انصاف نہیں کیا ،عدلیہ کو آزادی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کے مواقع فراہم کرنے کے نعرے ہر دور کے مقبول نعرے رہے ہیں ،اور اس میں شک نہیں کہ عدلیہ کو آزادانہ فیصلے کرنے سے کبھی کسی نے نہیں روکا اور عدلیہ کو ہمیشہ سے ایسے اختیارات حاصل رہے ہیں کہ وہ آزادنہ طورپر فیصلے کرکے ان پر عملدرآمد کراسکے لیکن اس کے باوجود عدالتی کرسی پر بیٹھنے والے تمام لوگ اس منصب کے تقاضے پورے کرنے اور کسی استثنیٰ کے بغیر غریب اور امیر سب کو ایک ہی قطار میں کھڑا کرکے ایک ہی طرح کے جرم میں ایک ہی طرح کی سزا سنانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ اوراعلیٰ ترین عدلیہ کی اونچی ترین کرسی پر بیٹھنے والے جج حضرات کی ذمے داریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ جمہوری ممالک میں ا انصاف کی فراہمی کے ساتھ جمہوریت کا تحفظ بھی ان کے پیش نظر ہوتاہے کیونکہ عدلیہ کی آزادی کے لیے جمہوریت کا تحفظ بھی شرط اول ہے۔ اس طرح چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ کی ذمہ داریوں کاخود ہی ذکر کرکے اپنی او ر اپنے ساتھی جج صاحبان کی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ کرلیا ہے اور ان سے اس ملک کے کچلے ہوئے عوام کی توقعات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر بھی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔چیف جسٹس صاحب کے اس بیان کے بعد قوم یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہے کہ اب عدالت عظمیٰ ان کے بنیادی حقوق کا بھی تحفظ کرے گی اور خلاف آئین اقدام پر کسی ادارے یا اتھارٹی کو روکنا ممکن ہو سکے گا۔اس میں کوئی شبہ نہیں اورخود چیف جسٹس صاحب بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ گزشتہ کئی برس کے دوران ایجنسیاں بھی حد سے گزرچکی ہیں جو پاکستان میں اتھارٹی کہلاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے خلاف آئین اقدام کو روکنے کی بات کی ہے لیکن خلاف آئین اقدام صرف مارشل لا نہیں ہوتا۔بلکہ حقیقت یہ ہے آج کل ہزاروں شہری اپنے ہی ملک کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتا ہیں۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس کہتے ہیں کہ عدلیہ انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بناتی ہے لیکن یہ کام عملاً ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس کاکہناہے کہ انسانی حقوق ہی کے ذریعے گزشتہ سال 29ہزار 657 شکایات کو نمٹایا گیا لیکن ایک سال میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں 6 ہزارکا اضافہ ہوگیا۔ کہنے اور سننے میں یہ باتیں اچھی لگتی ہیں کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں لیکن ان اداروں کو تو حدود میں رکھنے کا عمل بڑا سخت ہے اس کی بنیادی شرط تو یہ ہے کہ جو ادارہ سب کو حدود میں رکھے وہ خود بھی حدود و قیود کا پابند ہو۔ تمام خرابیوں اورر کمزوریوں کے باوجود پاکستانی قوم کو عدالت عظمیٰ سے بڑی امید ہے۔ یہ بات بھی محل نظر رہنی چاہیے کہ آئین کی خلاف ورزی میں بنیادی اہمیت بنیادی انسانی حقوق کی ہے۔ لوگوں کو پولیس تھانے اور ماتحت عدلیہ سے انصاف نہیں مل رہا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس اہلکار خود کو انصاف کامنبع تصور کرنے لگے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر پولیس افسران خود ہزاروں مقدمات میں ملوث ہوتے ہیں اورقتل اور اقدام قتل جیسے مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ تھانوں میں ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں بلکہ ترقی کے منازل بھی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے طے کررہے ہوتے ہیں،ہماری عدلیہ ، نیب، اینٹی کرپشن یا ایف آئی اے میں سے کوئی بھی ادارہ ان سے یہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ وہ اپنی جائز آمدنی سے سیکڑوں گنا زیادہ رقم خرچ کرکے عیاشی کی زندگی کیسے گزار رہے ہیں، ان کے بچے بیرون ملک تعلیم کیسے حاصل کررہے ہیں اور ان کے گھر پر کئی کئی گاڑیاں کیسے موجود ہیں، ہمارے ملک میں کرپشن کے ذریعہ ڈیفنس جیسے علاقے میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں بنانے والے بدنام زمانہ پولیس افسر کی ہلاکت پر وزیر اعلیٰ اس کے اہل خانہ کو کروڑوں روپے معاوضے کے طورپر ادا کرتے ہیں اور اس کی خدمات کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ ایک معمولی پولیس افسر نے اتنی بڑی جائیداد اور محل کس طرح بنالیے ۔ یہ تو صرف محکمہ پولیس کی بات ہے ماتحت عدلیہ کے بارے میں خود عدالت عظمیٰ واقف ہے کہ وہاں کیا ہوتا ہے بلکہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی بے گناہ کے پھانسی چڑھنے کے بعد ان کے بریت کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔ 11 ستمبر ہی کو سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو 5 سال ہوگئے لیکن5سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اب تک اس کے ذمہ دار کسی فرد کو نہ صرف یہ کہ سزا نہیں ہوسکی بلکہ ابھی تک اس کے ذمہ داروں کاحتمی طور پر تعین بھی نہیں ہوسکا ہے ۔ یہ بھی تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے یہ واضح کردیا ہے کہ عدلیہ کو خلاف آئین اقدام کو روکنے کا اختیار ہے، کراچی سے وزیرستان تک پاکستانی عوام بہت سے خلاف آئین اقدامات کو بھگت رہے ہیں ان کے ذمہ دار اداروں کو روکا اور ٹوکا جانا بہت
ضروری ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک نے عوام کو بری طرح لوٹا ہے۔ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کو تباہ کرنا بھی عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ پورے ملک میں آلودہ پانی، آلودہ خوراک اور مضر صحت اشیائے خور ونوش کی فراہمی بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔ ’’اتھارٹی‘‘ کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ جب خلاف آئین اقدام کرتی ہے تو اس اقدام کے تحفظ کا انتظام بھی کرتی ہے پاکستان میں اسے کبھی نہیں روکا جاسکا۔ عدالت عظمیٰ اتھارٹی کو چھوڑے چھوٹے چھوٹے اداروں کی زیادتیوں سے عوام کو نجات دلادے تو اس کی اپنی اتھارٹی اتنی مستحکم ہوجائے گی کہ کسی کو اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوگی۔
امید کی جاتی ہے کہ چیف جسٹس صاحب اپنے بیان کو عملی جامہ پہنانے اور اس ملک کے پسے اور کچلے ہوئے غریب عوام کوناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے نہ صرف یہ کہ از خود اقدامات شروع کریں گے بلکہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے جلد تصفیے کو بھی یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کریں گے ، تاکہ غریب عوام کو انصاف کے حصول کے لیے برسہابرس تک عدالتوں کے چکر لگانے اور وکلا کو بھاری فیسیں ادا کرنے کے باوجود ان کی خوشامد کرنے سے نجات مل سکے۔