مسلم لیگ کا مجوزہ اتحاد، چودھری شجاعت کا مشن کراچی
شیئر کریں
پیرپگاڑاکی جانب سے مسلم لیگ کے تما م دھڑوں کومتحدکرنے کے اعلان پر سربراہ ق لیگ دوڑے ڈورے کراچی چلے آئے
چودھری شجاعت کی پیرپگاڑا اورغوث علیشاہ سے ملاقاتوں کے بعدن لیگ کے سواتمام لیگی دھڑوں کے اتحادپرکام شروع ہوگیا
لیگی دھڑوں کے اتحادکی کوششیں کامیا ب رہیں توایک نئی سیاسی قوت ابھرکرسامنے آئیگی‘عوام کے لیے صحیح قیادت کاانتخاب آسان ہوگا
الیاس احمد
متحدہ بھارت میں کانگریس کے مقابلہ میں صرف ایک ہی پارٹی تھی جس نے مسلمانوں میں شعور پیدا کیا وہ مسلم لیگ تھی۔ مسلم لیگ نے نہ صرف مسلمانوں کو بیدا ر کیا بلکہ انگریزوں کی بھی نیندیں حرام کیں اور جو ہندو رہنما خفیہ طور پر انگریزوں کے آلہ کار بنے ہوئے تھے ان کو بھی مسلم لیگ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ مسلم لیگ نے لاہور میں 1940 میں کنونشن کرکے ایک الگ ریاست کی بنیاد ڈالی۔ ڈھاکا، لاہور، کراچی ، پشاور ایسے شہر تھے جن میں مسلم لیگ مضبوط ہونے لگی تھی ،اسی طرح ریاستی (صوبائی) اسمبلیوں میں مسلم لیگ مضبوط ترہوتی جا رہی تھی انہی دنوں میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی اس جنگ عظیم میں یورپ تباہ ہوگیا خصوصاً برطانیا تو مالی، فوجی، اقتصادی اور معاشی لحاظ سے اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ اس کی مقبوضہ علاقوں پرقائم گرفت کمزورہونا شروع ہوگئی اوراس نے دنیا بھرسے قبضے ختم کرنے شروع کردیے۔لیکن وہ اپنی طاقت بھی برقراررکھنا چاہتاتھا اس کی خواہش تھی کہ ایک بار پھر سپر پاور کی حیثیت سے ابھرے اور دنیا بھر پر قبضہ جمالے ۔ اپنی اس خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر دنیا سے آئے ہوئے یہودیوں کو بلا کر جمع کیااور اسرائیل کے نام پر ایک نئی ریاست قائم کر دی گوری سرکارنے اسی پر بس نہیں کیا اسرائیل کوکو فوری طور پر تسلیم بھی کرلیا۔
ادھرنہ چاہتے ہوئے بھی برصغیر کوچھوڑکرجانے پر مجبورہونے والے نے یہاں کی تقسیم کچھ اس طرح کی کہ فساد کا بیج بودیا۔شیطانی جڑ مضبوط کرلی گئی۔ پنجابیوں کو دو حصوں میں کشمیریوں کو دو حصوں میں ، تاملوں کو دو حصوں میں ، بنگالیوں کو دو حصوں میں ، پختونوں کو تین حصوں میں (ایک خیبر پختونخوا، دوسرا بلوچستان اور تیسرا افغانستان) سندھیوں کو تین حصوں (ایک سندھ، دوسرا بلوچستان اور تیسرارن کچھ بھارت) ، بلوچوں کو تین حصوں میں (ایک بلوچستان، ایک سرائیکی بیلٹ پنجاب اور ایک ایران) میں تقسیم کر دیا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا اس تقسیم سے برصغیر میں آج تک امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان بنا تو مسلم لیگ کو اقتدار ملا۔ قائداعظم کے بعد لیاقت علی خان آئے، اس وقت تک مسلم لیگ بھی مضبوط رہی۔ جب ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت انہوں نے بلدیاتی ممبران سے ووٹ لے کر کنونشن مسلم لیگ بنائی اور اپنے اقتدار کو طول بخشا، پھر یحییٰ خان نے کچھ عرصہ تک مسلم لیگ کی سرپرستی کی لیکن 1970 کے عام انتخا بات میں مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کامیاب ہوئیں ۔ اصل میں اسی دورمیں حصول اقتدارکے لیے سازشیں شروع ہوئیں ۔ بنگالیوں نے مسلم لیگ چھوڑ کر عوامی لیگ بنائی جس نے 1970 کے عام الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اقتدار شیخ مجیب کو نہیں دیا گیا تو’’اِدھرہم اُدھرتم ‘‘کانعرہ لگا۔ یوں ملک دولخت ہوگیا۔ مغربی پاکستان مکمل طور پر پاکستان کہلایا اور اس کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بن گئے اورمشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیااوروہاں اقتدارکی باگ دوڑشیخ مجیب الرحمن نے سنبھال لی۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں تو پاکستان میں مسلم لیگ نہ ہونے کے برابر تھی لیکن جب اس دورکے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگاکربھٹوکااقتدار ختم کیا تو ایک بارپھرمسلم لیگ کو مضبوط بنایا گیا۔ پیر پگارا کی سربراہی میں مسلم لیگ کے چھوٹے موٹے دھڑے یکجا ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پیر پگارا کے حمایت یافتہ محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم بن گئے،بات یہیں پرختم نہیں ہوتی، ایک بارپھر مسلم لیگ کے دھڑے بننے لگے۔ 1988 میں عام الیکشن کے بعد مسلم لیگ کا ایک دھڑا نواز شریف کی سربراہی میں بنا۔دوسرا دھڑا پیر پگارا کی سربراہی میں تیسرا دھڑا ملک قاسم کی سربراہی میں بنا۔ پھر آگے چل کر حامد ناصر چٹھہ نے بھی مسلم لیگ (ج) کے نام سے الگ گروپ بنالیا اور یہ سلسلہ 1999 تک جاری رہا۔
12 اکتوبر 1999 کو فوجی جرنیلوں نے نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا تو پھر ایک سال بعد مسلم لیگ (ق) کے نام سے نیا گروپ تشکیل پایا۔ اس دوران مسلم لیگ (ج) کمزور اور مسلم لیگ (ملک قاسم) کا گروپ ختم ہوچکا تھاکیونکہ ملک قاسم کے انتقال کے بعد کبیر واسطی نے پارٹی کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اسی لیے وہ آگے چل کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔2001 میں مسلم لیگ (ق) سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری پہلے میاں اظہر کو پارٹی کاسربراہ بنایا گیا۔ لیکن جب وہ الیکشن میں ہار گئے تو ان کی جگہ چودھری شجاعت حسین کو پارٹی سربراہ بنا دیا گیا جو تاحال سربراہ ہیں ۔ جب پرویز مشرف کا اقتدار 2008کے عام الیکشن کے بعد ختم ہواتو مسلم لیگ (ق) بھی سکڑتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اب مسلم لیگ (ق) صرف پنجاب کے چند اضلاع میں چند نشستوں کے ساتھ موجود ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اب کوئی رکن پارلیمنٹ نہیں ہے۔ پارٹی کے صوبائی صدر اسد جونیجو اور جنرل سیکریٹری طارق خان اور سینیٹر نائب صدر ابو سرور سیال ہیں ۔ اس طرح دیگر دونوں صوبوں میں بھی مسلم لیگ (ق) برائے نام رہ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں پیر پگارا نے بیان دیا کہ اب وقت آیا ہے کہ مسلم لیگیوں کا اتحاد ہونا چاہیے۔ اس پر چودھری شجاعت حسین دوڑے دوڑے کراچی چلے آئے۔ اُنہوں نے پیر پگارا اور سید غوث علی شاہ سے ملاقات کی اور ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل پائی تاکہ ملک بھر میں ایک مسلم لیگ بن سکے۔ ابتدا میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو ساتھ ملایا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کے لیے رابطے تیز کر دیے گئے ہیں اور جو خاموش ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں ان کو بھی فعال کرنے کے لیے ان سے رابطے کیے جا رہے ہیں ۔ مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے کے لیے پیر پگارا کی کوششیں قابل ستائش ہیں مگر مسلم لیگ (ق) کی کوشش ہے کہ نواز شریف کے سوا باقی تمام مسلم لیگی اکٹھے ہوجائیں تو پھر ملک
بھر میں مسلم لیگ نئی قوت بن کر ابھرے گی۔ اس مقصد کے لیے پیرپگارا نے عیدالاضحی کے بعد سندھ بھر کے دوروں کا پروگرام بنایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ کا اتحاد اور ایک منظم پارٹی بنانے کی کوششیں کب رنگ لائیں گی کیونکہ عوام تیسری سیاسی قوت ضرور دیکھنا چاہتے ہیں ۔