میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نااہلی پر نواز شریف کاپیچ وتاب

نااہلی پر نواز شریف کاپیچ وتاب

ویب ڈیسک
هفته, ۱۹ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعدمسلسل پیچ وتاب کھارہے ہیں کبھی وہ عوام کے اجتماعات میںانتہائی مظلومیت کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ انھیں کیوں نکالا گیا؟ اور کبھی وہ نااہلی کا فیصلہ سنانے والے معزز جج حضرات کو تنقید کا نشانا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی آئین کی ان شقوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ نااہل قرار دیے گئے ۔اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ نواز شریف قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے ’’سچا اور ایماندار‘‘ ہونے کی شرط ختم کرناچاہتے ہیںتاکہ مستقبل میں کسی بھی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر جھوٹ بولنے اورعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے کسی بھی دروغ گو اوربے ایمان فرد کامحاسبہ نہ کیاجاسکے ،اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے اپنے چند وفادار وزراء اورارکان اسمبلی کو آئین سے ارکان اسمبلی کے لیے صادق اور امین ہونے کی شرط ختم کرانے کے لیے اسمبلی میں موجود دیگر پارٹیوں کے ہنمائوں سے رابطہ کرکے انھیں آئین کی ان شقوں کی موجودگی کے اثرات سے ڈراکر ان کوختم کرنے پر رضامند کرنے اورآئین میں ترمیم کے لیے مسلم لیگ کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے اور اطلاعات کے مطابق ان لوگوں نے اپنا کام بھی شروع کردیاہے لیکن اطلاعات کے مطابق ان لوگوں کومایوسی کے سو ا کچھ نہیں مل سکاہے اور اسمبلی میں موجود تمام بڑی جماعتوں نے اس مرحلے پر نواز شریف کاساتھ دینے سے انکار کردیا ہے اورتمام پارٹیوں کا ایک ہی موقف ہے کہ اگر نواز شریف کی بات مان کر آئین سے متعلقہ شق حذف کرادی گئی تومستند ’’ جھوٹا اور بے ایمان‘‘ بھی قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل قرار پاجائیگا۔ آئین میں ’’صادق و امین‘‘ کی شق نواز شریف کے محسن ومربی جنرل ضیاکا تحفہ تھی جسے اب نواز شریف آمریت کی ’’یادگار‘‘ قرار دے رہے ہیںاور ان کاکہنا ہے کہ آمریت کی یہ یادگار ہٹائے جانے کے بعد آئین بالکل پاک صاف اور خالص جمہوری بن جائیگا۔کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی موثر بہ ماضی ہوگی تاکہ ’’جھوٹ اور بے ایمانی‘‘ پر نااہل ہونے والے اس آئینی اشنان کے بعد گنگا نہائے پوتر ہو سکیں۔ اس کے علاوہ اطلاعات کے مطابق صدر مملکت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم، کابینہ اور سارے اراکین پارلیمان کو بھی مکمل عدالتی استثنیٰ دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ جس کے بعد کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف عدالتوں میں کسی کیس کی سماعت نہیں ہو سکے گی۔
ریاستی اداروں سے نواز شریف کی محاذ آرائی کوئی نئی بات نہیں ہے، نواز شریف ریاستی اداروں سے گزشتہ تین دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح زور آزمائی کرتے رہے ہیں ۔سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد وہ جی ٹی روڈ پر اپنے حامیوں اور ساتھیوں سے 250 کلو میٹر کے طویل سفر میں بار بار ایک ہی سوال پوچھتے رہے ہیں میراجرم کیا ہے؟ 5 ججوں نے مجھے ایک منٹ میں کیسے نااہل کردیا اوران کے ساتھی یہ لَے اٹھاتے رہے کہ معاملہ تو پاناما کا تھا لیکن سزا اقامے پر سنائی گئی۔جمہوریت اورپارلیمانی بالادستی کا ورد کرتے ہوئے نوازشریف یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت اورپارلیمان صرف ان کی ذات کا نام نہیں ہے یہ وزیراعظم کے منصب سے مشروط نہیں ہے پارلیمانی نظام میں ایک کابینہ ہوتی ہے‘ پارلیمان کسی عمارت کونہیں کہتے۔پارلیمان سیکڑوں منتخب عوامی نمائندوں سے مل کر تشکیل پاتی ہے آزاد عدلیہ اورصدر مملکت وفاق کی علامت ہوتا ہے وزیراعظم تن تنہا کچھ بھی نہیں ہوتا ،نواز شریف 4 برس وزیراعظم رہے کیا وہ یہ بتاسکتے ہیں کہ وہ ان4برسوں کے دوران کتنی بار پارلیمان کے اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ 4 سال میں شاید ہی درجن بار آپ نے پارلیمان کو شرف باریابی بخشا ہو گا اورکابینہ کے کتنے اجلاس بلائے گئے کسی کو کچھ علم نہیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اقتدار کے آخری سال میں شاید کابینہ کا وفاقی کابینہ کا صرف ایک اجلاس ہو پایاتھا ہمارے نوجوان رپورٹروں میں محنت اورپتہ ماری کا جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے ورنہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے اس طرح کے بے ضرر اعدادوشمار حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ نوازشریف کے گذشتہ دورکا تو یہ عالم تھاکہ ارکان اسمبلی کس شمار و قطار میں وفاقی وزراان کے دیدارکوترستے تھے۔ نااہلی کے بعد اب نواز شریف فرماتے ہیںکہ اب میں نظریاتی ہوگیا ہوں لیکن وہ اپنے نظریے کی کوئی وضاحت نہیں فرماتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب وہ سچے جمہوریت پسند بن چکے ہیں تو اپنی جماعت کی جمہوری اصولوں کے مطابق تنظیم کریں ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کی بجائے ان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں۔ جی ٹی روڈ پر چار روزہ لانگ مارچ کے دوران نواز شریف بار بار 5 ججوں کا ذکر کرتے ہوئے ان تین ججوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے فوری طورپر آپ کونکالنے کی بجائے جے آئی ٹی بنا کر تفتیش کرانے کا اکثریتی فیصلہ دے کر آپ کی مہلت عمل میں کئی مہینوں کا اضافہ کردیا تھا اس فیصلے پر ان کی جماعت اور حامیوں نے سارے ملک میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو حق اور سچ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی فتح بھی قرار دیا تھا لیکن یہ سب کچھ بھول کر فراموش کر کے نواز شریف بار بار ایک ہی سوال کررہے ہیں کہ بیٹوں سے تنخواہ نہ لینے پر اقامہ بنوانے پر نااہلی بلاجواز ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ ان دوفاضل جج صاحبان کے فیصلے کو نظرانداز کردیتے ہیں جس میں کالی دولت کا ساری دنیا میں کھیل عیاں ہوتا ہے۔نواز شریف اس عدالت، سے بدگماں ہیں جس نے ہمیشہ ان کے ساتھ انصاف کیا ہے جس نے ان کی برطرف حکومت بحال کرنے کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا جس نے جلاوطنی سے واپسی پر پارلیمان تک ان کا راستہ صاف کیاتھا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی آئین میں تبدیلیوں کا چکر چلانے والے نواز شریف کو اس بات کااحساس نہیں ہے کہ اب دنیا بھرمیں انسانی ضمیر دیانت اور شفافیت کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ مہذب دنیا میں عوامی نمائندوں سے فرشتوں جیسی پاکیزگی اور دیانتداری کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ویسے قوانین سب ہی اچھے ہوتے ہیں اصل مسئلہ ان پر خلوصِ نیت سے عمل کرنے کا ہوتا ہے۔ نواز شریف یقینا خوش بخت ہیں کہ سپریم کورٹ سے سزا کے بعد بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جیسے جاںنثار ان کو اصلی وزیراعظم قرار دے رہے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تاریخ کی مخالف سمت کھڑے ہیں جہاں عوامی نمائندوں سے فرشتوں جیسی پاکیزگی اور دیانتداری کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔اور نواز شریف نئے آئینی ڈھانچے میں من پسند ترامیم کرکے جمہوریت کی بالادستی کے نام پر استثنیٰ مانگ رہے ہیں جس سے ہم عالمی برادری میں مذاق بن کر رہ جائیں گے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے سے آزاد عدلیہ کا تشخص استوار ہوا ہے۔
نواز شریف کو حقیقت کا ٹھنڈے دل سے اعتراف کرنا چاہئے اور صرف اقتدار سے نااہلی پرپوری عدلیہ اور نظام کوالٹ پلٹ کرنے کی کوششیں ترک کرکے اپنی سمت درست کرنے پر توجہ دیں،اور یہ حقیقت تسلیم کریں کہ عام انتخابات میں بھی عوام کی بھاری اکثریت نے
ان کے خیالات سے اتفاق نہیں بلکہ اختلاف کیاتھا اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں موجود 8لاکھ 42ہزار ووٹرز میں سے انھیں ڈیڑھ لاکھ ووٹ بھی نہیں مل سکے، اس لئے وہ عوام کے سامنے بار بار یہ جھوٹے دعوے نہ کریں کہ 20کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں،ان کے ساتھ اس ملک کے ڈیڑھ کروڑ افراد بھی ان کے ساتھ نہیں ہیں،نواز شریف کو یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ جن ایک کروڑ42 ہزار افراد نے گزشتہ عام انتخابات میںان کوووٹ دئے تھے وہ ان کے بلند بانگ دعووں سے متاثر ہوکر دئے تھے لیکن گزشتہ 4سال کے دوران انھوں نے پارلیمنٹ اورعوام کونظر انداز کرکے وہ ان میں سے بہت سوں کی ہمدردیاںکھوچکے ہیں،جس کااندازہ انھیں گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بخوبی ہوجانا چاہئے تھا جن میں ان کو اپنے نامزد امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے پوری سرکاری مشینری لگانے کے باوجود مبینہ طورپر دھاندلی کا سہارا بھی لینا پڑتا رہاہے اور اس کے باوجود ان کانامزد کردہ کوئی بھی امیدوار اپنے مد مقابل کو کسی بڑے مارجن سے ہرانے میں ناکام رہاہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ نواز شریف اپنی نااہلی پر آنسو بہاتے ہوئے حقائق کو مسخ کرنے اور اپنے کو مستند جھوٹا ثابت کرنے کاموجودہ رویہ ترک کرکے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اگلا لائحہ عمل تیار کرنے اور مسلم لیگ کو خاندانی سیاست کامحور بنانے کے بجائے حقیقی معنوں میں عوامی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کریں گے۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں