میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی 580 خلاف ورزیاں

بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی 580 خلاف ورزیاں

منتظم
هفته, ۲۲ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

ترجمان دفترخارجہ نفیس ذکریا نے اپنی معمول کی بریفنگ کے دوران کہاہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے مبصرین کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں کام نہیں کرنے دے رہا جبکہ جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں خطے کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں۔نفیس زکریا نے بتایا کہ گزشتہ روز بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارت کی خلاف ورزی اور بلا اشتعال فائرنگ سے پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن (ایل او سی) کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کرتا ہے۔نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے رواں برس اب تک جنگ بندی کی 580 خلاف ورزیاں ہوئیں جن میں 21 پاکستانی شہید جبکہ 30 زخمی ہوئے۔دوسری جانب بھارتی فورسز کی جانب سے کنٹرول لائن (ایل او سی) پر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 شہریوں کی ہلاکت پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو ایک بار پھر طلب کرکے واقعے پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون تنظیم ’سارک‘ کے ڈائریکٹر جنرل محمد فیصل نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا۔گذشتہ روز ایل او سی پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں نکیال سیکٹر اور نیزہ پیر سیکٹر میں ایک ایک شہری جاں بحق جبکہ 5 زخمی ہوگئے تھے۔
کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کا تازہ واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے ،بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کو ایک معمول بنالیا ہے جس سے ایسا معلوم ہونے لگا ہے کہ شاید کنٹرول لائن پر تعینات بھاتی فوجیوں کو روزانہ کسی نہ کسی سیکٹر میں فائرنگ کا باقاعدہ ٹاسک دیا جاتاہے اور اس کا مقصد کنٹرول لائن کے اس جانب رہنے والے کشمیری باشندوں کو خوفزدہ کرنا اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ پاکستان کسی طورپر بھی ان کی کسی طرح کی مدد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بھارتی رہنما اورفوجی قائدین اس طرح شاید مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی میں مصروف نوجوانوں کے حوصلے پست کرکے انھیں بھارت کی غلامی قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
بھارتی حکومت کو اپنی اس طرح کی حکمت عملی سے اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی علاقے میں قابض بھارتی فوج کے خلاف جدوجہد میں ذرہ برابر بھی کمی محسوس نہیں کی جاسکی ہے ،بھارتی حکومت اس طرح کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز کردیتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ کئی برس تکپاکستان کشمیریوں کا ترجمان بنا رہالیکن اب کشمیری اپنے حق میں خود بول رہے ہیں، پاکستان اب ان کا ترجمان نہیں، نہکشمیری نوجوان پاکستان کے اشاروں پر چل رہے ہیں، وہ اپنے بنیادی حق کے لئے جانیں تک قربان کر رہے ہیں۔ وہ حق خود ارادیت پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ کشمیر کے لئے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی بیساکھی استعمال نہیں کرتے جن میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بلکہ وہ اپنی زبان سے اپنے زخموں سے، اپنی اندھی آنکھوں سے اپنی مائوں بہنوں کی لٹی عصمتوں سے اور اپنی لاشوں سے رِستے لہو کی زبان سے حق خوداردیت مانگ رہے ہیں۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاویدباجوہ نے گزشتہ روز اسی حقیقت کی نشاندہی کی تھی ان کے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ دنیا کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے انکار نہیں کر سکتی۔ اس لئے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے بیسیوں ممالک نے اپنے اس حق کو استعمال کیا اور آزادی حاصل کی۔ بھارت ضرور ایک بڑی طاقت ہے، آبادی، رقبے، وسائل اور اسلحے کے اعتبار سے وہ بڑا ملک نہیں ہے مگر بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ سوویت روس سے زیادہ طاقتور نہیں، سوویت روس کی ریاستوںنے جب یہ کہہ دیا کہ وہ اب اس کا حصہ نہیں رہ سکتیں تو روس کے سارے ایٹم بم اور میزائل اس کی کوئی مدد نہ کر سکے، سوویت روس ہمارے سامنے پارہ پارہ ہو گیا۔ یہی حال مشرقی یورپ میں ہوا جہاں ایک ملک یوگوسلاویہ سے کئی ملکوںنے جنم لے لیا۔ مشرقی جرمنی ا ور مغربی جرمنی دیوار برلن کو گرا کر ایک ہو گئے۔ یہ تھا حق خودارادیت کا استعمال جس کا راستہ کوئی نہ روک سکا۔کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ انڈونیشیا کے بطن سے مشرقی تیمور، سوڈان کے بطن سے جنوبی سوڈان نے جنم لیا، یہ سارے کام اقوام متحدہ کے دست مبارک اسے انجام پائے۔ کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کو نئے سرے سے سوچنا ہو گا، کشمیریوں کی اْمنگوں کی روشنی میں سوچنا ہو گا۔
یہ حقیقت واضح ہے کہ اقوام متحدہ کی امن افواج نے اب تک کتنے ہی ملکوں کے تنازعات کو سلجھانے کیلئے کارروائی کی ہے‘ ان ممالک میںپاکستان کی افواج نے بھی شرکت کی‘ صومالیہ میں تو ہم نے بیش بہا قربانیاں دیں، اقوام متحدہ پاکستان کی امن افواج کا مداح ہے۔ اسی طرز پر اقوام متحدہ کو کشمیر میں امن افواج اتارنی چاہئیں، بھارت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا، اس کے قدم کشمیری حریت پسندوں نے اکھاڑ دیئے ہیں، رہی سہی کسر عالمی امن افواج نکال دیں گی اور یوں کشمیر کو اسی طرح حق خوداردایت حاصل ہو جائے گا جیسے دنیا کے دوسرے بیسیوں ملکوں کو حاصل ہو چکا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی قوم کو اس کی مرضی کے برعکس محکوم نہیں بنایا جا سکتا، سکاٹ لینڈ برطانیہ سے آزادی کا خواہاں ہے، ایک ریفرنڈم وہ ہار گئے مگر دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ گونج رہا ہے۔ برطانوی عوام کی مرضی نہیں تھی کہ وہ یورپی یونین کا حصہ رہیں، سو انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔ آج تو امریکہ میں پچاس سے زائد ریاستیں شامل ہیں مگر کسی بھی روز کوئی ریاست امریکہ سے علیحدگی کا حق رکھتی ہے۔ا سپین میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ کینیڈا میں علیحدگی کی تحریک کے جراثیم نمو پکڑ رہے ہیں۔ بھارت کے لئے کشمیر اکیلا مسئلہ نہیں، ایک درجن علاقے آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں، خالصتان کی تحریک ابھی مری نہیں۔ جب یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو کشمیریوں کے حق کو کیوں نہیں مانا جا سکتا، آج نہیں تو کل، کشمیریوں کی آواز پر کان دھرنے ہوں گے، انہیں حق خود ارادیت دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں