مولانا نورانی ممتاز عالم دین،نابغہ روزگار سیاستدان
شیئر کریں
ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما،ممتازعالم دین،نابغۂ روزگارسیاستدان، قائد ملت اسلامیہ، قائد اہلسنّت امام شاہ احمدنورانی صدیقیؒ18رمضان 1344بمطابق یکم اپریل 1926ء کوہندوستان کے شہرمیرٹھ کے ایک دینی ،علمی اور ادبی گھرانے میں پیداہوئے جوہندوستان میں مذہب کے ساتھ ساتھ علم وادب میں بھی نمایاں مقام رکھتاتھا،یہی وجہ تھی کہ اس گھرانے کوپورے میرٹھ میں نہایت عزت واحترام کی نظرسے دیکھاجاتاتھا۔علامہ شاہ احمدنورانی ؒ کے والدگرامی حضرت مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ؒ اپنے عہد کے ممتاز عالم دین، مفکر دین وملت اوراسلام کے زبردست شیدائی تھے جنہیں قائد اعظم محمدعلی جناح نے قیام پاکستان کے لیے دنیابھرمیں رائے عامہ ہموارکرنے پر سفیراسلام کاخطاب دیاتھا۔
حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ نے چارعشروں تک دنیاکے دوردراز،دشوارگزار اورترقی یافتہ وغیرترقی یافتہ ممالک میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔یہی جذبہ اور دین کی یہی محبت آپؒ کے صاحبزادے حضرت علامہ شاہ احمدنورانیؒ میں بھی نمایاں تھی۔1934ء میں ابھی مولاناشاہ احمدنورانیؒ کی عمر صرف آٹھ سال تھی کہ انہوں نے قرآن مجید فرقان حمید کوحفظ کرکے بے مثال کارنامہ انجام دے ڈالا ،دس سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ایک سال میں علم تجوید مکمل کیا، آپؒ کاعلمی سفر آگے بڑھتاچلاگیااور آپؒ نوجوانی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنی علمی منزل کی جانب گامزن ہونے لگے۔ 1944ء میں درس نظامی کی تکمیل اور دستارفضیلت بدست ہائے مبارکہ مفتی اعظم ہند مولانامصطفی رضاخاں ،صدرالافاضل مولاناسیدنعیم الدین مرادآبادی، والدگرامی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی، صدرالمدرسین مولاناسیدغلام جیلانی میرٹھی۔1945میںگریجویشن کی اور تحریک پاکستان میں عملی طورپرحصہ لیناشروع کیا۔1946میں میرٹھ میں ہی انہوں نے مسلم نوجوانوںپر مشتمل نیشنل گارڈ زنامی تنظیم تشکیل دی جس نے نہ صرف تحریک پاکستان کے دوران کردار اداکیا بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس نومولود مملکت کی تعمیر واستحکام اور سلامتی میں حصہ لیا۔مولانانورانیؒ کے والد گرامی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ نے قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں میرٹھ سے ہجرت کی اور لائنزایریاکراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔ بعدازاں آپؒ کچھی میمن مسجد صدر منتقل ہوگئے ،پاکستان آنے کے بعد مولانانورانی دین اسلام کے فروغ اور اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کے لیے شبانہ روز مصروف رہے انہوں نے بے شمارغیرمسلموں کو اپنے ہاتھوں اسلام سے مشرف کیا۔ 1953ء میں ورلڈمسلم علماء آرگنائزیشن کے اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور گیارہ سال تک اس عہدے پر رہے،اسی دوران پاکستان میں تحریک ختم نبوت میں بھرپورحصہ لیا،1954ء میں والدگرامی سفیر اسلام ومبلغ اعظم شاہ عبدالعلیم صدیقی وصال فرماگئے،1955میں جامعہ ازہرکے علماء کی دعوت پر مصرکاطویل دورہ کیا،1958ء میں روسی سفیر کی تحریک اور مفتیء اعظم روس مفتی ضیاء الدین باباخانوفؒ کی خصوصی دعوت پر روس کاتبلیغی ومشاہداتی دورہ کیا،پاکستان میں مارشل لاء کے دورمیں جمعیت علمائے پاکستان پرپابندی کی وجہ سے اپنے رفقاء کے ساتھ انجمن تبلیغ اسلام کی بنیادرکھی،1959ء میں مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کاخیرسگالی دورہ کیا،1960ء میں مشرقی امریکا، مڈغاسکر اور ماریشس کاتبلیغی دورہ کیا،1962ء میں نائیجیریا کے وزیراعظم شہید احمد ڈبلیوکی خصوصی دعوت پر تین ماہ کاتفصیلی دورہ کیا۔پھرصومالیہ، کینیا، ٹانگانیکا،یوگنڈا اور ماریشش کادورہ کیا۔1963ء میں سعودی عرب کادورہ کیااسی دوران آپؒ کی شادی ہوئی جس کی تقریب مسجد نبوی میں انجام پائی، بعدازاں فوراً ہی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ترکی، فرانس، مغربی جرمنی، برطانیا اوراسکینڈے نیوین ممالک کا طویل دورہ کیا اس کے بعد چین کے مسلمانوں کی دعوت پر چین کاتبلیغی دورہ کیا۔1965ء میں امریکا اور کینیڈا کاتبلیغی دورہ اور 1966ء میں مدینہ منورہ میں بڑے صاحبزادے حضرت علامہ شاہ محمدانس نورانی مدنی کی ولادت ہوئی، 1966ء میں ہی اپنے رفقاء کے ساتھ جماعت اہلسنت کی تشکیل کی۔1968ء میں یورپ کاتفصیلی دورہ کیاجہاں قادیانیوں سے مناظرے کیے اور اسی سال مستقل طور پر پاکستان تشریف لے آئے یہاں پر بڑی صاحبزادی کی ولادت ہوئی۔
1969ء میں پاکستان میں جماعت اہلسنت کے پلیٹ فارم سے قادیانیوں کی بین الاقوامی سازشوں کوطشت ازبام کیا،اسی سال دوسری صاحبزادی کی ولادت ہوئی ۔1970ء میں جمعیت علماء پاکستان میں اختلافات ختم کرائے اور تنظیم نوکی،سنی کانفرنس کراچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھرپورشرکت کی، جے یوپی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کاالیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔دوسرے صاحبزادے شاہ اویس صدیقی کی ولادت اسی سال ہوئی۔1973ء متحدہ جمہوری محاذ کی تشکیل میں موثر کرداراداکیا،رابطہ سیکریٹری نامزدہوئے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے مقابلے میں وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ لیا،جمعیت علمائے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے،آئین پاکستان کی تدوین کے لیے دستوری کمیٹی کے رکن نامزد ہوئے اور دستور میں مسلمانوں کی تعریف اوردیگر اسلامی دفعات شامل کروائیں۔1974ء میں قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قراردینے کی قرارداد اسمبلی میں پیش کی ، مکۃ المکرمہ دارارقم کے مقام پر ورلڈ اسلامک مشن کی داغ بیل ڈالی اور چیئرمین منتخب ہوئے،قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے دنیا بھر کا تقریباًچھ ماہ کادورہ کیااور لاتعداد غیر مسلموں کو اپنے ہاتھوں مشرف بہ اسلام کیا،تنظیم المدارس کی سند کو ایم اے کے برابر قرار دلوانے میں تاریخ سازکردار ادا کیا ۔
1975ء میں پاکستان کے سب سے بڑے آئینی ادارے سینیٹ کے وجودمیںآنے کے بعد اس کے رکن منتخب ہوئے۔1976ء یورپ ،افریقا وامریکا کے تبلیغی دورے کیے،پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں جاندار کردار اداکیا۔1977ء میں قومی اسمبلی کے دوبارہ رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں تحریک نظام مصطفیٰﷺ میں قائدانہ ومجاہدانہ کردار اداکیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔1978ء میںمارشل لاء کے بعد مارشل لاء کی کھل کر مخالفت کی اورضیاء الحق کی جانب سے وفاقی وزراء اور پنجاب وسندھ میں گورنر ووزیراعلیٰ کی پیش کش کوٹھکرادیا اور ملک میں فوری انتخابات کامطالبہ کیا۔اسی سال جنوبی افریقا کادورہ اور کیپ ٹائون کے میئر کی جانب سے سفیراسلام کاخطاب ملا۔ ملتان میں تاریخی سنی کانفرنس سے خصوصی خطاب کیا۔1979ء میں برطانیا کادورہ ،برمنگھم میں فقیدالمثال نظام مصطفیٰ ﷺ کانفرنس سے خطاب کیا اور رائے ونڈ میں میلادمصطفیٰ ﷺ کانفرنس کاانعقاد اور خصوصی خطاب کیا۔1980ء امریکا ،سرینام، آساد ،آئرلینڈ، جرمنی وہالینڈ کادورہ اور اجتماعات سے خطاب کیے۔ 1981ء حرمین شریفین کی حاضری اور بعدازاں کینیا،ماریشش، جنوبی افریقا، زمبابوے،ملاوی، جزائرفجی، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ ،سنگاپور کاچھ ماہ تک طویل دورہ کیا۔1981ء میں دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی۔1982ء جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی،ماریشش کادورہ کیا۔1983ء جنوبی افریقا ،ڈربن میں میلادکانفرنس سے خطاب کیا،دارالعلوم علیمیہ رضویہ کاافتتاح کیااور برطانیا وہالینڈ کادورہ کیا۔1984ء برطانیا میں چھ مساجد کاافتتاح اور ماریشس کادورہ کیا۔1985ء جنرل ضیاء کے غیرجماعتی الیکشن کابائیکاٹ کیا،پاکستان سمیت دنیابھرمیں حجاج کانفرنسز کاانعقاد کیا،مئی میں برطانیا میں عظیم الشان حجاج کانفرنس کی صدارت کی جس میں دنیابھر کے مندوبین نے شرکت کی اور سعودی حکومت کی غیراسلامی پالیسیوں کی پرزورمذمت کی ۔1986ء برطانیا ،ہالینڈ اور ماریشش کے تبلیغی دورے کیے، ایران عراق جنگ بندی کے سلسلے میں ورلڈ علماء کانفرنس کے تحت کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے عراق تشریف لے گئے اور پھر برطانیا ،افریقا ،فرانس اور کینیا کاتفصیلی دورہ کیا۔اسی سال ہالینڈ میں آپ کے دل کابائی پاس آپریشن ہوا۔1987ء میں وزارت اوقاف عراق کی دعوت پر عراق کا دورہ اور بین الاقوامی کانفرنس لیبیامیں شرکت کی اور ایران عراق جنگ بندی کے لیے کرنل قذافی سے تفصیلی ملاقات کی اور پھر برطانیا، تھائی لینڈ ،جرمنی، سوئٹزرلینڈ، افریقی ممالک اور ہالینڈ کادورہ کیا۔1988ء میںعظیم الشان جامع لیسٹر برطانیا کاسنگ بنیادرکھا جس کا تعمیری تخمینہ تقریباً بیس لاکھ پائونڈ تھا اسلم بیگ کی طرف سے نگراں وزیراعظم بنانے کی پیش کش ٹھکرادی۔1989ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی درخواست پر ایران عراق جنگ بندی کے مشن میں شریک ہوئے اور ایران عراق جنگ بندی میں موثرکردار اداکیا۔ہندوستان کادورہ، جامعہ ازہر اور مساوات یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کی ۔1990ء عراق کے صدر صدام حسین کی خصوصی دعوت پر بین الاقوامی مسلم کانفرنس عراق میں خصوصی شرکت کی۔ 1991ء پاکستان بھرمیں جہادکانفرنسز کاانعقاداور عراق پر امریکا کی یلغار کی سخت مخالفت اور پاکستانی حکومت کے اقدام کی مذمت کی۔1992ء میں فرانس ویورپ کا تفصیلی دورہ کیا اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد اعلان کیا کہ بابری مسجد کی ازسرنوتعمیر کی جائے جس کے اخراجات ورلڈ اسلامک مشن ادا کرے گا۔1993ء میں ورلڈ اسلامک مشن کی طرف سے صومالیہ کے قحط زدگان کے لیے لاکھوں ڈالرز کی امداد کااعلان کیا۔1994ء یورپ اور افریقا کے کئی ممالک کاتفصیلی تبلیغی دورہ کیا۔1995ء میں پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ملی یکجہتی کونسل قائم کی اور اس کے صدر منتخب ہوئے۔1996ء میںبے نظیرحکومت کے خلاف جدوجہد کی اور تاریخی دھرنادیا ،تحریک نجات میں قائدانہ کردار اداکیا۔1997ء میںناروے کی تاریخ کی پہلی مسجد کاافتتاح کیا،آزاد کشمیر کنٹرول لائن کا دورہ اور متاثرین سے ملاقات کی۔1998ء میں پوپ جان پال کے چیلنج کہ اگلی صدی میں افریقا کامذہب عیسائیت ہوگا، کاجواب دیاکہ انشاء اللہ اگلی صدی عیسوی میں افریقا میں اسلام کاجھنڈا ہی لہرائے گا۔علاوہ ازیںمسلسل افریقا کے تبلیغی دورے ،بیروت اور مشرق وسطیٰ کا دورے کیے۔1999 ء میںکینیڈا،افریقا اور ماریشش کاطویل دورہ کیا۔2000ء میں پاکستان میں امریکا کی مداخلت پر اور افغانستان پر امریکا کی یلغار کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا اور دفاع افغانستان کونسل قائم کی۔2001ء میںمتحدہ مجلس عمل کاقیام عمل میںآیا جس کے پہلے صدر منتخب ہوئے، اسی سال والدہ ماجدہ کاوصال ہوگیا۔2002ء میں الیکشن میں کامیابی کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کی ،اس سلسلے میں پورے پاکستان کے طویل ترین دورے کیے جس کے نتیجے میں متحدہ مجلس عمل کوحیران کن ملک گیر کامیابی حاصل ہوئی،ملکی تاریخ میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے۔2003ء میں ایل ایف او( LFO) پر حکومت سے مذاکرات کیے ،آئرلینڈ کا دورہ کیا اور 11دسمبر 2003ء بروزجمعرات اسلام
آباد میں تاریخ اسلامی کاعظیم بطل جلیل اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے عالم جاودانی کورخصت ہوگیا۔
امام اہلسنت حضرت علامہ شاہ احمدنورانی عربی ،فارسی، انگریزی اور فرانسیسی سمیت دنیاکی درجنوںزبانوں پر عبور رکھتے تھے،جس کے باعث دنیاکے کسی خطے میں بھی انہیں اپناموقف پیش کرنے میں کسی پریشانی کاسامنا نہ کرناپڑا،انہوں نے بے شمارغیرمسلم اسکالرزسے مناظرے کیے اور ان کومضبوط اورٹھوس دلائل پرشکست دی۔ لاکھوں غیرمسلموں کو مشرف بہ اسلام کرکے دین اسلام کا مبلغ بنایا۔مولانانورانی ؒ کی اسلام اور پاکستان کے لیے خدمات کااحاطہ چند صفحات پر ممکن نہیں ہے۔بے شمار خدمات اور کاوشوں میں اگردیکھاجائے تو قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردلوانے کاکارنامہ آپ کی تمام کاوشوں پر بھاری نظر آتا ہے ،اس کے علاوہ پاکستان میں نفاذ نظام مصطفیٰ ﷺ کے آپ ؒ کی شبانہ روز جدوجہد اور کاوشیں روزروشن کی طرح عیاں ہیں ،ملک میں ڈکٹیٹرشپ، آمریت اورمارشل لاء کے خلاف اور دفاع ناموس رسالت و تحفظ ختم نبوت کی کوئی تحریک آپ ؒ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی ،لیکن تحریکوں کی کامیابی کے نتیجے میں کبھی کسی سے کوئی ذاتی فائدہ نہ اٹھایا،ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر، نوازشریف، اسلم بیگ اورپرویزمشرف سمیت تمام حکمرانوں نے آپ ؒ کوحکومتی عہدوں کی پیشکش کی لیکن آپؒ نے ہمیشہ ان کو کورا جواب دے کر اپنا دامن بچایا۔ تخت سکندری پہ وہ تھوکتے نہیں بستر لگاہو جن کا سرکارﷺ کی گلی میں!!!!