سانحہ بہاولپور: وزیراعلیٰ پنجاب سے جواب طلب کیاجائے
شیئر کریں
بہاولپور کے علاقے احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر پھٹنے سے ڈیڑھ سو افراد جاں بحق ہو گئے۔ حادثہ قومی شاہراہ پکا پل کے قریب پیش آیا جب لوگ ٹینکر سے بہنے والا پیٹرول جمع کر رہے تھے۔قومی شاہراہ پر عید سے ایک دن قبل پیش آنے والے اس المناک حادثے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتوں سے پورے ملک کی فضا سوگوار ہو گئی ہے۔ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جو اس علاقے کے لوگوں کی لالچ کے نتیجے میںرونما ہوا ،اس طرح یہ کہا جاسکتاہے کہ لالچ مفت کامال اپنانے اور لوٹ مار کی عادت نے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں نگل لیں۔ احمد پور شرقیہ کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ نہیں تھا۔ ایسے حادثات عام طور پر عوام کی غفلت کی وجہ سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی مقامات پر آئل ٹینکر اُلٹنے کے باعث بہنے والا تیل جمع کرتے ہوئے آگ لگنے اور آئل ٹینکر پھٹنے سے درجنوں افراد کی ہلاکتوں کی خبریں اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کے باوجود لوگ لالچ میں اندھے ہوکر اپنی جانوں سے کھیلنے سے باز نہیں آتے اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر ایسے موقع پر پیٹرول جمع کرنے پہنچ گئے۔اس طرح یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس سانحہ میں حکومت یا انتظامیہ کی کوئی کوتاہی یا غلطی نہیں تھی، اس سانحہ کاذمہ دار آئل ٹینکر کے ڈرائیور کو بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ معمول کاایک حادثہ تھا جس پر ڈرائیور پر عدم توجہی یا لاپروائی کے ساتھ ڈرائیونگ کے علاوہ کوئی اور الزام عاید نہیں کیاجاسکتا اورعدلیہ سے اسے اسی الزام میں سزا دی جاسکتی ہے۔ اس حادثے کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق احمد پور شرقیہ میں یہ آئل ٹینکر پھسل کر اُلٹ گیا تھا جس کے بعد اس سے بہتے پیٹرول کو دیکھ کر علاقے کے لوگوں کی رال ٹپک پڑی اورلوگوں کی بڑی تعداد اس سے بہنے والا تیل جمع کرنے پہنچی اور ہائی ویز پولیس کے منع کرنے کے باوجود باز نہ آئے۔ اسی دوران میں آئل ٹینکر پھٹ گیا۔ جس سے لگنے والی آگ نے آناً فاناً لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انہیں جلا کر بھسم کر دیا۔ حکومت پنجاب کے امدادی اداروں‘ ریسکو 1122 اور پولیس کے ساتھ آرمی کے جوانوں نے بھی اطلاع ملتے ہی بروقت کارروائی کرتے ہوئے زخمیوں کو ارد گرد کے شہروں میں سی ایم ایچ اور سرکاری ہسپتالوں میں پہنچانا شروع کر دیا، اس امدادی کارروائی میں آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے بھی حصہ لیا۔
احمد پور شرقیہ کے جاںگسل سانحے کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ خادم پنجاب کے تمام تر دعووں کے باوجود پنجاب میں ترقی کاپورا نیٹ ورک صرف لاہور کے بعض علاقوں تک محدود ہے اور پنجاب کے دیگر علاقوں کے لوگ اب بھی علاج جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔اگر خادم پنجاب ہونے کے دعویدار وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کے چند علاقوں کو پیرس بنانے کی کوشش میں تمام وسائل میٹرو اور اورنج لائن پر جھونک دینے کے بجائے پنجاب کے دیگر علاقوں خاص طورپر جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے لوگوںکو بھی اپنے جیسا انسان تصور کرتے ہوئے ان کو علاج معالجے کی بہتر سہولتیں مہیاکرنے کے لیے ان ہسپتالوں میں بھی ضروری ادویات اور ڈاکٹروں کی فراہمی کے ساتھ روزمرہ کام کاج کے دوران پیش آنے والے حادثات وواقعات میں زخمی اور جھلس جانے والے افراد کے علاج معالجے کی سہولتیں پہنچانے کے انتظام پر تھوڑی سی توجہ دیدیتے تو سانحہ احمد پور شرقیہ میں بُری طرح جھلسنے والے افراد یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور نہ ہوتے۔
پاک فوج کے جوانوں اور امدادی ٹیموں کے اہلکاروں نے جھلس کر زخمی ہونے والے افراد کو وکٹوریہ اسپتال بہاولپور اور نشتر اسپتال ملتان منتقل کیا،اگر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے فوری طورپر فوجی ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کااعلان نہ کرتے تو شاید اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی، وزیراعظم‘ آرمی چیف اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اس حادثے پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو فوری ریلیف کے کاموں میں مدد کے لیے کہا ہے۔اس سانحے پر اپوزیشن رہنما شاہ محمود قریشی نے حادثے کی جگہ کا دورہ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے عوام سے خادم اعلیٰ کی بے اعتنائی کی بالکل صحیح نشاندہی کی اور ان کایہ کہنابالکل درست ہے کہ غالباً خادم اعلی شہباز شریف لاہور کے چند علاقوں کے علاوہ پنجاب کے کسی بھی اور علاقے کے لوگوں کو کسی طرح کی سہولت کی فراہمی ضروری تصور نہیں کرتے۔ وزیر اعظم نے وطن واپسی پر اپنے بیان میں اس سانحے پر بات کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے عوام کے علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم فراہمی کے حوالے سے حکومت کی ناکامی کے بارے میں کوئی وضاحت پیش کرنے کے بجائے اس سانحے پر سیاست نہ کرنے کی تلقین کی ہے ،جبکہ حکومت کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا ہی اپوزیشن کی اصل ذمہ داری ہوتی ہے حکومت کی غلطیوں اور فرائض سے غفلت کی نشاندہی نہ کرنا اور اس پر حکومت کو تنقید کانشانا نہ بنانا حکومت کی کوتاہیوں کی پروہ پوشی کرنے کے مترادف ہے ،جبکہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے ٹیلنٹڈ بھائی کے علاوہ ان کی کابینہ اور پارٹی کے متعد د رہنماؤں نے سانحہ سہون کے وقت سندھ حکومت کو اس سے زیادہ سخت الفاظ میں ہدف تنقید بنایاتھا اس وقت وزیر اعظم کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس طرح کے سانحات پر سیاست کرنا مناسب نہیں ہے ۔اس لیے وزیر اعظم کو اس مسئلے پر سیاست نہ کرنے کامشورہ دینے کے بجائے جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولتوںکا انتظام نہ کرنے پر خود اپنے چھوٹے بھائی اور بزعم خود خادم پنجاب کی سرزنش کرنی چاہئے اور ان سے جواب طلب کرنا چاہئے کہ کروڑوں روپے اورنج لائن جیسے منصوبوں میں جھونکنے کے بجائے عوام کے علاج معالجے کے منصوبوں کوترجیح کیوں نہیں دی گئی۔
سپریم کورٹ جے آئی ٹی کومتنازع بنانے کی کوششوں کانوٹس لے
وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی تحقیقات کو احتساب نہیں تماشا اور مذاق قرار دیتے ہوئے گزشتہ روز لندن میں میڈیا سے گفتگو میں باور کرایا کہ جے آئی ٹی کی ساری تحقیقات ان کے ذاتی کاروبار کے گرد گھومتی ہے۔ گواہی کے لیے ان کے بدترین مخالفین کو بلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عندیہ دیا کہ نو آموز اور نا تجربہ کار سیاست دان ملک کی ترقی کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا رکھا ہے۔ ہم ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ سیاسی مخالفین چاہتے ہیں نواز شریف کو منظر سے ہٹا دیا جائے۔ اصل جے آئی ٹی عوام کی 2018میں لگے گی۔ دوسری جانب وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران باور کرایا کہ ہم قانون، قاعدے کی پابندی کرنے والے لوگ ہیں جو پوچھا گیا اس کا جواب دیدیا ،انھوں نے الزام عاید کیا کہ جے آئی ٹی کی فائلیں اور سوالات باہر سے آ رہے تھے۔ وزیراعظم اور ان کے زیر کفالت افراد اور کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہے لیکن سرے محل اور کرگل کے مجرم کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ پاکستان میں سیاسی بہانہ بازی اور بیانات کی شعبدہ بازی نئی بات نہیں اور نہ یہ کسی ایک فرد اور پارٹی تک محدود ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کل تک اپنے دامن کو شفاف قرار دے کر ہر طرح کے احتساب کادعویٰ کرنے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے احتساب کے لیے خود کمیشن بنانے کی پیشکش کرنے والے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ جے آئی ٹی کے خلاف سنگین اور حیران کن الزامات عاید کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر جے آئی ٹی کو کون اور کیوں کنٹرول کر ے گا؟ خود وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کی جانب سے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کامقصدکیاہے ؟ کیا یہ طرفہ تماشہ نہیں کہ جس جے آئی ٹی کے قیام پر مسلم لیگ ن نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں آج اس کو تنقید کا نشانا بنایا جا رہا ہے اور نت نئے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ کیااس کا مقصد جے آئی ٹی کو اس طرح بیک فٹ پر لے جاناہے؟ سپریم کورٹ کو ان کوششوں کا نوٹس لینا چاہئے اورجے آئی ٹی کو اس طرح متنازع بنانے کی کوششوں کی بیخ کنی کرنی چاہئے اور یہ تاثرپھیلاکر خود کو مظلوم بنانے اوریہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کہ اس سے کسی فرد واحد کا احتساب مقصود ہے کو ختم کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ قانون کی بالادستی اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کا سوال ہے۔