سپریم کورٹ کا قابل تعریف فیصلہ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے غیرت کے نام پر بیوی کو قتل کرنیوالے ایک ملزم طاہر کی پھانسی کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے باور کرایا کہ ملزم کا فعل قابل رحم نہیں۔ عدالت کو ایسے مقدمات میں فیصلہ سناتے ہوئے پورے معاشرے کو دیکھنا ہوتا ہے۔ سزائیں نہ دی گئیں تو شوہروں کو بیویوں کے قتل کا لائسنس مل جائیگا۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ملزم کی بریت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے بجا طور پر باور کرایا کہ اسلام نے 1400 سال قبل خواتین کو حقوق دے کر انہیں معاشرے میں عزت واحترام کا مقام بخشا تھا۔ بدقسمتی ہے کہ آج کے تعلیم یافتہ معاشرے میں ان پر تیزاب پھینکنے، چولہے سے جلا کر مارنے کی کوشش اور تشدد کے افسوسناک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
عورت فاﺅنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ خواتین پر تشدد کا باعث بنتاہے۔ تحفظ حقوق نسواں کے نام پر بننے والے قوانین حکومتی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستانی خواتین کی اکثریت ان قوانین سے واقف نہیں اور نہ ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد کا کوئی میکنزم بن سکا۔ غیرت کے نام پر قتل، تشدد اور تیزاب گردی کی روک تھام کے لیے روایتی اقدامات اور مروجہ قوانین کافی نہیں۔ اس کے لیے معاشرتی شعور اور آگاہی کے ساتھ ساتھ مروجہ قوانین میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اورخاص طورپر پولیس کے رویے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ،کیونکہ کسی بھی جرم کے خلاف کارروائی کی پہلی سیڑھی تھانہ ہوتاہے لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں پولیس کے نظام میں تبدیلی لانے کے تمام تر دعووں کے باوجود اب تک پولیس کاعمومی رویہ تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں،خاص طورپر جب معاملہ کسی خاتون پر ظلم یا زیادتی کے بارے میں ہوتاہے تو پولیس اول تو خواتین کی شکایت پر توجہ دینے اور ایف آئی آر درج کرنے سے ہی گریز کرتی ہے بلکہ ایسے حربے اختیار کرتی ہے کہ خواتین انصاف کے حصول کو ناممکن تصور کرتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کو قسمت کالکھا سمجھ کر خون کے آنسو پی کر خاموش رہنے پر مجبور ہوجاتی ہےں۔ اس صورت حال میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی جانب سے بیوی کے قاتل کی سزا میں نرمی برتنے سے انکار سے ایسے سفاک قاتلوں اور ظالموں کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔
سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر کے اندراج اورملزمان کے خلاف کارروائی میں ٹال مٹول سے کام لینے والے اورملزمان کے اثر ورسوخ یا بھاری رشوت کے عوض ملزمان کے خلاف کارروائی سے گریز کرنے یا ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی از خود نوٹس لے کر کارروائی کو یقینی بنائے تاکہ تھانوں میں مظلوموں کی دادرسی کے بجائے انہیں ملزم بناکر پیش کرنے یا ملزمان کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے والے پولیس اہلکار اور افسران بھی کیفر کردار تک پہنچائے جاسکیں۔
پنجاب کا بجٹ ایک معمہ ہے سمجھنے کانہ سمجھانے کا
پنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز مالی سال برائے 18-2017ءکے لیے ایک ہزار 970 ارب روپے سے زائد کا صوبائی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔اسپیکر رانا محمد اقبال کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث کی جانب سے بجٹ پیش کیا گیا تو اپوزیشن کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی جس کے جواب میں حکومتی ارکان نے بھی جوابی نعرے لگائے۔حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے شور شرابے میں عائشہ غوث نے صوبائی بجٹ پیش کیا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ پنجاب کے لیے ترقیاتی بجٹ کاحجم 635 ارب، اورنج لائن کے لیے 93 ارب، تعلیم کے لیے 355 ارب اور سڑکوں کے لئے 245 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ پنجاب کے بجٹ میں زراعت کے لیے 21 ارب 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ کسانوں کو بلا سود قرضوں کی فراہمی کے لیے متعدد اسکیمیں رکھی گئی ہیں۔
صوبائی بجٹ میں تعلیم کے حوالے سے رکھے گئے منصوبوں کے حوالے سے ڈاکٹر عائشہ غوث نے دعویٰ کیا کہ پنجاب کے اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی شرح 93 فیصد ہے، آئندہ مالی سال میں ضلعی تعلیم کیلیے 230 ارب روپے، ا سکول ایجوکیشن پروگرام کیلیے 53 ارب 36 کروڑ روپے، اسکولوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 26 ارب روپے، اسکولوں میں سہولتوں کی فراہمی کیلیے 28 ارب روپے، اسکولوں میں اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے 6 ارب 30 کروڑ روپے،وزیراعلیٰ لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 7 ارب روپے، محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے لیے 18 ارب 3 کروڑ جب کہ خصوصی تعلیم کے لیے ایک ارب 6 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب حکومت کے پانچویں سالانہ بجٹ کی خاص اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں توانائی کے7 منصوبوں کا ذکر توکیا گیا ہے لیکن ان منصوبوں کے لیے مختص رقم کا تخمینہ بھی نہیں بتایا گیا۔ پنجاب کے بجٹ میں توانائی کے جن منصوبوں کا ذکر کیاگیاہے ان میں ساہیوال کول پاور پلانٹ، بھکھی، حویلی بہادر شاہ، بلوکی، سولر اور ہائیڈرو ونڈ پاور کے منصوبے شامل ہیں جب کہ ساہیوال کول اور قائد اعظم سولر پاور پلانٹ کے منصوبے سی پیک کے تحت مکمل کرنے کاعندیہ دیاگیاہے۔ یہاں یہ سوال غلط نہیں ہے کہ اگر پنجاب حکومت نے بجٹ میں توانائی کے منصوبوںکے لیے کوئی رقم نہیں رکھی تھی تو بجٹ میں ان منصوبوں کاذکر کیوں کیاگیا ، اس طرح بجٹ میں اورنج لائن کے سوا عوامی مفاد اور سہولت کے کسی منصوبے کا نہ تو کوئی ذکر کیاگیاہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی رقم رکھی گئی ہے ، اس طرح پنجاب کا یہ بجٹ اعدادوشمار کا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جو ایک معمہ ہے سمجھنے کانہ سمجھانے کا۔