میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان میں توانائی کے بحران کا پسندیدہ حل،شمسی توانائی

پاکستان میں توانائی کے بحران کا پسندیدہ حل،شمسی توانائی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

کوئلے ،تھرمل ودیگر ذرائع سے بجلی بنانے کی نسبت سولر پاور کو عوامی سطح پر بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے سب سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے
سائٹ‘ کے علاقے کا دورہ کریں تو وہاں پلوں اور سڑکوں پر لگے سولر پینلز سے روشن بلب، ٹیوب لائٹس، سرچ لائٹس اور ’سیورز‘ نظر آجائیں گے
صباحیات
بہاولپور میں ملک کے پہلے سولر پاور پروجیکٹ کا افتتاح کیاجا چکا ہے۔ اس پروجیکٹ سے ابتدامیں 100 میگا واٹ اور بعدازاں 1000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، جبکہ ماہرین کے بقول شمسی توانائی کے ذریعے پاکستان میں سات لاکھ میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے۔
پاکستان میں بجلی کا بحران کئی سال سے برقرار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی جانب سے اس پر قابو پانے کے لیے کہیں کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں تو کہیں تھرمل پاور پروجیکٹ۔لیکن، عوامی سطح پر بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے جس طریقے کو سب سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے وہ ہے ’سولر پاور‘ یعنی ’شمسی توانائی‘۔ صرف کراچی کی بات کریں تو ٹھیلے پر کھجورےں بیچنے والا عام آدمی ہو یا بنگلوں کا مالک اسے توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اسی ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔اس کی واضح مثال کراچی میں جگہ جگہ سولر پینلز فروخت کرتی دکانیں ہیں۔ صدر کے علاقے میں چلے جائیے وہاں آپ کو جگہ جگہ سولر پینل بکتے نظر آجائیں گے۔
سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ یعنی ’سائٹ‘ کے علاقے کا دورہ کریں تو وہاں پلوں اور سڑکوں پر لگے سولر پینلز سے روشن بلب، ٹیوب لائٹس، سرچ لائٹس اور ’سیورز‘ نظر آجائیں گے۔حب ریور روڈ اور دیگر اطرافی علاقوں میں بھی اس کی ’روشن‘ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ پورے صوبہ بلوچستان کو شمسی توانائی سے روشن کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے عالمی بینک کے سربراہ جم یانگ کم سے بات بھی کرلی ہے۔وزیر خزانہ کے بقول، وہ شمسی توانائی کے پہلے منصوبے کا افتتاح بھی عالمی بینک کے صدر سے ہی کرانے کے خواہشمند ہیں۔ اس منصوبے پر عالمی بینک نے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا، آپ کبھی بھی یہ خوشخبری سن سکتے ہیں کہ بلوچستان شمسی توانائی سے روشن ہونے والا پہلا صوبہ بن گیا۔
وائس آف امریکا کے نمائندے کی جانب سے کیے گئے ایک تجزیے سے یہ امر واضح ہوا ہے کہ ملک میں شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کا رجحان نہ صرف تیزی سے فروغ پا رہا ہے، بلکہ ملک میں سولر پینلز سلوشن پرووائیڈرز کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس رجحان کی سب سے بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ اور لوڈشیڈنگ کا بڑھتا دورانیہ ہے۔
سولر پینلز فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے عہدیدار، عبدالرحمٰن نے بتایا کہ ”آپ نے مثال سنی ہوگی کہ آموں کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ سولر پینلز کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے جو خرچ آتا ہے وہ ابتدائی مہینوں میں ہی نکل آتا ہے۔ اس کے بعد آپ کو بجلی مفت پڑنے لگتی ہے۔“
بہاولپور میں ملک کے پہلے سولر پاور پروجیکٹ کا افتتاح ہو چکا ہے۔ اس پروجیکٹ سے ابتدامیں 100 میگا واٹ اور بعد ازاں 1000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ ماہرین کے بقول شمسی توانائی کے ذریعے پاکستان میں 7 لاکھ میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے۔ ملک میں روزانہ اوسطاً 16 گھنٹے تک روشنی موجود ہوتی ہے۔ اگر اس روشنی کو صحیح طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو 7 لاکھ میگاواٹ تک بجلی حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی پیدا کرنے کی لامحدود صلاحیت موجود ہے لیکن اب تک ہم صرف 100 میگاواٹ کے شمسی توانائی کے گرڈ لگانے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔2012ءسے ونڈ پاور یعنی ہوا سے بجلی حاصل کرنے کی تجاویز کوپذیرائی ملنا شروع ہوئی اور اب تک 477 میگاواٹ کے پراجیکٹس کی منظوری دی جاچکی ہے جس سے قابل تجدید توانائی کی قابل عمل مارکیٹ کاپتہ چلتاہے۔
نیپرا نے گزشتہ دنوں 30جون 2018 ءتک کے لیے شمسی بجلی کے نئے ٹیرف کااعلان کیا ہے، اس تجارت میں موجود وسعت کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن نے پاکستان میںقابل تجدید توانائی خاص طورپر شمسی توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لیے گائیڈ لائن جاری کی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کی جاری کردہ ہینڈبک ” پاکستان میں سولر ڈیولپرز گائیڈ برائے سرمایہ کاری “ میں شمسی توانائی کے پروجیکٹس پر کام کرنے والوں اور اس کے ڈیولپرز کے لیے ترقیاتی طریقہ کار اور اس حوالے سے ان پر عاید ہونے والی قانونی اورریگولیٹری میکانزم کے حوالے سے مفید معلومات درج ہیں۔اس میں تیاری ،معاہدے، اس کی منظوری اور اس کی تکمیل تک کے مراحل کے سلسلے میں ضروریات کی وضاحت کی گئی ہے۔
پاکستان میں کم وبیش 3000 میگاواٹ شمسی توانائی استعمال کرنے والے ایک ملین صارف موجود ہیں۔
2006 ءکی پالیسی کے تحت شمسی توانائی کے پراجیکٹ لگانے والے براہ راست اپنی تیار کردہ بجلی کی فراہمی کے لیے صارفین اورعام ڈسٹری بیوشن کے لیے دوسری یوٹیلٹی اداروںسے براہ راست دوطرفہ معاہدے کرسکتے ہیں۔انہیں صرف ٹرانسمیشن لائنیں استعمال کرنے کے چارجز ادا کرناہوں گے۔لیکن ابھی تک شمسی توانائی کے کسی ادارے نے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ شمسی توانائی انرجی کے حصول کاایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ختم ہونے یا جس میں کمی آنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے،یہی نہیں بلکہ شمسی توانائی محفوظ کرنے اور پھر اسے ضرورت کے مطابق استعمال کرنے پر بہت زیادہ خرچ بھی نہیں آتا لیکن ہمارے ارباب اختیار ،کوئلے ، تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوںپر تو کروڑوں روپے خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن قدرت کی اس بیش بہا نعمت سے فائدہ اٹھا کر ملک کی صنعتوں، زرعی شعبوں اور غریب عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد میں ہمیشہ سے ٹال مٹول سے کام لیاجاتارہاہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اب جبکہ ملک میں بجلی کی کمی پوری کرنے اور پاکستانی اشیا کو بیرون ملک قابل فروخت بنانے کے لیے ان کی پیداواری لاگت کم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ارباب اختیار صنعتوں کو کم قیمت اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے سولر انرجی یعنی شمسی توانائی کے پلانٹ لگانے پر توجہ دیں گے اور شمسی توانائی کے چھوٹے بڑے یونٹس کی درآمد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کا اعلان کیاجائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں