فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان‘ کراچی کی مایوس کن کارکردگی ،دیہی نوجوان بازی لے گئے
شیئر کریں
سی ایس ایس کے حالیہ امتحانات میں سندھ کے 29امیدواروں میں سے 25دیہی علاقوں سے جبکہ 4امیدوارشہری علاقے سے کامیاب ہوئے ہیں
آئین کے مطابق رائج کوٹہ سسٹم میں 60فیصد دیہی علاقوں کو اور 40فیصد شہری علاقوں کو ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کا حصہ دیا جاتا ہے
ایم کیو ایم اور دیگر شہری علاقوں کی جماعتیں کوٹہ سسٹم کے خاتمے جبکہ پی پی پی اور قوم پرست جماعتیں کوٹہ سسٹم برقراررکھنے کی حامی ہیں،تنازع تاحال حل طلب ہے
الیاس احمد
فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ہرسال مختلف وفاقی وزارتوں اور اداروں کے 300سے زائد نوجوانوں کو مقابلے کے امتحان میںشرکت کا موقع دیا جاتا ہے جس سے ملک بھر کے نوجوانوں کی ذہانت کا بھی اندازا لگایا جاتا ہے کہ کس علاقے میں نوجوان ذہنی طور پر آگے ہیں اور کس علاقے کے نوجوان ذہانت میں پیچھے چلے گئے ہیں۔پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں 90فیصد مسلمان امیدوارکامیاب ہوجاتے تھے اور نوکریوں میں بھی زیادہ تر مسلمان تھے ۔پھرسندھ کے مسلم سیاستدانوں نے اپنے کوٹے سے 10سے 15فیصد نوکریاں یوپی،سی پی کے مسلمانوں کو دیں ،یوں انگریزوں کی حکومت کے دور سے کوٹہ سسٹم رائج رہا،پھر پاکستان بنا تو بھی کوٹہ سسٹم نافذ رہا۔ذوالفقار بھٹو کے دور میں 1973کے آئین میں کوٹہ سسٹم کو باقاعدہ قانونی شکل دی گئی ۔60فیصد دیہی علاقوں کو اور 40فیصد شہری علاقوں کو ملازمتیں اور تعلیمی اداروں میں داخلے ملے ۔کوٹہ سسٹم 20برس کے لیے نافذ کیا گیا اور پھر اس کو بڑھا یا گیا اور تاحال کوٹہ سسٹم کی مدت میں توسیع کا سلسلہ برقرار ہے ۔
شہری علاقوں کا مطالبہ ہے کہ اب کوٹہ سسٹم ختم ہونا چاہیے ،اور دیہی علاقوں کا مو¿قف ہے کہ جب تک دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات شہری علاقوں کے برابر نہیں ہوتیں تب تک کوٹہ سسٹم کو برقراررکھا جائے ۔یہی تنازع تاحال جاری ہے ۔
ایم کیو ایم اور دیگر شہری علاقوں کی جماعتیں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی حمایتی ہیںجبکہ پی پی پی اور قوم پرست جماعتیں کوٹہ سسٹم برقراررکھنے کی حامی ہیں ۔یوں کسی نے بھی اس تنازع کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش نہیں کی ۔مگر حال ہی میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان نے صورتحال ہی بدل دی ہے جس میں شہری علاقوں کے نوجوانوں کی مایوس کن کارکردگی سامنے آئی ہے ۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت سی ایس ایس (سینٹرل سپیریر سروسز) کے امتحان میں پنجاب کے 146،سندھ کے 29،خیبرپختونخوا کے 18،بلوچستان کے 4،آزاد کشمیر کے 4جبکہ گلگت بلتستان کا ایک نوجوان کامیاب ہوا۔سندھ کے 29امیدواروں میں سے 25دیہی علاقوں کے اور 4امیدوارشہری علاقے سے کامیاب ہوئے ہیں ۔دیہی علاقوں کے 25میں سے 23سندھی بولنے والے ،ایک پنجابی اور ایک بلوچی زبان بولنے والا نوجوان کامیاب ٹھہرا جبکہ شہری علاقوں کے 4امیدوار اردوبولنے والے کامیاب ہوئے ۔ اس طرح صوبے بھر کے کامیاب امیدواروں کے حوالے سے تعلیمی اداروںکاجائزہ لیا جائے تو حیران کن صورتحال سامنے آتی ہے ۔سندھ بھر کے 29کامیاب امیدواروں نے جن تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ،ان میں سے سندھ یونیورسٹی کے 5،آئی بی اے سکھر کے 5،کراچی یونیورسٹی کے 4،مہران یونیورسٹی جامشوروکے 3،شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور کے 2،زیبسٹ کراچی کا ایک ،لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشوروکا ایک اور پرنسٹن یونیورسٹی کراچی کا ایک امیدوار شامل ہے ۔این ای ڈی یونیورسٹی کراچی ،ڈاﺅ میڈیکل یونیورسٹی کراچی اور آئی بی اے کراچی کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔اس طرح مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مرتبہ سی ایس ایس کے امتحانات میں سندھ کے شہری علاقوں کراچی ،حیدرآباداور سکھر کے امیدواروں کی کارکردگی مایوس کن رہی اور جو امیدواردیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔اب شنید یہ ہے کہ اگر کوٹہ سسٹم ختم کردیا جائے تو پھر مقابلے کا رجحان بڑھے گا ۔ ان نتائج کے آنے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت نے اس ایشو پر زبان نہیں کھولی ہے ،اس کا سبب کیا ہے ؟وہ تو ان جماعتوں کو بھی پتہ ہوگا ۔لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ اسمبلی میں کوٹہ سسٹم پر بحث کی جائے اور اس کو برقراررکھنے یا ختم کرنے کا ابھی فیصلہ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے تنازع باقی نہ رہے ۔دوسری طرف اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ صوبے بھر کے تمام اضلاع میںجہاں میڈیکل ،انجینئرنگ اور جنرل یونیورسٹیزقائم کی جائیں ان علاقوں میں وہی سہولیات دی جائیں جو کسی بھی شہری علاقے کی یونیورسٹیز میںہوتی ہیں اور یوں کوٹہ سسٹم کا مسئلہ حل کیا جائے کیونکہ یہ ایشو شہری اوردیہی علاقوں میں نفرت کا سبب بنا ہوا ہے ۔جب شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں تعلیمی سہولیات اور مواقع ہونگے تو صورتحال مقابلے والی ہوگی اور پھر اس میں جو کامیاب ہوگا اس کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے گااور جو ناکام ہوگا وہ کوئی بھی الزام نہیں لگاسکے
گا۔