میگزین

Magazine
تازہ ترین : عمران خان کی حکومت ہٹانے سے متعلق سائفر امریکی میڈیا میں ہی افشا ہو گیا سیاسی مذاکرات ، وزیراعظم کی تحریک انصاف کو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش پیکا ترمیمی بل، زرداری نے کہاتھا حکومت سے تجاویز تسلیم کرنے کا کہوں گا، مولانا فضل الرحمان جمہوریت کی خاطر سندھ میں متعصب حکومت کو برداشت کیا، چیئرمین ایم کیوایم ایم کیو ایم رہنمائوں کی پریس کانفرنس جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے ،ترجمان بلاول بھٹو حکومت سنجیدہ ہوتی تو اب تک کمیٹی بن چکی ہوتی، پی ٹی آئی کا وزیراعظم کی پیشکش پر ردِ عمل موجودہ حکومت الیکشن فراڈ ، دھاندلی سے وجود میں آئی، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط 190ملین پاؤنڈ اسکینڈل ، ملک ریاض کے خلاف کارروائی مہران ، کامرہ حملوں میں طیارے تباہ ہوئے ، کیا 9مئی کا جرم زیادہ سنگین ہے ؟سپریم کورٹ وفاقی کابینہ ،یورپی یونین سے ٹیرف ریٹس کوٹہ تقسیم معاہدے کی منظوری چیف جسٹس نہ ہونے پر کسی سے شکوہ نہیں،بطور سینئر جج خوش ہوں،جسٹس منصور

ای پیج

e-Paper
مروان فلسطین کے نیلسن منڈیلا بن کر ابھریں گے!

مروان فلسطین کے نیلسن منڈیلا بن کر ابھریں گے!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

جاوید محمود

فلسطینی سیاستدان اور فتح تحریک کے رہنما مروان البرغوثی 22 سال سے اسرائیلی جیل میں قید ہونے کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے ایک مرکزی کردار ہے ۔مروان 1958 میں رملہ کے قریب کبر گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر نو سال تھی جب اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں غرب اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ مروان البرغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 15 سال کی عمر میں فتح تحریک میں شامل ہو کر کیا۔ اس وقت فتح تحریک کے سربراہ یاسر عرفات تھے جیسے جیسے ان کا سیاسی کیریئر بڑھتا گیا انہوں نے فلسطینی جدوجہد کے لیے آواز بلند کرنا مزید تیز کر دیا۔ 1978میں انہیں پہلی بار ایک مسلح تنظیم کے رکن ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ چار سال قید میں رہے۔ مروان نے قید کے دوران عبرانی زبان سیکھی اور 1983میں رہائی کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن ڈگری حاصل کرنے میں انہیں 11سال لگے ۔اس دوران وہ سیاسی طور پر متحرک رہے اور فتح کی ینگ گارڈ نامی تنظیم کے سرکردہ رکن بنے، جو یاسر عرفات اور محمود عباس کی جلا وطنی کے دوران ابھری تھی۔ 1987میں جب پہلے انتفادہ کا آغاز ہوا تو مروان غرب اردن کے رہنما کے طور پر ابھرے مروان کو بعد میں اردن جلا وطن کر دیا گیا تھا لیکن 1994 کے اوسلو معاہدے کے بعد وہ واپس لوٹے انہوں نے امن معاہدے کی حمایت کی لیکن اسرائیل کے حوالے سے شک و شبہات کا شکار رہے۔ جب ستمبر 2000 میں انتفادہ کی دوسری لہر کا اغاز ہوا تو وہ غرب اردن میں فتح کے رہنما اور عسکری جنگ تنظیم کے سربراہ تھے۔ 2001میں وہ ایک قاتلانہ حملے میں اس وقت بال بال بچے تھے جب ان کے محافظ کی گاڑی کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا مروان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں ۔
فتح پارٹی کی قیادت کے لیے غرب اردن کے ضلع میں ہونے والے پرائمری انتخابات میں مروان کو 40000میں سے 34000 ووٹ ملے تھے ۔یاسر عرفات کے انتقال کے بعد مروان نے محمود عباس کی حمایت کی تھی لیکن پھر اپنے حامیوں کے اصرار پر اپنی امیدوار ی کا اعلان کر دیا تھا ۔مروان کو2002 میں اسرائیل نے آپریشن ڈیفنس شیلڈ کے دوران گرفتار کیا تھا اسرائیل نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے عسکری گروہ کتایبب شہدا القصہ کی بنیاد رکھی لیکن مروان نے اس الزام کی تردید کی ۔اس تنظیم نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی سپاہیوں اور آباد کاروں کے خلاف مہلک حملے کیے تھے۔ مروان البر غوثی کو انہی الزامات کے تحت 2004 میں پانچ بار عمر قید کے ساتھ ساتھ مزید 40 سال قید سخت کی سزا سنائی گئی تھی تاہم انہوں نے اسرائیلی عدالت کے اختیار اور اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ مروان کو ملنے والی سزا نے انہیں فلسطین میں اتنا مشہور کر دیا کہ بہت سے لوگ اب انہیں فلسطینی نیلسن منڈیلا سمجھتے ہیں ۔انہیں محمود عباس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا اگلا صدر بننے کے لیے بہترین امیدوار بھی سمجھا جاتا ہے ،تاہم ایسا تب ہی ممکن ہوگا اگر انہیں قید سے رہائی مل جائے۔ اسرائیلی اختیارات کے مطابق یہ عندیہ موجود ہے کہ اسرائیل انہیں رہا کر سکتا ہے لیکن یہ رہائی مشروط ہوگی اور شرط یہ ہوگی کہ انہیں فلسطینی علاقوں سے باہر رکھا جائے۔ ماضی میں ایسی روایات موجود ہیں جب جلاوطن رہنما بیرون ملک موجود ہوتے ہوئے سربراہ مملکت رہے جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ہوا۔ فلسطینی آئین میں بھی ایسی کوئی قدغن موجود نہیں جو مروان یا کسی اور کو جلا وطنی میں صدارت چلانے سے روکے اسرائیل مروان کو ان کی بڑے پیمانے پر حمایت کی وجہ سے انہیں رہا لیکن جلا وطن کرنا چاہے گا ۔
یورپین یونین کی فنڈنگ سے چلنے والا فلسطینی سینٹر برائے پالیسی اور سروس ریسرچ نے 13دسمبر 2023کو ایک پول رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق مروان صدارت کے لیے معروف انتخاب ہوں گے۔ اس وقت کی رپورٹ کے مطابق اگر صدارتی انتخابات میں محمود عباس سابق حماس رہنما اسماعیل ہانیہ (جن کی ہلاکت ہو چکی ہے ) اور مروان امیدوار ہوتے تو 47فیصد ،اسماعیل ہانیہ 43فیصد اور محمود عباس صرف فیصد ووٹ لیتے ۔2021کے صدارتی انتخابات میں مروان کی جانب سے حصہ لینے کا قوی امکان تھا ۔تاہم محمود عباس نے یہ الیکشن منسوخ کر دیا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم کو الیکشن میں شریک ہونے کی اجازت نہ دینے کو وجہ بیان کیا تھا۔ مروان کا موقف ہے کہ وہ اسرائیل سے امن اور 1967سے قبل کی سرحد پر مبنی دو ریاستی حل کے حق میں ہیں ۔2002میں انہوں نے امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ میں اور فتح تحریک اسرائیل کے اندر سویلین عوام کو نشانہ بنانے کے سخت خلاف ہوں لیکن مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے اپ کا دفاع کروں اور اپنے وطن پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کروں اور اپنی آزادی کے خلاف لڑوں میں ابھی بھی 1967میں قبضہ کیے گئے۔ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی بنیاد پر امن بقائے باہمی کا خواہاں ہوں ۔سچ کہوں تو ہم ہمیشہ اسرائیلی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے تھک چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف بین الاقوامی قانون کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2002سے اسرائیلی جیل میں قید مروان فلسطین کے نئے صدر کے عہدے کے لیے ایک متفقہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے اسرائیلی انہیں قتل کے جرم میں دی جانے والی سزا کی وجہ سے ان کی رہائی کے مخالف ہیں ۔دیگر کا ماننا ہے کہ فلسطینیوں کے درمیان اتفاق رائے قائم کرنے اور مخالف دھڑوں کو متحد کرنے کے لیے وہ بہترین امیدوار ہیں جوامن قائم کر سکتے ہیں ۔جنوری 2024میں اسرائیلی مصنف گرشون باسکن نے باریٹرز اخبار میں لکھا تھا کہ غزہ کی جنگ کے بعد ایک ایسا فلسطینی رہنما ضروری ہوگا جو فلسطینی اتحاد کو مضبوط کر سکے اور خطے کو غیر مسلح رکھنے کا عزم رکھتا ہو ۔یہ رہنما مروان ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مروان کی قربانیوں اور جدوجہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ مروان مستقبل میں فلسطین کے نیلسن مینڈیلا بن کر اُبھریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں