میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تارکین سے متعلق ٹرمپ کے فیصلے عدالتوں میں چیلنج

تارکین سے متعلق ٹرمپ کے فیصلے عدالتوں میں چیلنج

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۴ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں جو باتیں کی ہیں، اور انہوں نے اپنے خطاب میں جن سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے ان سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی ہلچل مچ گئی ہے۔

خود امریکہ کے بعض حلقوں یہاں تک کے ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد دعا کا اہتمام کرنے والے چرچ نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور دعائیہ تقریب ہی میں ٹرمپ سے مطالبہ کیاہے کہ وہ تارکین وطن کو معاف رکھیں کیونکہ اگر وہ غیر قانونی طورپر بھی امریکہ میں مقیم ہیں تو بھی وہ امریکی عوام کے بہت سے مسائل کا حل ثابت ہورہے ہیں جبکہ نیو جرسی اور ایریزونا کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

امریکہ کے آئینی ماہرین کا کہناہے کہ صدر ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی سابق صدر بائیڈن کے کئی احکامات اور اقدامات ہوا میں اڑا دیے۔امریکی ریاستوں اور شہری حقوق کے گروپوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط شدہ نئے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف پہلا مقدمہ دائر کردیا ہے۔ نیو جرسی کے اٹارنی جنرل میتھیو پلیٹکن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیدائشی شہریت کا حق واپس لینے کے حکم کو عدالت میں چیلنج کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی صدر کو بادشاہت کی طرز پر ملکی معاملات چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے، پیدائشی شہریت کا حق اس ملک کے بانیوں نے دیا تھا۔

نیو جرسی کے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ امریکہ کا آئین ملک میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کو شہریت کا حق دیتا ہے، امریکہ میں ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی طرح امیگرینٹ کی نسل سے ہے۔ میتھیو پلیٹکن نے کہا کہ اب امریکہ میں قانون کی بالادستی کیلئے کھڑا ہونے کا وقت آگیا ہے، یہ ہماری سیاسی لڑائی نہیں بلکہ قانون کی بالادستی کیلیے کی جانے والی لڑائی ہے۔

امریکہ میں شہری آزادیوں کی یونینز اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو فوراً چیلنج کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مریکی آئین میں 14ویں ترمیم کے ذریعے ‘پیدائش پر شہریت’ کا قانون عمل میں آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ‘تمام افراد امریکی شہری ہیں۔ امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کا پہلا جملہ ہی ‘پیدائش پر شہریت’ کے اصول کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کے مطابق ‘وہ تمام افراد جو امریکہ میں پیدا ہوئے اور اس کی حدود میں رہائش پذیر ہیں وہ سب امریکی شہری ہیں امریکی آئین میں 14ویں ترمیم خانہ جنگی کے اختتام پر 1868 میں کی گئی تھی۔

ملک میں 1865 میں غلام رکھنے کو ممنوع قرار دیا گیا تھا جبکہ 14ویں ترمیم میں آزاد کیے جانے والے ان غلاموں کی شہریت کی بات کی گئی تھی جو امریکہ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ 1898 میں سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کے دوران یہ اصول طے کر دیا تھا کہ ‘پیدائش پر شہریت’ کے قانون کا اطلاق پناہ گزینوں کے بچوں پر بھی ہو گا۔یہ مقدمہ 24 سالہ چینی پناہ گزین وونگ کِم آرک نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن جب وہ ایک دورے کے بعد چین سے واپس آئے تو انھیں امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی تھی۔

وونگ نے دلیل دی تھی کہ وہ خود امریکہ میں پیدا ہوئے تھے اور 14ویں ترمیم کے بعد ان کے والدین کی شہریت کا اثر ان کی اپنی امریکی شہریت پر نہیں پڑنا چاہیے۔

امیگریشن ہسٹری ریسرچ سینٹر کی ڈائریکٹر ایریکا لی کہتی ہیں کہ ‘وونگ کے کیس نے یہ اصول طے کر دیا تھا کہ لسانی حیثیت یا والدین کی امیگریشن کے معاملات کا اثر امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں پر نہیں پڑتا اور انھیں وہ تمام حقوق ملیں گے جو امریکی شہریوں کو ملتے ہیں قانونی ماہرین کی اکثریت کا کہناہے کہ صدر ٹرمپ کسی ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ‘پیدائش پر شہریت’ کا قانون ختم نہیں کر سکتے۔

یونیورسٹی آف ورجینیا سے منسلک قانون کے پروفیسر سائکرشن پرکاش کہتے ہیں کہ ‘ٹرمپ کچھ ایسا کر رہے ہیں جس سے بہت سارے لوگ پریشان ہوں گے اور بالآخر اس کا فیصلہ عدالتوں میں ہی ہوگا۔یہ ایسا معاملہ نہیں جس کا فیصلہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کر سکیں۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر وفاقی ادارے کے ملازمین کو ضرور حکم دے سکتے ہیں کہ وہ شہریت کے معاملات کو باریک بینی سے جانچیں لیکن اس کے سبب جن لوگوں کو شہریت دینے سے انکار کیا جائے گا وہ قانونی طور پر ان اقدامات کو چیلنج کریں گے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں میں کہا گیا تھا کہ امریکہ میں موجود افریقی کبھی بھی امریکی شہری نہیں بن سکتے تاہم 14ویں ترمیم کے بعد یہ تمام فیصلے کالعدم ہو گئے۔پیدائش پر شہریت’ کے قانون کو ختم کرنے کے لیے امریکی آئین میں ایک اور ترمیم کی ضرورت ہو گی لیکن اس کی منظوری کے لیے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فتح کی ترنگ میں آکر کچھ ایسی باتیں منہہ سے نکال دی ہیں جو سرمنڈلاتے ہی اولے پڑے کے مترادف ان کے گلے پڑنے والی ہیں اور اگر عدالتوں سے ان کے کسی بھی حکم کو کالعدم قرار دیاگیا تو ان کی تمام ساتھ سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ سکتی ہے ۔

حلف برداری کی تقریب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آج سے امریکہ کا سنہری دور شروع ہوگا، ہمارا منشور سب سے پہلے امریکہ ہوگا، امریکہ کو قابل فخر، خوشحال اور اقوامِ عالم میں سرفہرست ملک بنائیں گے اور اس کی خودمختاری دوربارہ حاصل کریں گے، ہمارا ملک ترقی کرے گا اور پوری دنیا میں دوبارہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ ہم اپنی کامیابی کا اندازہ نہ صرف ان جنگوں سے کریں گے جو ہم جیتیں گے بلکہ ان جنگوں سے بھی کریں گے جو ہم ختم کریں گے، اور سب سے اہم، ان جنگوں سے جن میں ہم شامل ہی نہیں ہوں گے، جلد ہی ہم میکسیکو کی خلیج کا نام بدل کر ‘‘گلف آف امریکہ’’ رکھ دیں گے۔

ہم پاناما کینال واپس لیں گے، ہم امریکی خلانوردوں کو مریخ روانہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری سب سے بڑی کامیابی ایک امن قائم کرنے والے اور اتحاد پیدا کرنے والے کے طور پر ہوگی۔ یہی وہ شناخت ہے جو میں چاہتا ہوں، ایک امن ساز اور اتحاد پیدا کرنے والا۔

انہوں نے ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہتھیار سازی کے خاتمے کا عزم بھی کیا۔ٹرمپ نے اپنی تقریر میں امریکہ کی داخلی کمزوریوں اور لامحدود وسائل رکھنے کے باوجود امریکی عوام کو صحت اور تعلیم کی مناسب سہولتوں کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا،ان کا کہنا تھا کہ ہمارا عوامی صحت کا نظام آفات کے وقت خدمات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، ہمارے پاس ایک تعلیم کا نظام ہے جو ہمارے بچوں کو خود سے شرمندہ ہونا سکھاتا ہے، اور کئی صورتوں میں انہیں اپنے ملک سے نفرت کرنا سکھاتا ہے، حالانکہ ہم انہیں بے پناہ محبت دینے کی کوشش کرتے ہیں،

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 برسوں میں، مجھے ہر اس چیز سے زیادہ آزمایا اور چیلنج کیا گیا ہے جو کسی بھی صدر نے امریکہ کی 250 سالہ تاریخ میں دیکھی ہو، اور میں نے اس دوران بہت کچھ سیکھا ہے، ہم آئین اور قانون کی حکمرانی کے تحت منصفانہ، مساوی اور غیر جانبدارانہ انصاف بحال کریں گے۔

یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کی باضابطہ پالیسی ہوگی کہ صرف دو جنس ہیں مرد اور عورت۔اپنی پوری تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین یا مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن اور اسرائیلی جارحیت کے سدِ باب کے حوالے سے براہ راست کچھ نہیں کہا کیونکہ ان کی توجہ زیادہ تر اندرونی پالیسیوں، توانائی، معیشت، اور مہنگائی جیسے موضوعات پر مرکوز رہی تاہم حلف برداری کے بعد ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری جنگ نہیں، لیکن میں غزہ جنگ بندی معاہدے کے برقرار رہنے کے حوالے سے پرامید نہیں ہوں۔

ٹرمپ کی اس خوشنما تقریر کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں کئی ایسے اقدامات کیے جو دنیا میں تشویش کا باعث بنے،اپنے دورِ اقتدار میں، وہ چین کے خلاف اقتصادی دباؤ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف رہے،انہوں نے فوجی فنڈز کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر ایک بلند دیوار کی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کا اعلان کیا،ان کے دورِ حکومت میں متعدد مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی عائد کی گئی،اپنے پہلے دورِ حکومت میں، انہوں نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کامتنازع فیصلہ کیا، اپنے ان اقدامات اور فیصلوں کی وجہ سے وہ دامریکہ کے مقبول عام صدر کی حیثیت حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔

اب صدر منتخب ہونے کے بعدان کے سامنے کئی ایسے مسائل ہوں گے جن سے انہیں عہدہ برآ ہونا پڑے گا، جن میں سرفہرست مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام اور اسرائیلی جنگی جارحیت کی روک تھام ہے، جب کہ روس یوکرین جنگ،پاک امریکہ تعلقات،چین سے معاشی مخاصمت اور دیگر امور شامل ہیں۔

ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کئی ایسے دعوے اور وعدے بھی کیے ہیں جو خود ان کے سابقہ دور حکومت اور امریکہ کی پوری تاریخ سے قطعاً ہم آہنگ نہیں، مگر وہ اس بات کے آرزو مند ہیں کہ وہ تاریخ میں یاد رکھے جائیں، ڈونلڈ ٹرمپ اگرچاہتے ہیں کہ تاریخ میں انہیں یاد رکھا جائے توانھیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ آج کی دنیا ایک آزاد دنیا ہے، اب نوآبادیاتی دور نہیں رہا، گزشتہ200 سال میں ساری دنیا جغرافیائی حدود میں تقسیم ہے اور اس دنیا کے نقشے پر موجود ممالک اپنا اپنا آئین اور دستور رکھتے ہیں،اس دنیا کی بد امنی اور امن کے اپنے کچھ تقاضے ہیں اس تناظر میں جو ملک جتنا بڑا ہے اس پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اگر کوئی فوجی،اقتصادی اور سیاسی طور پر بلند ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی اسی قدر ہیں،

عالمی طاقت ہونے کے سبب چھوٹے ممالک کی امریکہ سے کچھ توقعات ہیں اور بجا طور پرتوقعات کسی چھوٹے ملک سے نہیں بڑے ہی ملک سے ہوتی ہیں۔دنیا میں اپنی بالا دستی کے قیام کے لیے یہ امریکہ ہی تھا جس نے نیو ورلڈ آرڈجاری کیا،کسی چھوٹے ملک میں تو یہ یارا نہیں کہ وہ کوئی عالمی نظام جاری کرے،یوں تو امریکہ کا ماضی خوشگوار نہیں تاہم ماضی کو فراموش کرکے آگے بڑھنے کا راستہ یہی ہے کہ دنیا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کا مقابلہ کیا جائے، غربت، بھوک، افلاس، بدامنی اور بے انصافی وہ بڑے چیلنجز ہیں جن کا دنیا کے 8 ارب انسانوں کو سامنا ہے،

عالمی طاقت ہونے کے اعتبار سے دنیا سے، غربت، بھوک، افلاس، بدامنی اور بے انصافی کا خاتمہ امریکہ کی اولین ذمے داری ہے، بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس حوالے سے امریکہ نے نہ صرف اپنا کردار ادا نہیں کیا بلکہ بعض ایسے اقدامات بھی کئے جو ان مسائل میں اضافے کا سبب بنے جن میں اسرائیل اور بھارت جیسے عفریتوں کی بیجا حمایت اور پذیرائی سرفہرست ہے۔

ٹرمپ اگرتاریخ میں امر ہونا چاہتے ہیں تو انہیں پر امن بقائے باہمی کے دم توڑتے اصولوں کو زندہ کرنا پڑے گا،اور دنیا کے جن خطورں میں ایسے تنازعات ہیں جو جنگوں کا باعث بنتے یا بن سکتے ہیں انہیں حل کرنا ہوگا، دنیا کے نقشے پر موجود آزاد و خودمختار ریاستوں بالخصوص اسلامی دنیا کی آزادی و خودمختاری اورجمہوری عمل کا پاس رکھنا ہوگا، حکومتیں بنانے اور گرانے کے مکروہ عمل سے خود کو علیحدہ رکھنا ہوگا،

بھارت اور اسرائیل سمیت تمام جارح قوتوں کی پشت بانی وسرپرستی بند کرنا ہوگی اور عالمی عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے پڑیں گے ورنہ تاریخ میں تو چنگیز اور ہلاکو کے نام بھی درج ہیں مگر مثبت کردار کے طور پر نہیں، دنیا عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں پر کاربند قوم کو ہی بڑا تسلیم کرتی اور اسی کا احترام کرتی ہے محض طاقت کی بنیاد پر کسی کو جھکایا تو جا سکتا ہے اس سے عزت نہیں کروائی جاسکتی، برتری کے اخلاقی جواز کو ہی دنیا تسلیم کرتی ہے اور تاریخ میں ایسی قوم اور فرد کا نام بھی اسی وقت لکھا جاتا ہے جب اخلاقی برتری کا مظاہرہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں