بھارت بنگلہ دیش چپقلش
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بنگلہ دیش کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت نے خفیہ حربے شروع کردئیے۔دہلی میں آر ایس ایس کی قیادت میں اور بھارتی حکومت کی خفیہ حمایت سے کیے جانے والے حالیہ مظاہروں کا مقصد بنگلہ دیش کو غیرمستحکم کرنا ہے جو اب اپنی آزادی پر فخر کرتا ہے اور بھارت کے اثر و رسوخ کو پہلے جیسا قبول نہیں کرتا۔بنگلہ دیش میں ہندوئوں کے خلاف مظالم کی غلط بیانی کی جا رہی ہے ، جس کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا اور بنگلہ دیش کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا ہے کیونکہ وہ اپنی آزادی پر زور دے رہا ہے۔بھارت، بنگلہ دیش پر دوبارہ اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے مظاہروں اور میڈیا مہمات کا سہارا لے رہا ہے لیکن بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی آزادی ان ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔مظاہروں کے ساتھ ساتھ بھارت کے سیکریٹری خارجہ کا بے ادبی اور ناپسندیدہ دورہ بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت کی واضح علامات ہیں، جو بنگلہ دیش کی خودمختاری کے دفاع پر بھارت کی مایوسی کو ظاہر کرتی ہیں۔
بھارت ہندو قوم پرستی اور گمراہ کن معلومات کو استعمال کر کے بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ، لیکن بنگلہ دیش اب بھارتی کنٹرول کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور اپنی آزاد اور خود مختار شناخت پر فخر کرتا ہے۔عالمی برادری کو بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت، بشمول بھارتی سیکریٹری خارجہ کے بے ادبانہ رویے کی مذمت کرنی چاہیے ، کیونکہ بنگلہ دیش اپنی آزادی کا دفاع کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا کی غلط بیانی اور آر ایس ایس کے مظاہرے بنگلہ دیش کی خودمختاری پر خفیہ حملے ہیں جو بھارت کے کمزور ہوتے اثر و رسوخ اور بنگلہ دیش کی آزاد شناخت کے خلاف اس کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان چھڑنے والی بیان بازی کی جنگ ہندو اقلیتوں کے خلاف مبینہ بدسلوکی پر ہونے والے مظاہروں اور جوابی مظاہروں کے بعد بے قابو ہوتی نظر آ رہی ہے۔اگست میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے درمیان، جو قریبی اتحادی سمجھے جاتے تھے، سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں۔ یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد خود بھی بھارت میں ہی موجود ہیں۔تاہم حالیہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ ہفتے ایک ہندو راہب کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد بھارت میں ہندو تنظیموں اور کارکنوں نے مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں میںبھارت کی برسراقتدار جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان بھی شامل تھے۔یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب درجنوں مظاہرین اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے سفارت خانے میں داخل ہوئے اور نقصان پہنچایا۔ یہ واقعہ بھارت کے لیے ‘سفارتی شرمندگی’ کا باعث بنا۔چند ہی گھنٹوں کے بعد سرحد پار بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں سینکڑوں طلبہ اور سماجی کارکن اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ بھارت کی حکومت نے بنگلہ دیشی سفارت خانے پر حملے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اسے ‘انتہائی افسوسناک’ قرار دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘سفارتی اور کونسلر عمارات کو کسی بھی صورت نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔’ اس بیان میں ملک میں بنگلہ دیش کی سفارتی تنصیبات کی سکیورٹی بڑھانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ دوسری جانب انڈین پولیس نے سات افراد کو حراست میں لیا ہے۔تاہم ڈھاکہ، یعنی بنگلہ دیش کی حکومت، اب تک ناراض اور غصے میں ہے۔ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو ‘گھناؤنا فعل’ قرار دیتے ہوئے دلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک بھرپور تفتیش کی جائے اور بنگلہ دیش کے سفارتی مشنوں کے خلاف مستقبل میں پرتشدد واقعات کو روکا جائے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے امور خارجہ کے مشیر توحید حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ بہت افسوسناک اور ناقابل قبول صورتحال ہے۔ ہندو انتہا پسند عمارت میں گھسے اور پرچم کی توہین کی گئی۔ ہمارے افسران اور دیگر عملہ نہایت خوفزدہ ہیں۔’بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہونے والے مظاہرے، جن میں سے چند اس کی سرحد کے قریب ہوئے ہیں، غلط معلومات اور بھارتی میڈیا میں اس مسئلے پر گرما گرم کوریج کی وجہ سے بڑھے ہیں۔ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا اس معاملے کو لے کر جذباتی ہو رہا ہے۔ وہ بنگلہ دیش کی بری تصویر کشی کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور اس سے انڈیا یا بنگلہ دیش کو کیا فائدہ ہو گا، مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی۔’بھارت میں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ فطری بات ہے کہ بنگلہ دیش میں کسی بھی پیش رفت کے اثرات ہمسایہ ملک میں نظر آئیں۔ پنک رانجن چکروتی ڈھاکہ میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت میں کافی گہرے جذبات ہیں، بنگلہ دیش کو چاہیے کہ بدامنی کا مسئلہ حل کرے، خصوصی طور پر اقلیتوں پر حملوں کے معاملے کو۔’یاد رہے کہ بھارت کے لیے بنگلہ دیش صرف ایک ہمسایہ ملک نہیں ہے بلکہ سٹریٹیجک اتحادی اور سرحدی سکیورٹی کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے، خصوصی طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں۔بنگلہ دیش کی آبادی میں 10 فیصد سے کم ہندو ہیں۔ تاہم اس کمیونٹی کے سربراہان امتیازی سلوک اور انتہا پسندوں سمیت چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے نفرت انگیز حملوں کی شکایت کرتے رہے ہیں۔شیخ حیسنہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے کافی حامیوں نے نشانہ بنائے جانے کی شکایت کی جن میں اقلیتی کمیونٹی کے افراد بھی شامل تھے۔
شیخ حسینہ واجد کی بھارت میں موجودگی پہلے ہی دوطرفہ تعلقات میں کھٹائی کی وجہ ہے اور حالیہ مظاہروں نے پہلے سے ہی کشیدہ صورت حال میں اور بگاڑ پیدا کیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور انھیں بیان بازی میں کمی لانا ہو گی۔ایسے میں بنگلہ دیش سے کاروبار، سیاحت یا علاج کے لیے بھارت جانے والے عام شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔