میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
موسم سرما ... مرحبا مرحبا 

موسم سرما ... مرحبا مرحبا 

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۲ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

مولانا محمد الیاس گھمن 

اللہ تعالیٰ نے چار موسم بنائے ہیں۔ سرما ، گرما ،خزاں اور بہار۔ دنیاوی طور پر بہار اسے کہتے ہیں جس میں موسم خوشگوار اور معتدل ہو اس میں پھول زیادہ کھلتے ہیں کائنات میں پھیلا ہوا قدرتی حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔موسم سرما کی شریعت میں کیا اہمیت ہے مزید یہ کہ اسے کس طرح گزارا جائے ؟ آئیے اس بارے چند احادیث ملاحظہ کرتے ہیں:
مومن کا موسم بہار:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سردی کا موسم مومن کے لئے موسم بہار ہے اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں جن میں وہ روزے رکھ لیتا ہے اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں جن میں وہ قیام کرلیتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ، باب ما ورد فی صوم الشتاء ، حدیث نمبر 8719)
مفت کا اجر:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سردیوں کے روزے رکھنا مفت میں اجر کمانا ہے۔ (المعجم الصغیر للطبرانی ، حدیث نمبر 716)
برکتوں کا موسم:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مرفوعاً فرماتے ہیں : سردی کو خوش آمدید ! اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں وہ اس طرح کہ اس میں تہجد کے لئے رات لمبی جبکہ روزہ رکھنے کے لئے دن چھوٹاسا ہوتا ہے۔ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی ، حدیث نمبر 588)
تہجد کے فضائل وفوائد:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہیں چاہیے کہ رات کو قیام (بطور خاص تہجد ادا)کرو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی یہ تمہارا اپنے رب سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے یہ عمل تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے۔(جامع الترمذی،باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث نمبر 3472)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں کہ جن کے اندر کی طرف سے باہر کا سب کچھ نظر آتا ہے اور باہر کی طرف سے اندرکا سب کچھ نظر آتا ہے۔ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ !یہ کن کے لیے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ نے ان لوگوں کے لیے تیار فرمائے ہیں جو نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر نمازیں (تہجد) پڑھتے ہیں جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔(جامع الترمذی ،باب ماجاء فی صفۃ غرف الجنۃ ،حدیث نمبر 2450)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے چہرے پر(پیار سے) پانی کے چھینٹے مارتا ہے اور اللہ اس خاتون پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے) اپنے خاوند کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔(سنن ابی داؤد،باب قیام اللیل، حدیث نمبر1113)
سوموار اور جمعرات کا روزہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اس بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کے لیے مغفرت کا فیصلہ فرماتے ہیں سوائے ان(بدنصیب)لوگوں کے جو آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت اور تعلقات ختم کیے ہوئے ہوتے ہیں ان کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں ابھی رہنے دویہاں تک کہ یہ آپس میں صلح کر لیں۔ (سنن ابن ماجہ، باب صیام یوم الاثنین والخمیس، حدیث نمبر 1740)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ہمراہ وادی قریٰ میں اپنے مال کی تلاش میں گئے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ سے اس بارے سوال کیا کہ آپ بوڑھے آدمی ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ آپ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں کے اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد ، باب فی صوم الاثنین والخمیس، حدیث نمبر 2438)
بدھ ، جمعرات اور جمعہ کا روزہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص بدھ ، جمعرات اورجمعہ کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جنت میں ایک محل بنائیں گے جو موتیوں ، یاقوت اور زبرجد سے مزین ہوگا اور مزید ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے بری فرما دیتے ہیں۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 254)
ایام بیض کے روزے:
حضرت عبدالملک بن المنہال اپنے والد سے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ایام) بیض کے روزوں کا( ترغیب کے طور پر)حکم دیتے ہیں اور وہ(ہر عربی مہینے کے حساب سے) یہ دن بنتے ہیں : تیرہ ، چودہ اور پندرہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ پورے سال کے روزے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ ، باب ماجاء فی صیام ثلاثۃ ایام من کل شھر، حدیث نمبر 1707)
ہر ماہ کے تین روزے:
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص(سال کے بارہ مہینوں میں ) ہر ماہ تین روزے رکھے تو اس کا یہ عمل پورے سال کے روزے کے برابر ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق اپنی کتاب قرآن میں اس طرح فرمائی ہے جو شخص ایک نیکی لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا اللہ اس کی مثل دس عطا فرمائے گا تو ایک دن دس دنوں کے برابر ہوا۔ (سنن ابن ماجۃ باب ماجاء فی صیام ثلاثہ ایام من کل شھر، حدیث نمبر 1708)
فائدہ : اس حساب سے مہینے میں تین دن کے روزے پورے تیس دنوں کے روزے بنتے ہیں ۔
موسم سرما کو غنیمت جانیں:
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سردیوں کا موسم عبادت کا موسم ہے۔ چھوٹے چھوٹے دن ہیں ، لمبی لمبی راتیں ہیں۔ دن کو روزہ رکھیں نہ ہی بھوک اور نہ ہی پیاس ستاتی ہے۔ان دنوں میں رمضان کے قضا روزے بھی آسانی سے رکھے جا سکتے ہیں۔ راتیں بہت لمبی ہیں تلاوت ، ذکر، درود پاک ، نوافل ، قضا نمازیں اور معتبر دینی کتب کا مطالعہ وغیرہ جیسی عبادات میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے عطا فرمائیں۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں