میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خدا فراموشی کا تہذیب پراثر

خدا فراموشی کا تہذیب پراثر

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۴ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
ان کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو اپنے نفسوں سے بھلادیا۔
قابل صدا حترم ،قارئین مکرم!
سورة حشر کی آیت نمبر 19 کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس مبارک آیت میں خالق کائنات نے انسان کو خدا فراموشی سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔خدا فراموشی کا مطلب ہے اپنے معاملات میں خدائی احکامات سے رہنمائی نہ لینا۔ اللہ اور اس کے پاک پیغمبر ﷺ کی تعلیمات سے انحراف کرکے اپنی مرضی اور خواہشات کے تابع زندگی گزارنا۔ بندے کا اپنے معبود سے اس طرح کا تعلق دراصل خدا کو فراموش کردینے یا اس کو بھلا دینے کے مترادف ہے۔
قارئین گرامی!
کسی بھی معاشرے کے بگاڑ اور فساد کے بنیادی اسباب میں سے خدا فراموشی ایک بنیادی سبب ہے کیونکہ جب انسان خداکو فراموش کردیتا ہے تو پھر خدا بھی انسان کو فراموش کردیتا ہے اور خدا جب کسی انسان کو فراموش کردے تو اس کی سزا اس انسان کو یہ ملتی ہے کہ وہ اپنے نفع ونقصان کو بھول کر زندگی گزارنا شروع کردیتا ہے ۔بظاہر ایسا انسان دنیاوی منافع حاصل کررہا ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی آخرت کا نقصان کررہا ہوتا ہے ۔اگر کوئی آدمی ظاہری چمک دمک والی کسی حقیر شے کی خاطر اپنی ساری جمع پونجی برباد کر بیٹھے تو ایسے شخص کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہ شخص پاگل ہے جو اپنے حقیقی نفع ونقصان کو بھول بیٹھا ہے۔
خدا فراموش شخص اپنی عقل پر نازاں ہوتا ہے لیکن خدا کی رہنمائی کے بغیر یہ عقل محض ایسے ایسے سماجی مسائل اور پریشانیاں کھڑی کردیتی ہے ،ایسے ایسے اعمال اور افعال وجود میں آنے لگتے ہیں جس سے انسانیت منہ چھپانے لگتی ہے اور پورا معاشرہ تباہی ،بربادی اور زوال کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ قدیم یونان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عہد قدیم میں لفظ یونان محض موجودہ یونان کے لئے ہی نہیں بولا جاتا تھا بلکہ جزائر ایجین ،ایشائے کوچک (ترکی)صقلیہ اور اطالیہ کی ساحلی نوآبادیاں بھی اپنے اپ کو یونان کہتی تھیں۔ یہ تہذیب چودہ سوسال قبل مسیح میں اپنے عروج پر پہنچی۔اس تہذیب نے دنیا کو ذہین ترین انسان اور بعض علوم وفنون کی بنیادیں فراہم کیں۔ آج کی مغربی تہذیب دراصل یونانی تہذیب ہی کی بنیادوں پر استوار ہے ۔ایسی زبردست تہذیب خدا فراموشی کے نتیجے میں اس طرح زوال پذیر ہوئی کہ وہ یونان جہاں کل افلاطون ،ارسطو، سقراط اور بقراط جیسے عظیم فلسفی، ڈیمو ستھین جیسے عظےم خطیب اور سکندر اعظم جیسے عظےم سپہ سالار پیدا ہوتے تھے آج وہاں صف بحری جہازوں کی توڑ پھوڑ اور مرمت کا کام ہوتا ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟تمام تر علوم وفنون اور تہذیبی ترقی کے باوجود اہل یونان ذہنوں میں خدا کا ایک تصور تو رکھتے تھے لیکن ان کے دل خوفِ خدا سے خالی تھے ۔خدا ان کے ہاں ایک ذہنی وجود تھا۔ان کی عملی زندگی میں خدا سے محبت الفت اور اطاعت کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی ۔اس طرز عمل کے نتیجے مےں قانون ِقدرت حرکت میں آیا اور غلط صحیح کی پہچان چھین لی گئی اور ایک ایسی سوسائٹی وجود میں آگئی جو کسی طور انسانی سوسائٹی کہلانے کی مستحق نہےں تھی۔ ہر طرف ظلم اور بہمیت کار اج تھا۔ لوگ شر کو خیر سمجھ رہتے تھے اور ایک حیوانیت تھی جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ یونانیوں کے نزدیک سب سے بڑا معیار خوبصورت اور سڈول جسم تھا۔ چنانچہ ریاست اسپارٹا کی عورتیں برہنہ جلوس نکالتی جس میں وہ ناچتی اور ورزش کرتی تھیں اور مردوں کو تاکید کرتیں کہ وہ ان برہنہ جلوسوں کا نظارہ کریں۔ مردوں کے بھی برہنہ جلوس نکلتے تھے اور اسی عالم برہنگی میںمذہبی تقریبات انجام دی جاتیں۔ اہل ایتھنز کو بے حدو حساب بیویوں کی اجازت تھی۔ بیوی محض ایک اثاثہ تھی جس کی خرید وفروخت کی جاسکتی تھی بلکہ وصیت کے ذریعے اسے منتقل بھی کیاجاسکتا تھا۔ بچوں کے حوالے سے اہل اسپارٹا کا رویہ انتہائی غیر انسانی تھا۔ عورتیں نومولود بچے کو پانی کی جگہ شراب سے نہلاتیں تاکہ اگر بچہ کمزور ہے تو اسی تجربے سے مرجائے اور اگر توانا اور صحت مند ہے تو بچ جائے۔
وہ زبردست تہذیب جس کے اعلیٰ ترین دماغوں اور طاقتور ترین شمشیر زن بازو¿ں کو آج بھی استعارے کے طور پر پیش کیاجاتا ہے خدا فراموشی اور اس کو بھلادینے کے باعث اس کا حشر کیاہوا؟وہ دنیا سے ایسی مٹ گئی کہ آج اس کے صرف چند کھنڈرات باقی ہیں جو درس عبرت کے لیے کافی ہیں۔
قارئین گرامی !
خدافراموشی کے بعد زندگی جوہر انسانی وصف سے عاری ہوکر صرف گھٹیا اور ذلیل اوصاف کا مجموعہ رہ جاتی ہے جوکسی طور اشرف المخلوقات یا نائب خدا وند عالم کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتی۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں اپنے معاملات میں خدا سے غافل شخص اگر تاجر ہو تو لالچ ،ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا بدترین مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ فرد اگر مفلس ہوتو کوشش کرتا ہے کہ اپنی مفلسی دور کرنے کے لیے خود کچھ نہ کرے جبکہ دو سروں کی محنت کا پھل خود مفت میں کھائے یہ فرد اگر مزدوری کرتا ہے تو اپنے فرائض کی ادائیگی مےں کوتاہی کرتا ہے لیکن مزدوری پوری چاہتا ہے، یہ شخص اگر دولت مند ہو تو اعلیٰ درجے کا کنجوس اور سنگ دل ہوتا ہے۔ اگر صاحب اقتدار تو لٹیرا اور بددیانت، اگرمالک ہوتو ایک ظالم اور خود غرض اور اگر نوکر ہو تو کام چور اور بے ایمان۔ اگر خرانچی بنادیاجائے تو خائن، اگر حکومت کا صدر یا وزیر ہوجاتا ہے تو شکم پرور، روح سے بے خبر بندہ¿ نفس جو صرف اپنی ذات اور اپنی پارٹی کے نفعکودیکھتا ہے ،اگر لیڈر بن جائے تو اپنی قوم اور وطن کی عزت بڑھانے کے لیے دوسری قوموں کی عزت وآبرو خاک میںملانے سے ذرا بھی گریز نہیں کرتا، اسے اگر قانون سازی کا اختیار دیاجائے تو ظلم اور ناانصافی کے پہاڑ توڑنے لگ جاتا ہے اور اگر اس کے دماغ میں صنعت وایجادات کا ہنر آجائے تو ہلاکت خیز تباہی وبربادری پھیلانے والے آلات اور زہریلی گیس، بمبار طیارے اور ٹینک یہاں تک کہ ایٹم بم بناتا ہے، جس کی ہلاکت سے نہ انسان بچ سکتے ہیں نہ حیوان نہ کھیت، نہ باغات بلکہ زندہ انسانوں کے شہر آن کی آن میں ویرانوںاور قبرستانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،کیونکہ جس طرح انسان کے باہر کی دنیا میں بے شمار درندے موجود ہیں اسی طرح انسان کے اندر بھی بے شمار درندہ صفات موجود ہیں جو جنگل کے جانوروںسے زیادہ خطرناک اور زہریلی ہیں لیکن ان بلانما صفات کو خدا کا خوف باہر نکلنے سے روکے رکھتا ہے بلکہ ان کی تربیت کرتے ہوئے شائستگی اور تہذیب سے آراستہ کردیتا ہے لیکن جب انسان خدا فراموشی پر اتر آتا ہے تو انسان کی اندر کی بری صفاتباہر نکل کر اسے درندہ بنادیتی ہیں جس سے پورا معاشرہ فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ انسان انسان کا شکار کھیلنے لگتا ہے ،آدمی آدمی کے خون کاپیاسا ہوجاتا ہے ،اچھے برے،حق ناحق کی تمیز ختم ہوجاتی ہے اور انسانی نفس ایک جانور اور شتر بے مہار کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ قرآن کریم ایسے شخص کوکچھ اس طرح بیان کرتا ہے’ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو معبود بنارکھا ہے تو کیا تم اس پر نگہبان ہوسکتے ہو؟یا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟(نہیں)یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں(سورة الفرقان آیت 33-34)
قارئین گرامی!
خدافراموشی ایک ایسا جرم ہے، قدرت جس کی سزا انتہائی بھیانک طریقے سے دیتی ہے۔ انسان مقام انسانی سے گرجاتا ہے اور افراد، معاشرہ اجتماعی طور پر ایسے کاموں میںمشغول ہوجاتے ہیں جن کے نتائج پوری تہذیب اور معاشرت کے لیے ایک مکمل بربادی کا پیغآم لے کر آتے ہیں۔ ایتھنز،اسپارٹا اور مقدونیا کے کھنڈرات اور مصر میں فرعونوں کے آثارآج ہزاروں برس کی کھدائی کے بعد زمین سے باہر نکل کرلوگوں کو یہی پیغام عبرت سنا رہے ہیں۔
اللہ ہمیں غافل ہونے سے بچائے اور اپنی یادمیں لگائے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں