عوامی انقلاب کے بغیر مافیاز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا!
شیئر کریں
تحریک ِ انصاف نے حکومت مخالف نئی تحریک کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق تحریک ِانصاف کی سیاسی کمیٹی نے ملک بھر میں جلسوں کی منظوری دے دی ہے، اس فیصلے کے تحت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے یکم نومبر کو پشاور رنگ روڈ پر جلسہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جلسے میں پورے پاکستان سے لیڈر شپ اور کارکنان شرکت کریں گے۔تحریک انصاف نے یہ جلسہ چونکہ پشاور میں کرنے کا فیصلہ کیاہے اس لئے پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کی جانب سے اسے روکنے یا اس میں رخنہ اندازی کی شاید جرأت نہ ہو اس طرح یہ جلسہ یقینادھواں دھار ہوگا، اور اس جلسے کے مقررین یقینا عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ فی الوقت حکومت کسی اور کی ہے اور نام کسی اور کا یعنی بانی تحریک انصاف عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک میں اس وقت اصل میں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے، اورشہباز شریف کو صرف فیتے کاٹنے کے لیے رکھا گیا ہے۔اس لئے وقت آگیاہے کہ پاکستان کو بچانے اور حقیقی معنوں میں منتخب جمہوری حکومت قائم کرنے کیلئے تو شفاف الیکشن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، موجودہ حکومت نے پاکستان کی امید ختم کردی ہے، کسی کو اس حکومت پر بھروسہ نہیں رہا، ملک میں جمہوریت کی قبر کھودی جا رہی ہے اگر اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو بچانا ہے تو شفاف الیکشن کرائے جائیں تاکہ عوام کے حقیقی منتخب نمائندے سامنے آسکیں اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کیلئے مشکل فیصلے کرسکیں کیونکہ مشکل فیصلے وہ کرتا ہے جس کے پیچھے عوام ہوں، 2021 میں ملک کا قرضہ 28 کھرب تھا، 4 سال میں ملک کے قرضے 80 سے 90 کھرب تک پہنچ گئے، جس غریب کا 2 ہزار کا بل آتا تھا اب اس کا 10 ہزار بل آتا ہے، ساری اشرافیہ کے پیسے باہر پڑے ہیں۔جبکہ موجودہ حکومت کا تو یہ حال ہے کہ اسے خود اپنی عدلیہ پر بھی اعتبار نہیں ہے اور وہ مخالفین کو لمبی لمبی سزائیں دلوانے کیلئے فوجی عدالتیں قائم کرنے پر بضد ہے اور اس کیلئے اب آئین میں 27 ویں ترمیم لانے کیلئے کوشاں ہے ،اب اس حکومت سے سوال کیا جاسکتاہے کہ کون سی جمہوریت میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائلز ہوتے ہیں؟ سیاسی قیدیوں کے ساتھ کس ملک میں ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ پاکستان کا سب سے بڑاغدار ہو، جمہوریت اخلاقی رویوں پر چلتی ہے، جمہوریت آزادی کا نام ہے، جہاں جمہوریت آزاد ہوتی ہے وہی ملک پرواز کرتا ہے مگر ہمارے ملک میں جمہوریت کی قبر کھودی جا رہی ہے۔
آج پاکستان استحصالی جابرانہ نظام کی وجہ سے اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں پر اس کی سمت درست کرنے کے لیے عوامی انقلاب کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا ۔ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں عوام نے بے مثال جوش جذبے اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے نرم انقلاب لانے کی کوشش کی جسے عوام دشمن استحصالی قوتوں نے ریاستی جبر اور طاقت سے ناکام بنا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پاکستان کے نوجوانوں کی رائے اور آواز کو جس ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کیا گیا اس کے بعد ان کا انتخابات پر اعتماد ہی اٹھ چکا ہے۔ نوجوان فکری اور ذہنی طور پر انقلاب پر آ مادہ ہو چکے ہیں۔
تحریک انصاف، مولانا فضل الرحمن کے ساتھ سلسلہ جنبانی جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مولانا کے ورکر، صرف ورکر ہی نہیں نظریاتی کارکن ہیں، دینی جذبے سے سرشار مدارس کے باقاعدہ تربیت یافتہ مولانا کی ایک آواز پر متحرک ہونے اور کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہونے والے ہیں وہ اس قسم کے عملی مظاہرے پہلے بھی کر چکے ہیں مقتدرہ قوتوں کو بھی مولانا کی اس قوت کا اندازہ ہے،ا اور اب ایسا معلوم ہوتاہے کہ عمران خان بھی اسی قوت کو ساتھ ملانے یا اس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ نظریاتی اور فکری طور پر صرف مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی بھی ایک فیصلے پر نظر آتے ہیں یہ سب لوگ الیکشن 2024 کو نہیں مانتے، مقتدرہ کی مداخلت سے قائم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو پی ڈی ایم ٹو کہتے ہیں ویسے شہباز شریف کی پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے 16 مہینوں کے دوران، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے نام پر جو کچھ کیا وہ قابل ستائش نہیں ہے عوام کو معاشی مشکلات کا شکار کرنے کے بعد ‘‘اللہ کا شکر ہے’’ کا نعرہ بلند کرنا اور کہنا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے کافی ثابت نہیں ہوسکا۔کیونکہ عوام کو تو اس حقیقت کا پتہ نہیں کہ ملک ڈیفالٹ سے بچا ہے یا نہیں لیکن عوام کو اپنے بارے میں صد فیصد یقین ہے کہ وہ ڈیفالٹ کر چکے ہیں ملک کے ڈیفالٹ سے بچانے کے نام پر عوام پر ٹیکسوں کا جو بوجھ ڈالا گیا اس سے ن لیگ اور اتحادیوں کے بارے میں عوامی تاثر میں ابتری پیدا ہوئی۔ یہ اسی ابتری کا نتیجہ ہے کہ نوازشریف چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز نہیں ہو سکے۔ عوام نے ن لیگ سے نفرت کا اظہار، تحریک انصاف کو اکثریت دے کر کیا ۔ فروری 2024 کے انتخابات کے وقت تحریک انصاف 9 مئی کے سانحے کے زیراثر سہمی بیٹھی تھی۔عمران خان اور دیگر بڑے قائدین یا جیلوں میں تھے یا زیرزمین جا چکے تھے تحریک انصاف سے ان کا پارٹی نشان بھی چھینا جا چکا تھا اس کے باوجود انصافی ووٹر جوق در جوق نکلے، پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچے اور انصافی امیدواروں کو چن چن کر جتوایا۔ لیکن مخصوص نشستیں نہ ملنے کے باعث تحریک انصاف حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ آ سکی۔اس دن سے ایک سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے اسی وقت ان انتخابات کی شفافیت اور ن لیگی حکومت کی نمائندہ حیثیت پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے تھے اس کے بعدشہباز حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عوام کے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے اس نے حکومت کی قبولیت کا گراف پاتال تک پہنچا دیا ہے حکومت کی ناکامی اور نامرادی کے بارے میں متفقہ رائے قائم ہوتی چلی گئی ہے اس میں ن لیگی، انصافی، جماعتیہ، پپلیا وغیرہ کی تفریق نہیں ہے۔ حکومتی اقدامات نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو بلاتفریق شدید متاثر کیا ہے طبقہ اشرافیہ بشمول حکمران و مقتدر طبقات کے علاوہ ہر طبقہ برباد نظر آ رہا ہے۔ ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے اور بڑھاتے ہی چلے جانے کی پالیسی نے عمومی کاروبار حیات پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں معاشی نمو میں اضافے کے بغیر، صنعتی پھیلاؤ کے بغیر، سرمایہ کاری میں اضافے کے بغیر، روزگار کے مواقع بڑھائے بغیر ٹیکسوں میں اضافہ احمقانہ اقدام نہیں تو اور کیا ہے ۔حکومت نے ایسے اقدامات اٹھاتے وقت کسی منظم حکمت عملی اور اس کے مستقبل میں اثرات کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ذکر کیا ہے تو قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کا، جس کے لئے ٹیکسوں کی وصولیوں میں اضافے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ عوام کا خون نچوڑنے کے بعد قرضوں کا بوجھ کم بھی ہو گا۔ قرضوں کا بوجھ ہر دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حکومت کے پاس کوئی قلیل مدتی یا طویل مدتی پلان ہی نہیں ہے کہ قرضوں کا بوجھ کس طرح کم کرنا ہے وہ توڈنگ ٹپاؤ یعنی ‘‘ڈے بائی ڈے’’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ آج کا دن خیرخیریت سے گزر جائے کل کس نے دیکھی ہے۔ 9 مئی نے عمران خان کی پارٹی کو نیم مردہ کر دیا تھا لیکن حکمرانوں کی پالیسیوں نے اسے درگورنہیں ہونے دیا۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے اسے ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے وہ جیل میں ڈٹا ہوا ہے، للکار رہا ہے، حکومت پر تنقید کے نشتر چلا رہا ہے۔ عمران خان ایک سزایافتہ مجرم ہے لیکن پارٹی چلا رہا ہے۔ وہ ریاست کا ملزم ہے لیکن للکار رہا ہے اسے حقیقی معنوں میں کیفرکردار تک پہنچایا ہی نہیں گیا اور نہ ہی اسے حتمی انجام تک پہنچانے کی کوئی پالیسی نظر آ رہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی ناکامی، عمران خان اور ہمنواؤں کو ایک بار پھر اقتدار کے قریب لا رہی ہے اور اگر صورت حال ایسے ہی رہی تو عوام بھی اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی عوام دشمن قومی بجٹ 2024-25ئنے عوامی انقلاب کے لیے حالات کو مزید سازگار بنا دیا ہے- عوام دشمن طاقتیں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے متحد ہو چکی ہیں ۔ جن کے خلاف مقامی سطح پر مزاحمت کے واقعات نظر آ رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نوجوانوں نے اپنے مسائل کے حوالے سے کامیاب لانگ مارچ کرکے پاکستان کے نوجوانوں کے لیے مثبت پیغام دیا ہے۔ریاستی ادارے ایک دوسرے کے خلاف محاذ ارائی کی کیفیت میں ہیں۔ وہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں ۔ عوامی طاقت سے ہی ریاستی اداروں کو ان کی آئینی حدود کے اندر رکھا جا سکتا ہے پاکستان کے انقلابی طبقے مزدور کسان غریب اور محروم عوام لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں۔اگر پاکستان اور عوام دوست افراد انقلاب کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز کریں تو عوام ایسی جدوجہد کا حصہ بننے کے لیے تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ عوامی انقلاب کے بغیر سیاسی معاشی اور انتظامی بھل صفائی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی انقلاب کے بغیر حقیقی آزادی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔موجودہ حکومت کی نالائقیوں ،اقربا پروری اور مبینہ لوٹ مار کی وجہ سے پیداہونے والی موجودہ صورت حال میں عمران خان عوام کی امیدوں کا مرکز بن چکے ہیں۔ وہ اگر حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے انقلابی لانگ مارچ کا اعلان کریں تو پورا ملک ان کی کال پر متحد اور متحرک ہو سکتا ہے ۔ عوامی انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے لازم ہے کہ عوام کے سامنے واضح قومی انقلابی ایجنڈا پیش کیا جائے جو ہر دل کی آواز ہو اور محروم افراد کو انقلابی پلیٹ فارم پر متحد کر سکے۔عوام کو مایوسی اور نا امیدی سے باہر نکالنے کے لیے بھی لازم ہے کہ انقلاب کی تیاری کی جائے اور عوام کے دلوں میں مثبت بامعنی اور تعمیری تبدیلی کی امید پیدا کی جائے۔پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اور محکمے ناکارہ اور زوال پذیر ہو چکے ہیں۔جوہری اصلاحات کے بغیر ان اداروں کو اور محکموں کو عوام دوست اور فعال نہیں بنایا جا سکتا۔ لازم ہے کہ ایک عوامی انقلاب برپا کیا جائے تاکہ پاکستان کی ازادی اور سلامتی اور خود مختاری کو بھی محفوظ بنایا جا سکے۔حالات کو اگر جوں کا توں رکھا گیا تو پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔جبکہ کامیاب عوامی انقلاب پاکستان کی سلامتی خوشحالی اور آزادی کا ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ ریاستی نظام کے ذریعے استحصالی طبقوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنا ہرگز ممکن نہیں رہا۔پاکستان کے نوجوانوں کو بھی اب آنکھیں کھول لینی چاہیں اور بیدار ہو جانا چاہیے اور اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ انقلاب کے سوا پاکستان کو بچانے اور عوام کو بنیادی انسانی حقوق دینے کے لیے اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ جب نوجوان پاکستان کے ہر شہر اور گاؤں میں انقلاب کا نعرہ بلند کریں گے تو انقلاب کی تحریک منظم اور فعال ہو جائے گی۔ پاکستان کے عوام کی عزت اور وقار بحال کرنے کے لیے اور پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے انقلاب ناگزیر ہو چکا ہے جس کے لیے حالات آج بہت سازگار ہیں۔ پاکستان کے پڑھے لکھے سوچ بچار کرنے والے جو افراد جو عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ وہ عمران خان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ایک بار پھر ناکام راستے پر چلنے کی بجائے ایسا راستہ اختیار کریں جس میں کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔اگر پاکستان ریاست اور عوام کے مفاد میں سوچ بچار کی جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے وہ عوامی انقلاب کا ہے۔عوامی انقلاب کے بغیر مافیاز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کے اندر مثبت اور تعمیری تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ریاستی اداروں میں اصلاحات لا کر انہیں فعال اور عوام دوست بنانے کے لیے بھی انقلاب ضروری ہوچکا ہے۔عوامی انقلاب کے بعد تین سال کے اندر یکساں احتساب کیا جائے اصلاحات نافذ کی جائیں اس کے بعد انتخابات کروائے جائیں ۔پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی سماجی انصاف اور ہر شہری کے لیے مساوی مواقع عوامی انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔