برلن، ڈبلیو 20سمٹ ‘ایوانکا کی جانب سے ٹرمپ کے دفاع پر خواتین کا شورشرابا
شیئر کریں
خواتین صنعت کاروں پر ہونے والے ڈسکشن میں جب خواتین سے متعلق ٹرمپ کے رویے کا دفاع کیا تو حاضرین نے ایوانکا کیخلاف نعرے لگائے
ایوانکا کی اپنے شوہر کے ساتھ وہائٹ ہاﺅس منتقلی اور ان کو وہائٹ ہاﺅس میں دفتر اور عملے کی فراہمی پر امریکی عوام نے شدید احتجاج کیاتھا
شہلا حیات
جرمنی کے دارالحکومت برلن میںدنیا کے طاقتور ترین ممالک کی خواتین کی ایک کانفرنس گزشتہ دنوں منعقد ہوئی جس میں دنیا کے سب سے امیر 20 ممالک کی نمائندہ خواتین نے شرکت کی۔چونکہ یہ صرف خواتین سے متعلق کانفرنس ہے اسی لیے اسے ڈبلیو 20 یا وومن 20 سمٹ کہا جار رہا تھا۔ اس کانفرنس کی میزبانی جرمن چانسلر انگیلا مرکل کر رہی تھیں اور اس میں شرکت کرنے والے دیگر اہم ترین ناموں میںآئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈے اور نیدرلینڈز کی ملکہ میکسیما کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ بھی شامل ہیں۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایوانکا ٹرمپ ملک سے باہر سرکاری طور پر کسی بین الاقوامی اجلاس میں شریک ہوئیں۔
ایوانکا ٹرمپ نے کہا ہے کہ ”میرا اپنا ذاتی تجربہ اور ساتھ ہی ٹرمپ کاروبار میں طویل عرصے سے ملازمت کرنے والی متعدد دیگر خواتین کا تجربہ اِسی بات کا غماز ہے کہ صدرِامریکا خواتین کے باصلاحیت ہونے پر یقین رکھتے ہیں، جو کسی مرد کی طرح عمدگی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ہیں“ امریکی صدر کی دختر نے خواتین سے متعلق اُن کے والد کے مو¿قف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں خواتین کے بارے میں صدر کے رویے کو درست طور پر اجاگر نہیں کیا گیا۔ ا±نہوں نے یہ بیان ’جی 20‘ خواتین سربراہ اجلاس ’ڈبلیو 20‘کے دوران ایک مباحثے میں شرکت کے دوران دیا، جس کا عنوان تھا کاروباری صلاحیت کی مالک ابھرتی ہوئی خواتین کی کس طرح حمایت کی جا سکتی ہے۔ تقریب میں جرمن چانسلرانگیلا مرکل اور ورلڈ بینک کی منتظم اعلیٰ کرسٹین لے گارڈے شامل تھیں۔ایوانکا نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ ابھی سیکھ رہی ہیں کہ دنیا بھر کی خواتین کی زندگی میں مثبت کردار کس طرح ادا کیا جا سکتا ہے۔بقول اُن کے”میں اِس بات کی جستجو کر رہی ہوں کہ دنیا بھر کی خواتین کو معیشت اور داخلی امور میں کس طرح مزید با اختیار بنایا جا سکتا ہے“۔امریکا کی مثال پیش کرتے ہوئے، ایوانکا ٹرمپ نے کہا کہ خواتین ساجھے داروں کے لیے کاروباری ماحول ”بہترین نوعیت کا ہے“؛ ایسے میں جب خواتین کی ملکیت والا نجی کاروبار صرف 30 فی صد ہے، جب کہ اُن کی آبادی نصف کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ ”ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، جب کہ ہمیں ابھی جس مقام پر پہنچنا ہے، وہاں نہیں پہنچے“۔
خواتین کے جی -20 اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے جب خواتین سے متعلق اپنے والد کے رویے کا دفاع کیا تو انہیں شدید شور شرابے کا سامنا کرنا پڑااور حاضرین نے ایوانکا کے خلاف نعرے لگائے۔ایوانکا ٹرمپ خواتین صنعت کاروں پر ہونے والے پینل ڈسکشن میں جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی صدر کرسٹین لیگارڈ کے ساتھ شریک تھیں۔جب انہوں نے اپنے والد اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کرنا شروع کی تو وہاں موجود لوگوں کو یہ ناگوار گزرا۔جب انہوں نے کہا کہ ان کے والد خواتین کی عزت کرتے ہیں اور خاندان کے تصور پر یقین رکھتے ہیں تو خواتین نے شور مچا کر ان سے اختلاف کا اظہار کیا۔خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو خواتین کے متعلق ان کے رویے کے لیے کافی بار تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔گزشتہ سال امریکی صدارتی انتخاب کے لیے مہم کے دوران ان کا ایک پرانا ٹیپ ریلیز ہوا تھا جس میں وہ خواتین کے لیے نامناسب بات کہتے ہوئے نظر آئے تھے۔برلن میں ایوانکا ٹرمپ کے دورہ پر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔اس کے بعد امریکا کے علاوہ دنیا بھر میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔لیکن جی 20 کے خواتین اجلاس میں ایوانکا نے کہا: ‘میں نے اپنے والد پر ہونے والی تنقید سنی ہے، لیکن میں انہیں اس طور پر نہیں جانتی۔ میں نے ہی کیا، وہ تمام خواتین جو ان کے ساتھ، ان کی کمپنی میں کام کر چکی ہیں وہ ان پر ہونے والی اس قسم کی تنقیدوں سے، ان باتوں سے اتفاق نہیں رکھتیں۔ایوانکا نے مزید کہا کہ ان کے والد نے ہمیشہ آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی اور ان کے خاندان میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی۔خیال رہے کہ مارچ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ایوانکا اپنے والد کی بلا معاوضہ اسسٹنٹ کے طور پر کام کریں گی۔ اس سے قبل ایوانکا کی اپنے شوہر کے ساتھ وہائٹ ہاﺅس منتقلی اور ان کو وہائٹ ہاﺅس میں دفتر اور عملے کی فراہمی پر امریکی عوام نے شدید احتجاج کیاتھا جس کے نتیجے میں حکومت کو یہ وضاحت کرنا پڑی تھی کہ ایوانکا اپنے والد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بلامعاوضہ معاون کے طورپر خدمات انجام دیں گی اور ان خدمات کے عوض انہیں کسی طرح کا معاوضہ ادا نہیں کیاجائے گا ۔
ایک طرف پوری دنیا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ناپسندیدگی کا اظہار کیاجارہاہے، دوسری جانب جنوبی کوریا کے عوام نے بھی شمالی کوریا کے حملوں سے بچاﺅ کے لیے نصب کیے جانے والے امریکی تھاڈ میزائلوں کی تنصیب کے خلاف احتجا ج شروع کردیاہے ، خبروں کے مطابق جنوبی کوریا کے جنوبی علاقے میں سیکڑوں افراد نے اس نظام کی تنصیب کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور اس دوران ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔جنوبی کوریا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان جھڑپوں کے نتیجے میں دس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔یہ نظام 200 کلومیٹر تک کے فاصلے میں کام کرتا ہے اور 150 کلومیٹر بلندی تک اثر کرتا ہے۔ادھر چین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تھاڈ نظام کی تنصیب خطے میں سیکورٹی کو غیر مستحکم کرے گی۔خیال رہے کہ امریکا نے حالیہ دنوں میں شمالی کوریا کی جانب سے مزید میزائل یا جوہری تجربات کی منصوبہ بندی کرنے کے خدشات کے باعث جزیرہ نما کوریا میں جنگی جہاز اور آبدوز تعینات کی ہیں۔تھاڈ میزائل سسٹم کے نظام کے ذریعے درمیانے فاصلے تک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلیسٹک میزائل کو اس وقت مار گرایا جا سکتا ہے جب وہ اپنی پرواز کے آخری مرحلے میں ہو۔اس نظام میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ یہ کسی بھی ٹیکنالوجی مثلاً جنگی ہتھیاروں کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ نظام 200 کلومیٹر تک کے فاصلے میں کام کرتا ہے اور 150 کلومیٹر بلندی تک اثر کرتا ہے۔جنوبی کوریا کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا اور جنوبی کوریا تھاڈ سسٹم کی ابتدائی آپریشنل صلاحیت کو محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔