میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حقائق وزیرا عظم کے تمام دعووں کے برعکس ہیں!

حقائق وزیرا عظم کے تمام دعووں کے برعکس ہیں!

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۶ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

کاہنہ میں نامساعد حالات اور سخت شرائط کے باوجود انتہائی مختصر وقت میں کامیاب جلسے کے بعد اطلاعات کے مطابق مسلم لیگی حلقوں نے ویراعظم محمد شہباز شریف کو مشورہ دیاتھا کہ وہ اس جلسے کے جواب میں لاہور میں جہاں خود ان کی بھتیجی کی حکومت ہے اور پوری سرکاری مشینری ان کے ماتحت ہے ایک بھرپور جلسہ کرکے مسلم لیگ ن کی تنزلی سے متعلق تاثر دور کرنے کی کوشش کرے،لیکن شہباز شریف جانتے ہیں کہ تمام ترسرکاری وسائل کے استعمال کے باوجود اگر وہ بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے میں ناکام رہے تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل جائے گی اس لئے انھوں نے جلسے جلوسوں کی تجویز کو کلی طورپر رد کرتے ہوئے یہ بیان جاری کردیا کہ اس وقت جلسوں کے بجائے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے،انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ عوام نے معاشی پالیسیوں میں بہتری کو ترجیح دی ہے۔ گالی، گولی، انتشار اور فساد سے معیشت بہتر ہوگی نہ معاشرت۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جلسے 2028 میں کریں گے، ابھی عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کیلئے محنت کرنے کا وقت ہے۔
وزیراعظم کے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ حکومت کو اس وقت اپنی تمام تر توجہ معاشی بہتری پر مرکوز رکھنی چاہئے تاکہ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی راہ ہموار ہوسکے لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معاشی بحالی، سیاسی استحکام سے جڑی ہے، سیاسی انتشار عوام کو ریلیف دینے کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ اس ملک کے عوام بھی ملک میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں تاکہ ملک میں امن وامان رہے اور کاروبار اور صنعتوں کا پہیہ چلتا رہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کے عوام نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی سیاسی استحکام میں کردار ادا کر کے ہمیشہ معاشی ترقی کی حمایت کی ہے، تاہم ملک میں سیاسی استحکام کا انحصار حکومت کی پالیسیوں پر ہے اگر حکومت مکمل جمہوری انداز اختیار کرلے تو ملک میں سیاسی استحکام قائم ہوسکتاہے اور سیاسی استحکام کے لیے قوم کا اتحاد پاکستان کے روشن معاشی مستقبل اور مہنگائی سے نجات کی ضمانت ثابت ہو سکتاہے۔ تاہم معاشی چیلنجزاور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پوری قوم، سیاسی جماعتوں، اداروں اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس امر میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ سیاسی افراتفری میں قوم اور ملک کا بہت وقت ضائع ہو چکا ہے۔ مزید وقت ضائع کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔حکومت اگر ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کو دیوار سے لگائے رکھنے کا رویہ تبدیل کرلے اور ملک کے مقبول ترین رہنما کو پابند سلاسل رکھنے کے بجائے تمام من گھڑت مقدمات واپس لے کر تمام صوبوں کے ساتھ مل کر عوامی مسائل کے حل، مہنگائی میں کمی، مساوی ترقی کے لیے بھرپور ساتھ دینے کی پالیسی پر کاربند ہوجائے تو معاملات تیزی سے ٹھیک ہوسکتے ہیں،وزیر اعظم شہباز شریف کچھ عرصے سے مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں ملک کے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ، روپے کا مستحکم ہونا، ترسیلات زر میں اضافہ، شرح سود کا کم ہونا، یہ سب معاشی ترقی کے واضح ثبوت ہیں۔ ہم سب کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا آخری پروگرام ہو اور یہی اصل کامیابی ہو گی۔لیکن حقائق وزیراعظم کے ان دعووں کے برعکس ہیں،کیونکہ حکومت ابھی تک آئی پی پیز سے معاملات درست نہیں کرسکی ہے اور جب تک یہ معاملات درست نہیں ہوں اور بجلی سستی نہیں ہوگی،ملکی صنعتوں خاص طورپر برآمدی نوعیت کی اشیا تیار کرنے والی صنعتوں کا پہیہ پوری رفتار سے نہیں چل سکتا اور اگر صنعتیں نہیں چلیں گی تو ہم برآمدات میں اضافہ کیسے کریں گے،اور برآمدات میں اضافہ کئے بغیر آئی ایم ایف کا طوق گردن سے اتار پھینکنے کا خواب کیسے پوراہوگا؟وزیراعظم شہباز شریف کے قول وفعل میں تضاد کا اندزہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ ایک طرف تو وہ معیشت کے بہتر ہونے کے دعوے کرتے ہیں دوسری جانب عوام کو مزید ٹیکسوں تلے دبانے کیلئے منی بجٹ لانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے گزشتہ روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے ہیں اور اس کیلئے منی بجٹ لایا جا سکتا ہے۔ اہداف پورے نہ ہوئے تو منی بجٹ آ سکتا ہے۔ علی پرویز ملک نے کہا کہ آئی ایم ایف کا فریم ورک لے کر چلنا ہے۔ وزیر مملکت کے بیان کے علاوہ یہ خبر بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت کی جانب سے کچھ ادویات پر 18 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لگانے کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔جی ایس ٹی جلد اور طاقت کی ادویات، ملٹی وٹامنز، کیلشیم، ملک پاؤڈر، شوگر اسٹرپس اور ہربل ادویات پر لگایا گیا ہے۔ حکومتی اقدام کی وجہ سے شوگر جیسے امراض میں مبتلا، بوڑھے اور کمزور افراد اور بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر حکومت اعداد و شمار کی حد تک جس معاشی ترقی اور بہتری کے دعوے کررہی ہوتی ہے، عوامی حلقوں میں وہ ترقی اور بہتری کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس بار بھی یہی سب ہورہا ہے اور حکومت کے دعووں کے برعکس عام آدمی کے لیے یوٹیلیٹی بلز ادا کرنا اور دو وقت کی روٹی کھانا نہایت مشکل ہوچکا ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت کے سربراہ بھی شہباز شریف تھے اور اس وقت بھی وہی وزیراعظم ہیں لیکن صورتحال میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال تو حکومت کی جانب سے وعدے، دعوے اور عزم کا ہی اعادہ کیا جا رہا ہے، عملی طور پر اب تک کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہر کوئی اپنی من مانی کرتے ہوئے اشیاء کے نرخ بڑھا رہا ہے، کہیں چیک اینڈ بیلنس نظر نہیں آ رہا۔ بے روزگاری انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ روٹی روزگار اور غربت مہنگائی سے عاجز آئے راندہ درگاہ عوام ہیں‘ جنہیں حکمران اشرافیہ طبقات نے اپنے مفادات کے رگڑے لگاتے ہوئے زندہ رہنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ آج عوام اپنے مسائل کی جس نہج تک آپہنچے ہیں‘ اس سے آگے موت کے خونیں سفر کا ہی آغاز ہونا ہے۔ جب آئی ایم ایف کی ہر ناروا شرط کا سزاوار پہلے ہی بے سدھ ہوئے پڑے عوام کو ٹھہرایا جا رہا ہو‘ اللے تللوں میں ڈوبی نجی پاور کمپنیوں کو مسلسل نوازے رکھنے کے راستے بھی مجبور و مقہور عوام پر بجلی کے بھاری بلوں کے بوجھ ڈال کر نکالے جا رہے ہوں‘ یوٹیلٹی بلوں کو الابلاقسم کے ٹیکسوں سے لاد کر مزدور اور تنخواہ دار طبقے کا عملاً ناطقہ تنگ کیا جا رہا ہو‘ جان بچانے والی عام اور ضروری ادویات کے نرخ بھی بے وسیلہ عوام کی پہنچ سے دور کر دیئے گئے ہوں اور پھر اپوزیشن کوکچلنے کی سیاست سے تقویت حاصل کرکے عوام کو مزید دبانے کی منصوبہ بندی ضمنی میزانیئے لانے کی صورت میں کی جا رہی ہو جس سے عوام کو محض زندہ رہنے کی خاطر ریاست سے ٹکراؤ کے سوا کچھ اور سجھائی ہی نہ دے رہا ہو تو اس فضا میں تو شاید شہباز شریف کو 2028ء تک سکون سے بیٹھ کر اقتدار کی شیرینیاں آپس میں بانٹنے کی مہلت بھی مل نہ مل پائے۔ شہباز شریف کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اطمینان عوام کے اطمینان کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ آئی ایم ایف سے نیا قرض حاصل کرنے کیلئے ضمنی میزانیوں کا بوجھ بھی پوری سہولت کے ساتھ عوام کی جانب منتقل کرتے رہیں،اور اپنے اقتصادی مالی مسائل تلے دبے عوام جان کنی کی کیفیت میں بھی ضمنی میزانیہ والا نیا بوجھ بھی ”آمنا و صدقناً“ کہتے ہوئے قبول کرلیں۔ بجلی اورگیس کے بلوں نے عوام کو رگڑے دینے میں پہلے ہی کوئی کسر نہ چھوڑی ہو اور پھر اب حکومت ان پر ضمنی میزانیئے کے ذریعے ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے روزگار کے دروازے بھی مکمل بند کرنے کی عاجلانہ پالیسیوں کا سوچ رہے ہوں حکومت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ عوام بے سدھ پڑے بس ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کی تصویر ہی بنے رہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عوام نے تقسیم کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے اور معاشی پالیسیوں میں بہتری کوترجیح دی ہے عوام مہنگائی سے نجات، اپنے مسائل کاحل اور معاشی بحالی چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ خیال درست ے کہ عوام تقسیم کی سیاست نہیں چاہتے لیکن یہ تقسیم کی سیاست تو خود حکومت کررہی ہے،حکومت کو چاہئے کہ وہ فروعی باتیں کرنے اور سرکاری خرچ پر وزر کو سیر سپاٹے کرانے کے بجائے عوام کے معاشی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پوراکرنے کیلئے وزرا کو ٹاسک دئے جائیں اور ٹاسک پورا نہ کرنے والے وزرا کو فوری فارغ کرنے کے ساتھ ان کی دی جانے والی تمام مراعات واپس لی جائیں۔ محنت کی جائے وزیراعظم شہباز شریف کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ معاشی بحالی کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔سیاسی انتشار عوام کو ریلیف دینے کے عمل میں رکاوٹ بنے گا، سیاسی استحکام کیلئے قومی اتحاد ضروری ہے جو پاکستان کے روشن معاشی مستقبل اور مہنگائی سے نجات کی ضمانت دے گا۔معاشی چیلنجز اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قوم، سیاسی جماعتوں، اداروں اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہوگاسیاسی انتشار پر زیادہ وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ خوشحال مستقبل کیلئے قومی اتحاد ضروری ہے۔ سیاسی استحکام کیلئے قومی اتحاد ہی پاکستان کے روشن معاشی مستقبل اور مہنگائی سے نجات کاضامن ثابت ہوسکتا ہے معاشی چیلنجز اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قوم، سیاسی جماعتوں، اداروں اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔مطالعات اور تحقیق نے ہمیشہ یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ وہ دراصل ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔کوئی بھی ملک سیاسی استحکام کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا ریاستی اداروں کی ترقی کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے، جمہوریت کو مضبوط کرنے، صنعتی اور زرعی شعبوں میں ترقی کو فروغ دینے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، ملک میں مسابقتی اقتصادی ماحول کی تعمیر، فکری ترقی کوفروغ دینے،برآمدات پرمبنی صنعتی ماحول پیدا کرنے کیلئے گورننس کو بہتر بنانا ضروری ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کاتعلق ان ممالک کے گروپ میں ہے جہاں سیاسی استحکام اپنے قیام سے لے کراب تک ایک خواب ہی رہا۔ ہمارے ملک میں معاشی ترقی کی بڑی صلاحیت ہے اس میں ایک بہت مضبوط زرعی بنیاد ہے جو ملک کی صنعتی معیشت میں تبدیلی اور ہائیڈرو پاور کی صلاحیت کیلئے ضروری ہے۔سیاسی اختلافات جو کہ جمہوری نظام کی پہچان ہیں قبائلی دشمنی کی طرح سیاسی دشمنی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جھوٹی انا اور خود پسندی کی سیاست غیر مستحکم صورت حال کو کم کرنے اور معاشی تباہی سے بچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو ہمیں گھور رہی ہے۔یہ صورت حال تمام سیاسی قوتوں کے درمیان ناقابل تسخیر اتحاداور ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کیلئے اپنی اجتماعی حکمت کوبروئے کار لانے،حکمرانی اور اپنے نمائندوں کیانتخاب کے حوالے سے متنازعہ مسائل کوحل کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے اور معاشی ترقی کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کامعاشی بحران پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے یہ صورت حال حکومتوں کی نااہلی، ناقص پالیسیوں اور عوام کی معاشی بہتری کے بجائے اپنی قسمت بنانے پر ان کی توجہ کا مجموعی نتیجہ ہے۔ہمارے نظام حکمرانی، اقتصادی پالیسیوں اورانتخابات کے طریقہ کار کے کمزور عوامل کو دیکھنے کیلئے قومی مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی اصلاحات متعارف کرائی جا سکیں جو ملک کے معاشی پروفائل کو تبدیل کرنے کیلئے ضروری ہوں اور سیاسی استحکام کی ضمانت دیں۔ اس وقت اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کا بھرپور اختیار رکھتی ہیں۔ بہتر ہے ارادے اور عزم کے ساتھ عوامی مسائل عملی طور پر حل کیے جائیں۔ اگر حکومت واقعی عوامی حالت بہتر بنانا چاہتی ہے تو اپنے شاہی اخراجات میں کمی لا کر اور اشرافیہ کی مراعات ختم کر کے عوامی مشکلات میں کمی کر سکتی ہے۔ زبانی جمع خرچ سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔اس سلسلے میں کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے جو بے تحاشا مراعات و سہولیات دی جارہی ہیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جو بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا وہ واقعی ایسی مراعات و سہولتیں دے کر معاشی حوالے سے استحکام حاصل کرسکتا ہے؟ کوئی بھی حکومت اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے چنیدہ نمائندے ہی مل کر حکومت بناتے ہیں اور اسے چلانے کے لیے وہ بیوروکریسی کو نوازتے رہتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہم بیرونی امداد کے بغیر چلنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ حکومتی ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانات کے ذریعے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کی بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں