میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اقوام متحدہ کی تشکیل اور ہیئت میں بنیادی نقائص کو درست کیا جائے!

اقوام متحدہ کی تشکیل اور ہیئت میں بنیادی نقائص کو درست کیا جائے!

جرات ڈیسک
پیر, ۲۳ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

وزیر اعظم محمد شہباز شریف اقوام متحدہ کے رواں ماہ ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے براستہ لندن امریکہ روانہ ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل عالمی ورچوئل سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انھوں کہا ہے کہ نئے عالمی چیلنجز اور بڑھتی ہوئی کشیدگی سے دنیا تقسیم ہو رہی ہے دنیا کو متحد کرنے کیلئے مساوات اور انصاف کو عالمی سطح پر یقینی بنانا ضروری ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے مستقبل کے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے لیے اپنی توقعات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ترقی پزیر ممالک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ سمیت عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر بین الاقوامی تعاون پر زور دیا ہے، وزیر اعظم پاکستان گزشتہ روز 48عالمی رہنماؤں کے ساتھ  ورچوئل اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔اس اہم اجلاس میں رواں ماہ امریکہ کے شہر نیویارک میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کی گئی تھی، اجلاس میں مختلف ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹر ی جنرل انتونیو گوتریس نے بھی خطاب کیا۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ورچوئل اجلاس میں عالمی رہنماؤں کو معاشی طور پر کمزور ممالک کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول اور عالمی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے پلان پیش کیاتھا۔انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے عالمی چیلنجز اور بڑھتی ہوئی کشیدگیوں سے دنیا کے منقسم ہونے کا خطرہ ہے، دنیا کو متحد کرنے کے لیے مساوات اور انصاف ضروری ہے۔وزیراعظم نے دراصل ورچوئل اجلاس میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے کہ دنیا میں ممالک اور اقوام کے درمیان جاری مختلف قسم کی کشیدگی اور محاذ آرائی کی وجہ سے دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ اس لیے اقوام عالم کو متحد کرنے کے لیے مساوات اور انصاف کا نظام بہت ضروری ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی ورچوئل سربراہی اجلاس میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ جائز اس لیے ہیں کہ دنیا کی طاقتور اور ترقی یافتہ اقوام کی معاشی حکمت عملی کی وجہ سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک اور اقوام کے لیے معاشی ترقی کی منزل تک پہنچنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ ترقی یافتہ اور طاقتور اقوام اپنے جیو اکنامک اورجیو پولیٹیکل مفادات کے لیے کمزوراقوام پر جارحیت سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اس کے علاوہ غریب اور کمزور ملکوں میں محاذ آرائی کو فروغ دینے کے لیے مختلف گروہوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے اوران کی معاشی لائف لائن کو بھی ڈسٹرب نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے غریب ممالک میں خانہ جنگی‘سیاسی کشیدگی اور انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ براعظم افریقہ کے تقریباً تمام ممالک ان مسائل کا شکار ہیں۔اسی وجہ سے یہ براعظم دنیا کے تمام خطوں سے زیادہ پسماندہ اور غریب ہے۔پورے براعظم افریقہ کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو دنیا کے پہلے 10 ہائی انکم ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ سوائے جنوبی افریقہ کے کسی اور افریقی ملک کی فی کس آمدنی مڈل انکم ممالک سے زیادہ نہیں ہے۔ شمالی افریقہ میں مراکش اور الجزائر کے سوا دیگر ممالک مڈل انکم سے بھی نیچے ہیں۔ ماریطانیہ جیسا وسائل سے مالا مال ملک افریقہ کے پسماندہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ صومالیہ‘جنوبی سوڈان‘ سوڈان اور وسطی افریقہ کے کئی ممالک خانہ جنگی اور دہشت گردی کا شکار ہیں اور یہ غریب ترین ممالک میں شامل ہیں۔اگر ہم ایشیا کی بات کریں تو اس کی حالت بھی افریقہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ البتہ مشرقی ایشیا کے ممالک خاصے ترقی یافتہ ہیں۔ ان میں چین‘جاپان‘شمالی کوریا اور تائیوان جیسے ہائی انکم ممالک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات‘قطر‘ کویت اور مسقط و عمان بھی فی کس آمدنی کے اعتبار سے خوشحال ممالک میں شامل ہیں۔ البتہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ان ممالک کا شمار امریکہ مغربی یورپ‘جاپان‘چائنا اور ساؤتھ کوریا کے برابر نہیں ہے۔براعظم ایشیا سب سے بڑا براعظم ہے۔ اتنے بڑے براعظم میں گنتی کے چند ملکوں کی خوشحالی اور سائنسی ترقی یورپ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایشیا میں افغانستان جیسے تباہ حال ممالک بھی موجود ہیں جب کہ ایران‘پاکستان‘بنگلہ دیش‘سری لنکا‘برما‘ نیپال اور بھارت جیسے ممالک بھی شامل ہیں جن کی فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ پاکستان کا معاشی بحران کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔24اکتوبر 1945کو اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہی سے محفوظ رکھنا بتایا گیا تھا اس سے مفر نہیں کہ اقوام متحدہ بہت سے شعبوں میں متعدد مثبت کام کر رہا ہے مگر اقوام عالم میں امن کو یقینی بنانے میں مسلسل ناکام نظر آتا ہے۔ جس کا ثبوت اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا بھر میں 250سے زائد جنگیں ہونا ہے۔ سوئیڈن میں اپسالا کانفلیکٹ پروگرام کی تحقیق کے مطابق اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا بھر میں 300 سے زائد مسلح تصادم ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا دوسرا مقصد دنیا میں یکساں اقتصادی اور سماجی ترقی کا حصول طے پایا تھا۔ بدقسمتی سے یہ عالمی ادارہ اپنے اس بنیادی مقصد کے حصول میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پایا اور آج کمزور اقوام اور تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے عوام قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے بنیادی انسانی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے امور کے ماہرین عالمی ادارے کی ناکامیوں کی بڑی وجہ اس کی تشکیل اورہیئت میں بنیادی نقائص بتاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کے پاس عالمی امن کے قیام کیلئے ماہرین کی کمی نہیں مگر عالمی سلامتی کے فیصلے کرنے کا اختیار سلامتی کونسل کے پاس ہے جس میں 5مستقل ارکان کے پاس ویٹو کا اختیار ہے اور اکثر عالمی تنازعات میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے یہ طاقتور ممالک انصاف کے بجائے اپنے ریاستی مفادات کیلئے اقدامات کرتے ہیں اور سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی امن کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔اگر اعداد و شمار دیکھیں تو اب تک سب سے زیادہ تقریباً 153 بار، ویٹو کا استعمال روس نے کیا ہے، جب کہ امریکہ 88 مرتبہ اسے استعمال کر چْکا ہے۔ افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک فوجی تصادم ہوتے رہے ہیں تازہ مثال یوکرائن کی جنگ ہے، جس کی شروعات روس کے حملے سے ہوئی۔ہزاروں شہری ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ دنیامہنگائی میں جھونک دی گئی، لیکن ایک سال،8 ماہ گزرنے کے بعد بھی جنگ بندی کے آثار دِکھائی نہیں دیتے۔ سلامتی کونسل کی ناکامی یہ ہے کہ اس کے مستقل ارکان اپنے مفادات کو امن اور سیز فائر پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ویٹو کے اختیار کا انصاف کے بجائے ریاستی مفادات کیلئے استعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین 7 دھائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہونے کے باوجود حل نہ ہو سکے اس طرح اقوام متحدہ بوسنیا اور برما میں مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں بھی ناکام رہی۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی ایما پر مسلط کی گئی جنگ کے بعد اسلامی دنیا میں یہ رائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی کہ اقوام متحدہ امریکی مفادات کے تحفظ کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے۔ اس رائے کی ایک وجہ اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور برطانیہ کو چھوڑ کر پوری دنیا کا اسرائیل کی فلسطین میں حالیہ نسل کشی روکنے کیلئے سلامتی کونسل کے طاقت کے استعمال کے اختیار پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کی ناکامی اور بے بسی کی اس سے بڑھ کر دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسرائیل جس کا وجود ہی اقوام متحد کی نان بائڈنگ قرار داد کی وجہ سے آیا ہے آج وہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور اقوام متحدہ اور عالمی عدالت کا کردار محض جنگ بندی کی اپیلوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لئے کوئی اقدام کرتا بھی ہے تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کی تلوار سے عالمی ضمیر کی زبان کاٹ دیتا ہے۔ ویٹو کے غیر حقیقی اور غیر منصفانہ اختیار کا ہی نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ نہ صرف فلسطین بلکہ یوکرائن تنازع بھی حال کرنے میں ناکام ہے۔ امریکہ روس اور چین کی عالمی غلبہ کے لئے سرد جنگ دنیا کو تقسیم کر رہی ہے امریکہ اور اس کے اتحادی روس اور چین کے عالمی سطح پر بڑھتے اثرورسوخ کو روکنے کے لئے مختلف خطوں میں کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ جس کی دلیل امریکہ کا شام پر حملہ ہے جس کے بعد روس‘ایران‘ اور یمن کا شام کے دفاع میں کھڑے ہونے کے بعد یمن میں انسانی المیہ کا جنم لینا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی امن میں موثر کردار کو اسی صورت یقینی بنایا جا سکتا ہے اس ادارے کی تشکیل اور ہیت میں بنیادی نقائص کو درست کیا جائے عالمی امن کا حتمی فیصلہ اگر سلامتی کونسل کو ہی کرنا ہے تو اس کے ارکان کی تعداد میں تمام براعظموں کے ممالک کو آبادی کے لحاظ سے موثر نمائندگی دی جائے، ویٹو کا اختیار ختم کیا جائے، سلامتی کونسل کے ارکان کوکثرت رائے سے فیصلے کرنے اور ان پر عملدرآمدکیلئے اقوام متحدہ کی عالمی امن فوج کو وسیع اختیارات دیے جائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف 7 دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے بلکہ اقوام عالم میں کمزور کی آواز دبانے کی ناپسندیدہ اور غیر منصفانہ روایت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ بہتر ہو گا وزیر اعظم ترقی پذیر ممالک بالخصوص اسلامی ممالک کے سربراہون سے اقوام متحدہ کو موثر بنانے کے اقدامات پر بات کریں اور امت مسلمہ سمیت دنیا کے تمام کمزور ممالک اقوام متحدہ میں مشترکہ آواز بلند کریں تاکہ ویٹو کے ذریعے غیر منصفانہ فیصلوں کی روایت اور کمزور کو دبانے کا سلسلہ ختم ہو اور اقوام متحدہ نئی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانے اور یکساں معاشی اور سماجی ترقی کا مشترکہ ہدف حاصل کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں