میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوامی اسمبلی اور داخلہ بند

عوامی اسمبلی اور داخلہ بند

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۳ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
حکومت کسی کی بھی یا کوئی بھی حکومت میں ہو مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام کو مشکلات سے نکال کر ملک کو خوشحالی کی طرف لیکر جانا ہے اور اگرخوش قسمتی سے حکومت عوامی نمائندوں کی ہو تو پھرکیا ہی کہنے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات خود لوگوں کے پاس جاکر انکے مسائل معلوم کرتے ہیں بلکہ عوامی نمائندوں کو تو عوام کے مسائل عوام سے زیادہ معلوم ہوتے ہیں جن ممالک میں حقیقی جمہوریت یا عوام نمائندے اقتدار میں ہوں وہ ملک آج ترقی اور خوشحالی میں اتنے آگے ہیں کہ ہم جیسے ممالک کے لوگ اپنا سب کچھ بیچ کر وہاں جانے کو بے قرار ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہمارے عوامی نمائندے عوام سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے عوام سے دوری اختیار کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے جیتنے والے اپنے حلقوں میں نہیں جاتے اور لاہور میں آکر ان سے ملنا ناممکن ہے اور تو اور عوام کے ووٹوں سے آنے کے دعویدار جب پنجاب اسمبلی میں اجلاس پر آتے ہیں تو عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کردیتے ہیں ۔ایوان اقبال چوک سے لکشمی چوک کی طرف جانے والی سڑک جس جو عرصہ دراز سے کھڈوں سے بھر پور ہے جہاں سے ایم پی اے اور وزیروں سمیت تمام انتظامیہ گذرتی ہے اور کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے لیکن اجلاس شروع ہوتے ہی اسے عام عوام کے لیے بند کردیا جاتا ہے کہ وہاں سے عوامی نمائندوں نے گزرنا ہے اگر یہ سڑک کھلی بھی رہے تو کیا فرق پڑتا ہے اور اوپر سے اس حکومت نے ایک کام یہ بھی کیا ہوا ہے کہ عوام نمائندوں اخباری نمائندوں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے انکا اسمبلی کے اندر داخلہ بڑی سختی سے بند کررکھا ہے اور اسمبلی پریس گیلری کے عہدیداران کبھی کبھی ا سپیکر کے ساتھ بیٹھ کر تصویر بنوا کر خوش ہوجاتے ہیں اس نئی اسمبلی سے پہلے پرانی اسمبلی میں صحافی بلا روک ٹوک اپوزیشن لیڈر کے چیمبر سمیت ہر جگہ آجا سکتے تھے جہاں سے خبریں بھی ملتی رہتی تھی لیکن اب سوائے پریس گیلری کے اور کسی جگہ جانے پر پابندی ہے اسمبلی اجلاس کے دوران جو کچھ گیلری سے دیکھا بس وہی رپورٹ کردی اس کے بعد یا پہلے کیا ہوتا رہا کسی کو کچھ معلوم نہیں شائد یہی وجہ ہے کہ اس وقت کانٹے دار سیاست کا ماحول اپنے عروج پر ہے اسمبلیوں کے اندر تلخی بڑھتی جارہی ہے اور باہر عوام کا جینا مشکل ہو رہا ہے 1947سے چلنے والے لوگ ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے جبکہ فارم47والے اپنی اپنی منزلوں تک پہنچ چکے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کی راہوں میں پھول بچھانے کا جھانسہ دیکر کانٹے بچھا دیے مفت بجلی دینے کا لالی پاپ دیکر بجلی مزید مہنگی کردی خیر یہ تو اب پرانی باتیں ہیں اب اس عوامی حکومت کو چاہیے کہ عوام کی آسانی کے لیے کام کریں سڑک بند کرنے کے بجائے اسے کھلی رکھیں صحافیوں کا نئی اسمبلی کے اندر داخلہ کھولیں کیونکہ یہ عوامی ایوان نمائندگان ہے جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کیا گیا تھا جس میں کل 371 نشستیں ہیں جن میں 297 جنرل نشستیں 66 نشستیں خواتین کے لیے اور 8 غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہیں یہ اسمبلی 16 ایکڑ پر محیط ہیں جو 1935 میں مکمل ہوئی تھی پنجاب کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ عمارت پنجاب کا انتظامی مرکز بن گئی جبکہ نیا اسمبلی ہال پرانی اور نئی اسمبلی کی عمارتوں کے درمیان تعمیر کیا گیا ہے اس میں مرکزی ہال میں 500 نشستیں اور مہمانوں کے لیے گیلریوں میں 600 نشستیں اور ایوان کی
کارروائی کی کوریج کرنے والے میڈیا پرسنز کے لیے پریس گیلری میں 300 نشستیں ہیں نئے ہال سے متصل اسپیکر چیمبر، ریکارڈ روم، ریکارڈنگ روم، میڈیا روم، سیکیورٹی روم اور آئیز اور نوز کے لیے لابی ہے نئی عمارت میں تین کمیٹی روم، ایک کانفرنس روم، لائبریری، کیفے اور 400 کی گنجائش والی پارکنگ بھی شامل ہے اس کے علاوہ وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزراء اور اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے نئے دفاتر سیکرٹریٹ کی نئی عمارت میں قائم کئے گئے جس کا افتتاح 2 جنوری 2023 کو ہوا تھااگر ہم پرانی اسمبلی کی بات کریں اس کا اسمبلی کو آرکیٹیکچر سرکل کے چیف آرکیٹیکٹ بازل ایم سالون نے ڈیزائن کیا تھا اسمبلی چیمبر کا سنگ بنیاد 17 نومبر 1935 کو وزیر زراعت سر جوگندر سنگھ نے برطانوی راج کے دوران رکھا تھا اس کی تعمیر 1938 میں مکمل ہوئی۔پہلی منزل میں اسمبلی ہال ہے جو ہندوستانی اور رومن فن تعمیر کو یکجا کرتا ہے اس کاہال ایک پبلک ایڈریس سسٹم اور کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن سسٹم سے لیس ہے اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لیے گیلری میں 200 افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی بعد میں اس گیلری کو اراکین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ممبران کے لیے مختص کردیا گیا تھااسمبلی کا ممبر بننے کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 میں بیان کردہ قومی اسمبلی کی رکنیت کی اہلیت صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بھی لاگو ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک رکن صوبائی اسمبلی بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کا شہری ہو اس کی عمر کم از کم پچیس سال ہونی چاہیے اور کسی بھی انتخابی فہرست میں بطور ووٹر اندراج ہونا ضروری ہے اسکے ساتھ ساتھ ایک امیدوار کو اچھے کردار کا ہونا چاہیے اور عام طور پر اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر جانا نہیں جانا چاہیے اسلامی تعلیمات کا علم ہونا چاہیے اور اسلام کی طرف سے متعین فرض فرائض پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہونا چاہیے جبکہ سمجھدار، نیک، غیرت مند، اور ایماندار ہونا بھی ضروری ہے اورامیدوار کو اخلاقی پستی یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں کبھی بھی سزا نہ ہوئی ہو قیام پاکستان کے بعد کبھی بھی ملک کی سالمیت کے خلاف یا نظریہ پاکستان کی مخالفت بھی نہ کی ہویہ ہیں وہ سادہ سی شرائط جن پر کاربند رہتے ہوئے ایک عام انسان بھی ممبر اسمبلی بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں الیکن ایمانداری اور شفاف انداز میں ہو پیسے ،دھونس اور دھاندلی سے جیتنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ایسے امیدواروں کو منتخب کیا جائے جو عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے کام کریں نہ کہ وہ اسمبلی ممبر بننے کے بعد عام لوگوں کا جینا مشکل کردیں انتقام کی سیاست کرنے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقتی طور پر آپ پولیس کی زریعے کسی کی ماں بہن ،بیٹی اور بچوں کو رسوا کروگے تو کل کو آپ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے اس لیے کسی کو انتقام کا نشانہ بنانے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لیں کہ ملک میں بادشاہت ہے اور نہ ہی اقتدار سدا رہنے والا ہے رہی بات پولیس کی وہ تو کسی کام کی نہیں رہی سوائے حکمرانوں کے دروازے کھولنے اور بند کرنے کے یا پھر غریب لوگوں پر تشدد کرنے کے اور کوئی کام نہیں رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں