عالمی اقتصادی فورم میں شہباز شریف کے حسین وعدے
شیئر کریں
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی زیر سرپرستی عالمی اقتصادی فورم کا 2روزہ خصوصی اجلاس گزشتہ روز ریاض میں ختم ہوگیا ہے۔ اجلاس کے اختتام پر اپنی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی برادری کی توجہ موسمیاتی تبدیلی کی ہلاکت خیزی پر بطور خاص مبذول کرائی۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنج کا سامنا ہے،اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان شدید متاثر ہوا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2022 میں پاکستان میں سیلاب آیا اور پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، مشکلات ہیں لیکن ناممکن کچھ نہیں ہے، ہم بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کرانے کے خواہاں ہیں، ملک میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کر رہے ہیں، ہم نے اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کفایت شعاری کی راہ کا انتخاب کیا ہے اور سعودی عرب سمیت دوست ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس نوجوان آبادی کا ایک بڑا اثاثہ موجود ہے، کروڑوں کی تعداد میں یہ نوجوان ہمارے پاس ایک بڑا موقع ہیں جنہیں ہم جدید ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل ٹیکنالوجی اور فنی تربیت فراہم کرکے اپنا روزگار شروع کرنے کے قابل بنا ئیں گے تاکہ وہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دے سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم اپنی زراعت کو ترقی دے سکتے ہیں، کسانوں کو معیاری بیج اور کھاد کی فراہمی کے ذریعے پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں، ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے، اس کیلئے برآمد کنندگان کو سہولتیں اور مواقع فراہم کریں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے پاس گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن ان میں کمی آرہی ہے، قدرتی وسائل ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں، پاکستان کے پاس قیمتی معدنیات اور زرخیز زمین موجود ہے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی رہنماؤں پر یہ واضح کیا کہ فلسطین میں قیام امن بہت ضروری ہے، غزہ میں امن کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہوئے ہیں۔
ریاض میں منعقد ہونے والیورلڈ اکنامک فورم کے اس خصوصی اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف سمیت ایک ہزار سے زیادہ سربراہان مملکت اور پالیسی سازرہنماؤں نے شرکت کی۔جن میں امریکہ سمیت دیگر مغربی اورفلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور خطے کے عرب ممالک کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔ امیر کویت مشعل الاحمد الجابر الصباح، مصر کے وزیراعظم مصطفی کمال مدبولی، عراق کے وزیراعظم محمد سوڈانی، اردن کے وزیراعظم بشر الخصاونہ، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم، پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف، فلسطینی صدر محمود عباس، قطری وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، یورپی یونین کے اعلی نمائندے جوزف بوریل، فرانسیسی وزیر برائے یورپ اور خارجہ امور ا سٹیفن سیجورن، جرمنی کی وزیر خارجہ اینا لینا بیئربوک، برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون، آئی ایم یف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا، غزہ کے لیے اقوام متحدہ کے سینیئر کوآرڈینیٹر سگریڈ کاگ اور ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادہانوم گیبریئس اس اجلاس میں شریک رہنماؤں میں نمایاں تھے۔ غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی جیسے موضوعات اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ تھے۔ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورجے برینڈے کا کہنا تھا کہ سمٹ میں زیر بحث آنے والے موضوعات غزہ میں جاری انسانی صورتحال اور ایران سے متعلق علاقائی پہلوؤں پر بھی گفتگو کی گئی۔فورم کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر اقتصادیات و منصوبہ بندی فیصل بن فاضل الابراہیم کا کہنا تھا کہ ورلڈ اکنامک فورم کا خصوصی اجلاس مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ان کے مطابق فورم کے انعقاد سے عالمی سطح پر معاشی ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ عالمی اقتصادی فورم میں عالمی تعاون اور توانائی برائے ترقی پر توجہ بھی دی گئی۔ پاکستان کے مطابق اس پلیٹ فارم کا مقصد بین الاقوامی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون کو فروغ دینا اور اقتصادی بحالی کے لیے پائیدار حل تجویز کرنا تھا۔ وزیراعظم نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اجلاس میں عالمی تعاون، جامع ترقی اور توانائی جیسے اہم موضوعات پر گفتگو اور موجودہ حالات میں درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں شرکت سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے اقتصادی اور ترقیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کاموقع ملا تاہم یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہمارے ارباب اختیار اس سے کس حد تک فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے، اس اجلاس کا بنیادی مقصد دو طرفہ تعلقات کو اسٹرٹیجک اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کے لیے مملکت سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔اجلاس میں شرکت کے دوران وزیراعظم کو کویت کے امیر سے بھی ملاقات کا موقع ملا، اس کے علاوہ شہباز شریف کی سعودی وزرا برائے خزانہ، صنعت، سرمایہ کاری سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔وزیراعظم کی بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے کو چیرمین کے علاوہ عالمی مالیاتی فنڈ کی مینیجنگ ڈائریکٹراورصدراسلامی ترقیاتی بینک سے بھی ملاقات ہو ئی۔سعودی عرب پہنچنے کے بعد مشیر شاہی دربار اور جنرل سیکرٹری سعودی پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل محمد بن مزیاد آل تویجری کی سربراہی میں وفد نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔اس موقع پروزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، ہم پاکستان کی گورننس اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے سعودی حکومت کی کامیاب اصلاحاتی پالیسی کے تجربے سے مستفید ہونا چاہتے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ملاقات میں دونوں اطراف سے معاشی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے حوالے سے غیر معمولی گرمجوشی کا اظہار کیا گیا۔ آل تجویری اور ان کے وفد نے پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی حکومت اور کمپنیوں کی طرف سے گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کے بعد پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا ہے،جنگی بنیادوں پر پاکستان میں سرمایہ کاری پر کام شروع کر دیا ہے، جس میں سرکاری اور نجی سیکٹر دونوں کی سرمایہ کاری شامل ہے،سعودی کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں پر مشتمل اہم وفد انتہائی کم وقت میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ آل تجویری جو کہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کے انچارج بھی ہیں،نے وزیراعظم کوسعودی شاہ کے ویژن 2030 کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا۔انہوں نے وزیر اعظم کو یقین دلایا کہ سعودی ویژن 2030کے تحت سعودی عرب پاکستانی افرادی قوت و سرکاری افسران کو تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے ہر ممکن مدد کرے گا۔
اس اہم اجلاس میں شرکت وزیراعظم کیلئے پاکستان میں دستیاب سرمایہ کاری کے مواقع کوعالمی سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کرنے کا ایک اہم موقع تھا،یہ وہ موقع تھا جب وزیراعظم عالمی رہنماؤں اور خاص طور پر سرمایہ کاروں پر یہ واضح کرسکتے تھے کہ پاکستان کے پاس اپنی معاشی فالٹ لائنز کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کا بامعنی لائحہ عمل موجود ہے؟یہ بات وزیراعظم اور ان کے ساتھ جانے والے وفد کے ارکان کو اچھی طرح معلوم ہوگی کہ اب وقت کے موسم بدلے ہوئے ہیں۔ دوست ممالک نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ اب راہ خدا میں کچھ نہیں ملنے والا، ہاں ہم سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔غور طلب چیز یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں دوست ممالک کی سرمایہ کاری کے لیے کس حد تک تیار ہیں؟عالمی اقتصادی فورم میں امکانات کا جتنا بھی بڑا جہاں کیوں نہ آباد ہو، ہم اس سے صرف اس صورت میں ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب معاشی سمت درست ہو اور لائحہ عمل واضح ہو۔سوال یہ ہے کہ ہماری سمت کیا ہے اور لائحہ عمل کیا ہے؟ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ ہماری معاشی فالٹ لائنز کیا ہیں۔ انہیں جانے اور ان سے نبٹے بغیر معاشی مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔ہماری پہلی معاشی فالٹ لائن یہ ہے کہ ہم اپنے خطے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت نہیں بڑھا سکے۔اس کی وجوہات پر دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ معاشی فالٹ لائن بہت نمایاں ہے۔بھارت، ایران، افغانستان کسی سے بھی ہمارے مثالی معاشی تعلقات نہیں ہیں۔ایران ہمارا برادر ملک ہے جس نے ہر آڑے وقت پر پاکستان کی آواز پر لبیک کہاہے لیکن ایران کے ساتھ ہماری تجارت کا حجم پریشان کن حد تک کم ہے۔ گیس پائپ لائن کا مستقبل ابھی تک غیر واضح ہے۔ ہم توانائی کے سنگین بحرن کے باوجود امریکی دباؤ اور اپنے قومی مفاد کے بیچ توازن کی لکیر ابھی تک نہیں کھینچ سکے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاملات ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تجارت کی صورت حال بھی مثالی نہیں ہے۔ افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اسمگلنگ عروج پر ہے لیکن باقاعدہ تجارت کا حجم معمولی سا ہے اور اس میں بھی غیر یقینی کی کیفیت رہتی ہے۔ایک چین ہے جس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن اس کے ساتھ بھی تجارت کا حجم بتاتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ ہے اور ہم صرف کنزیومر مارکیٹ بن کر رہ گئے ہیں۔سی پیک گیم چینجر ہو سکتا تھا لیکن عشرہ ہونے کو آیا ہے اور ابھی تک بیشتر معاملات پر سوالیہ نشانات کے سائے ہیں۔یہ بات بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ جب تک کوئی ملک اپنے خطے میں پڑوسیوں کے ساتھ معاشی امکانات تلاش نہیں کرتا، اس کی معیشت کا سنبھل جانا اور پھلنا پھولنا ایک خواب ہی رہتا ہے۔
پڑوسیوں سے تجارت نہ ہونا ایک بہت بڑی فالٹ لائن ہے۔ یہ فالٹ لائن کیسے اور کیوں کر بھری جا سکتی ہے یہ سوچنا ان لوگوں کا کام ہے، جو ان امور کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔بھارت کے ساتھ فی الحال نہ سہی کم از کم دیگر پڑوسیوں کے ساتھ تو بامعنی تجارت ہونی چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر طرف معاملات دگر گوں ہیں؟دوسری فالٹ لائن ہمارا حکومتی ڈھانچہ ہے۔ اس بیوروکریسی اور اس حکومتی ڈھانچے کے ہوتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔ ضابطوں کی پیچیدگیاں سرمایہ کار کو نچوڑ دیتی ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ مسئلے کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کی بجائے ایڈہاک متبادل تلاش کرنے کی روایت عام ہے اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کونسل بنائی گئی ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اگر نظام یہی ہے، بیورو کریسی کا رویہ یہی ہے، ضابطوں کی پیچیدگیاں یہی ہیں تو یہ کونسل کیا کر لے گی؟
کونسل اعلی سطح پر تو معاملات نبٹا دے گی لیکن نچلی سطح پر کیا ہو گا؟ زمینی حقیقتوں سے کون نبٹے گا؟یہ تصور بھی درست نہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل مسائل حل کر دینا کافی ہو گا۔غیر ملکی سرمایہ کاری کوئی ایسی چیز نہیں جو الگ سے ایک جزیرے کی صورت آباد ہو۔ یہ مقامی سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی چیز ہے اور یہ ایک مربوط عمل ہے۔مقامی سرمایہ کار اگر بیوروکریسی کے خود ساختہ پیچیدہ بندوبست میں الجھے رہیں گے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی گہن لگے گا۔جب تک بیوروکریسی سرمایہ کار کو ذمہ داری کی بجائے موقع اور امکان سمجھتی رہے گی معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن کسان کا حشر نشر کر دیا گیا ہے۔وجہ؟ سب کو معلوم ہے۔تیسری فالٹ لائن ہماری سماجی نفسیاتی گرہ ہے۔ ہم سرمایہ کار سے نفرت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے۔یعنی کوئی کاروباری گھرانہ اگر برلا اور ٹاٹا بن جائے تو یہ ایک قابل تعزیر حرکت ہے۔فالٹ لائنز کی یہ فہرست طویل ہے۔ معاشی اصلاح حوال کا عمل داخل سے شروع ہو گا تو کہیں جا کر خارج کی شراکت بھی مفید ہو سکے گی.اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ و وزیر تجارت بیوروکریسی کی جانب سے رشوت کی خاطر پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کھڑی کی جانے والی فصیلیں گرانے اور سرمایہ کاروں کو سہولتیں دینے کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں اور حکومت کی ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں بیوروکریسی ان کا کس حد تک ساتھ دیتی ہے اور ساتھ نہ دینے والے دودھ پینے والے سانپوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاتاہے۔