بھارتی جاسوس کلبھوشن کو سزا پر بھارت کی بوکھلاہٹ
شیئر کریں
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بے قصور پاکستانی شہریوں کا قتل عام کرانے اور ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے نے بھارتی حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے ،اور کل تک جو بھارتی رہنما کلبھوشن یادیو کو اپنا شہری ہی تسلیم کرنے سے انکاری تھا آج ان کی آنکھ کا تارا بن چکاہے اور بھارتی رہنما اس کو بچانے اور اسے بحفاظت بھارت واپس لانے کے لئے نہ صرف کھل کر سامنے آگئے ہیں بلکہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے تمام بین الاقوامی اور اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر دھمکیاں دینے پر اتر آئے ہیں جس کا اندازہ بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کے اس بیان سے لگایاجاسکتاہے جو انھوں نے بھارت کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں دیاتھا جس میں انھوںنے کہا تھا کہ ان کا ملک پاکستان میں قید اپنے شہری کلبھوشن یادو کو سزائے موت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا اورآخری حد تک جائے گا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ گذشتہ سال مارچ میں بلوچستان سے حراست میں لیے جانے والے بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادو کو پاکستان کے خلاف جاسوسی اور دیگر الزامات کے تحت فوجی عدالت میں کورٹ مارشل کے بعد سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے حکومت کے اعلان کے مطابق ،کلبھوشن یادیو کومقدمے کی سماعت کے دوران وکلا کی خدمات فراہم کی گئی تھیں اور اس کو دی جانے والی سزا ایک مجسٹریٹ کے سامنے اس کے اعترافی بیان اوردستیاب شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں دیاگیا ہے۔
کلبھوشن یادیو کو دی جانے والی سزا پر بھارت کی بوکھلاہٹ ابھی اس بات کاثبوت ہے کہ کلبھوشن کو پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے اور لوگوں کوخون میں نہلانے کے لیے پاکستان بھیجا گیا تھا ۔منگل کو بھارتی ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ کلبھوشن کی سزا پر عمل کیا گیا تو یہ اقدام دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔یہی نہیں بلکہ انھوں نے جوش خطابت میں تمام سفارتی اخلاقی حدود پارکرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ‘میں پاکستانی حکومت کو خبردار کرتی ہوں کہ وہ اس معاملے پر آگے بڑھنے سے قبل اس فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میںدونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر غور کر لے۔سشما سوراج نے ،جو کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد بھارت کاشہری ہی تسلیم کرنے سے انکاری تھیں اپنے خطاب میں کلبھوشن کو ‘ملک کا بیٹا’ قرار دیا اور کہا کہ ان پر عائد کیے گئے الزامات من گھڑت ہیں۔یہی نہیں بلکہ انھوں نے یہ الزام بھی عاید کردیاکہ کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا گیا تھا، وہ بے قصور ہے اور یہ سارا ڈرامہ بھارت کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے اراکینِ پارلیمان کو یقین دلایا کہ بھارتی حکومت نہ صرف سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنے کے لیے کلبھوشن کو بہترین وکلا مہیا کرے گی بلکہ انھیں بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی ،انھوں نے اس کسی حد کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ سشما سوراج نے دعویٰ کیا کہ ہم اس معاملے کو پاکستانی صدر تک بھی لے جائیں گے۔اس سے قبل پیر کو سزا کی خبر سامنے آنے کے بعدبھارت کی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ اگر کلبھوشن یادو کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا تو اسے سوچے سمجھے طریقے سے کیا گیا قتل تصور کیا جائے گا۔ دوسری جانب حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کلبھوشن کو سزائے موت سنائے جانے پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور معاملات کی اہمیت اور کلبھوشن کے جرم کی سنگین نوعیت سے چشم پوشی کرتے ہوئے پاکستان کی فوجی عدالتوں کے نظام کو ہدف تنقید بنانے کی کوشش کرتے ہوئے فوجی عدالتوں پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزیاں کر نے کاالزام بھی عاید کردیا۔تنظیم نے الزام عاید کیاہے کہ فوجی عدالتیں جس طرح انتہائی خفیہ طریقے سے کام کرتی ہیں اور جس طرح ملزموں کو ان کے دفاع کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اس میں صرف ناانصافی ہی ہو سکتی ہے۔
حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس طرح کا بیان جاری کرتے اور پاکستان کی فوجی عدالتوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ حقیقت بالکل نظر انداز کردیا کہ بھارت کے خفیہ ادارے ‘را’ کے ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کے افسر کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادو کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے پاکستان کے خلاف جاسوسی اور سبوتاژ کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پرگرفتار کیا گیا تھا۔گرفتاری کے بعد کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں تسلیم کیا تھاکہ انھیں ‘را’ نے پاکستان میں جاسوسی اور سبوتاژ کی کارروائیاں کرنے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی، رابطہ کاری اور انتظام کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔اس کے علاوہ شورش سے متاثرہ بلوچستان اور کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کی کوششوں کو متاثر کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔کلبھوشن کی گرفتاری کے بعدبھارت کی وزراتِ خارجہ نے ایک بیان میں کلبھوشن یادو کے اعترافی بیان کی ویڈیو کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں گرفتار کیے گئے شخص کا بھارت کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ویڈیو جھوٹ پر مبنی ہے تاہم بعد میں بھارتی حکام نے تسلیم کیا تھا کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا سابق افسر ہے۔حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والے ارباب اختیار اگر اس طرح کاتنقیدی بیان جاری کرنے سے قبل کلبھوشن یادو کے اعترافی بیان اور پاکستان میں اس کی سنگین سرگرمیوں سے پاکستان کے بے قصور افراد کی جانوں کے زیاں سے پیداہونے والی صورتحال پر بھی ذرا غور کرلیتے تو شاید وہ انسانیت کے ایک ایسے مجرم کو جو پورے پاکستان کے بے قصور عوام کو تباہی کے غار میں دھکیلنا چاہتاتھا، معصوم اور قابل معافی قرار دینے کا جرم نہ کرتے۔
وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت دیئے جانے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے الزامات کو بجا طورپر مسترد کرتے ہوئے پوری دنیا پریہ بات واضح کی ہے کہ کلبھوشن نے پاکستان میں تخریب کاری کرنے اور بھارتی حکومت کی ایما پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا اعتراف کیاتمام قانونی تقاضے پورے کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، کلبھوشن یادیو کا مقدمہ 3 مہینے تک جاری رہا اور ان 3مہینوں کے دوران نہ تو بھارتی حکومت نے اس کے خلاف چلائے جانے والے مقدمے کے طریقہ کار پرکوئی اعتراض کیا اورنہ ہی فوجی عدالتوں پر، کیونکہ اس ہپر اعتراض کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی،جہاں تک مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے کاتعلق ہے تو کیونکہ کلبھوشن یادو کا تعلق بھارتی بحریہ سے تھا اس لئے مسلمہ اصولوں کے تحت فوجی عدالت میں ہی اس کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہئے تھا ۔ یہاں حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ارباب اختیار کو یہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ کلبھوشن یادیو کو جو سزائے موت سنائے جانے کے بعد اس کے جرم کی سنگینی کے باوجود اسے اس سزا کے خلاف 60 روز کے اندر اندر اپیل کرنے کاحق دیاگیا ہے اوراپیل میں ناکامی کے بعد بھی وہ چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پاکستان سے رحم کی اپیل بھی کرسکتا ہے۔بھارت کو یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے چاہے سرحد پار سے آئیں یا پاکستان میں ہی موجود ہوں، ان کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ بھارتی وزیر خارجہ کو یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان کی حکومت ایسے لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور قانون اپنی پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا۔ کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر بھارت کے رد عمل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بجا طورپر یہ واضح کیا ہے کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سول ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ ہم ہر قیمت پر اپنی سرزمین کا دفاع کریں گے۔جہاں تک بھارت کے اس موقف کاتعلق ہے کہ اگر کلبھوشن کو پھانسی دی گئی تو یہ ’سوچا سمجھا قتل‘ ہو گا، تو اس حوالے سے پاکستان کے وزیر دفاع نے بجاطورپر بھارت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے ان کا یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ پاکستان نے کوئی ایسی چیز نہیں کی جو قانون اور قواعد کے خلاف ہو۔ ’ وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سوچا سمجھا قتل تو درحقیقت وہ مقبوضہ کشمیر میںکئے جارہے ہیں، جہاں دو دن میں 12 بچوں کو شہید کیا جاچکاہے، سوچا سمجھا قتل عام تو گجرات میں کیا گیا تھا، سوچا سمجھا قتل توسمجھوتاایکسپریس کے مسافروں کا کیا گیا تھا، پاکستان کسی سوچے سمجھے قتل میں ملوث نہیں ہے‘۔ بھارتی وزیر خارجہ کی اس طرح کی دھمکیوں سے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوگیاہے کہ بھارت آج بھی پاکستان کی سالمیت کے خلاف برسر پیکار ہے اور مشرقی سرحد پر براہ راست اور مغربی سرحد پر پراکسی کے ذریعے پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہے لیکن بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ آج کا پاکستان 1971کا پاکستان نہیں ہے،اب پاکستان اپنی جانب ٹیڑھی نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں نکال لینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتاہے ،اگر بھارت کو واقعی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی فکر ہے تو انھیں ہوس ملک گیری اور جاہ پرستی کو خیرباد کہہ کر باہمی دھونس اوردھمکیوں کے بجائے افہام وتفہیم کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
امید کی جاتی ہے کہ بھارتی رہنما حقیقت سے آنکھیں چرانے کے بجائے حقیقت کاادراک کرنے اور اس کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی استوار کرنے پر توجہ دیں گے۔ اور ہر طرح کے خطرات سے بے فکر ہوکر اپنے عوام کی خوشحالی اور بہتری کے لیے کام کرنے اور اپنے محدود وسائل کوجنگ کے ایندھن میں جھونکنے کے بجائے عوام کی بہبود پر خرچ کرنے کی راہ اختیار کریں گے۔