کمشنر راولپنڈی کے بیان سے دھماکے، انتخابی عمل کی انکوائری ضروری ہوگئی
شیئر کریں
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت میں بیٹھنے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان کے بعد اب تحریکِ انصاف نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھے گی۔پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔رؤف حسن کا کہنا ہے کہ دھاندلی ہمیشہ ہوتی ہے لیکن اس وقت دھاندلہ ہوا ہے، ہم سے 85 سیٹیں چھینی گئیں، دھاندلی پر PTI کا وائٹ پیپر بھی آ گیا ہے،مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ اب چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش دل میں لندن سے پاکستان تک کا سفر کرنے والے نواز شریف کی پارٹی کے بھی بیشتر سینئر رہنماؤں نے وفاق میں حکومت بنانے کے بجائے پنجاب پر توجہ مرکوز کرنے اور وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھنے کی سفارش کی ہے،اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی زیرِ صدارت جاتی امرامیں ہوئے پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں وفاق میں حکومت بنانے کے حوالے سے ن لیگ میں 2 آرا سامنے آئیں۔کچھ ن لیگی رہنماؤں نے وفاق میں حکومت لینے کی مخالفت کرتے ہوئے صرف پنجاب میں حکومت بنانے کی تجویز دی، جبکہ بعض رہنماؤں نے وفاق میں حکومت لینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو بچانے کی ضرورت ہے۔شرکائے اجلاس نے نواز شریف کو تجویز دی کہ ہمیں وفاق نہیں پنجاب پر فوکس کرنا چاہیے۔نواز شریف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وفاقی حکومت بنانے کے لیے کسی اتحادی جماعت کی غیر اصولی بات کو نہیں ماننا چاہیے۔احسن اقبال نے کہا کہ مرکز میں حکومت بنا کر ملک کو مستحکم بنائیں گے۔سعد رفیق نے کہا کہ وفاق میں حکومت کی تشکیل پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے، یہ کانٹوں کا تاج اپنے سر سجانے کا شوق نہیں۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف بھی 8 فروری کے انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر چکی ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ بنے، انتخابی عمل یرغمال بنا رہا، الیکشن کو شفاف قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے بیان کو مسترد کرتے ہیں، اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی مجلسِ عاملہ نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے، انتخابی دھاندلی نے 2018ء کی انتخابی دھاندلی کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھو دی ہے، پارلیمنٹ میں شرکت احتجاج کے ساتھ ہوگی، جے یو آئی پارلیمانی کردار ادا کرے گی لیکن اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہو گی۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ جے یو آئی کے خلاف سازش عالمی اسلام دشمن قوتوں نے کی، اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں۔ اس طرح غیر سرکاری طورپر تمام قابل ذکربڑی سیاسی جماعتوں نے وفاق میں حکومت بنانے سے انکار کر دیا ہے،اور ان کی جانب سے اپوزیشن میں بیٹھنے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگی رہنماؤں کی طرف سے اس بات پر زور دیاجارہاہے کہ ہمیں وفاق نہیں پنجاب پر فوکس کرنا چاہئے۔سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہاہے کہ پنجاب میں باآسانی حکومت بنا سکتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ہم ن لیگ کو وزیرِ اعظم کا ووٹ دے کر بھی اپوزیشن میں بیٹھ سکتے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ملاقات میں اس حوالے سے بات چیت ہوئی ہے، عددی برتری تو آزاد امیدواروں کو بھی حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں، سی ای سی کے سامنے تجاویز رکھی جائیں گی، فیصلہ سی ای سی میں ہو گا۔فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری وزیرِ اعظم نہیں بنتے تو پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے، پی ڈی ایم پارٹ ٹو آتی ہے تو میرے خیال میں اچھے طریقے سے نہیں چل سکتے۔دوسری جانب انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے اب خود بیوروکریسی کی جانب سے آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں،جس کا اندازہ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کی جانب سے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران انتخابات میں منظم طریقے سے دھاندلی کرانے کے اعتراف کے ساتھ اپے عہدے سے مستعفی ہونے کے اعلان سے ہوتا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت نے مُجھے الیکشن کرانے کے لیے لگایا تھا، الیکشن ٹھیک نہیں کروا سکا، استعفیٰ دیتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ میں ڈیوٹی ٹھیک سے نہیں کر سکا، قومی اسمبلی کے 13 کے حلقوں کے نتائج تبدیل کیے گئے، ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا گیا۔ راولپنڈی سے 13 لوگوں کا جتوایا گیا، 70، 70 ہزار لیڈ والوں کو ہروایا گیا، میرے ماتحت یہ کام نہیں کرنا چاہ رہے تھے، میرے سامنے پریزائیڈنگ افسران رو رہے تھے۔لیاقت علی چٹھہ کا کہنا تھا کہ مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے، میرے ساتھ الیکشن کمشنر اور دیگر کو بھی سزائیں دی جائیں۔ میں نہیں چاہتا کہ 1971کا واقعہ دوبارہ ہو، فجر کی نماز کے بعد میں نے خودکشی کی کوشش کی۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے انتخابی نتائج پر ردعمل دیتے ہوئیبرملا یہ کہاتھا کہ فارم 47 فارم 45 سے جیت گیا ہے۔کراچی کی احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گوگل بھی پریشان ہے کہ انتخابی نتائج کیا ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پتا کیا جانا چاہیے، ووٹ کس کو ملا ہے، میں نے الیکشن نہ کرانے کا کبھی نہیں کہا تھا، انوکھی بات ہے کوئی بھی اقتدار میں خود کو لانے کے لائق نہیں سمجھتا، جو کمپرومائز کرے گا وہ اقتدار میں آئے گا۔رہنما مسلم لیگ (ن) میاں جاوید لطیف نے بھی اپنی پارٹی پر زور دیا ہے کہ جس سیاسی جماعت کو مرکز میں اکثریت ملی ہے اسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔جاوید لطیف نے ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ خدا کرے مسلم لیگ (ن) یہ فیصلہ کرلے کہ جس کو مرکز میں اکثریت دلائی گئی اسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے، اِس سے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ناکام ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جس دن (مسلم لیگ ن کی جانب سے) یہ فیصلہ کرلیا گیا، اُس کے اگلے دن بتاؤں گا کہ دھاندلی کس کے لیے کی گئی اور 8 فروری کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ سربراہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پیر پگارا نے کہا ہے کہ میری نظر میں عمران خان چور نہیں ہے، توشہ خانہ سے نوازشریف اور زرداری نے بھی گاڑیاں لیں تو توشہ خانہ میں سزا صرف عمران خان کو کیوں ہوئی؟ انٹرا پارٹی انتخابات تمام پارٹیوں نے ایک جیسے کروائے لیکن بلے کا نشان صرف پی ٹی آئی سے کیوں لیا گیا؟اگرچہ چیف الیکشن کمشنر نے کمشنر راولپنڈی کے بیان کو جھوٹ قرار دیاہے اور کہاہے کہ الیکشن سے ان کا براہ راست کوئی تعلق ہی نہیں تھا لیکن وہ اس بات کی وضاحت نہیں کرسکے کہ اگر ان کا الیکشن میں کوئی عمل دخل نہیں تھا تو پھر انھیں اپنے اس پر کشش عہدے سے استعفیٰ دے کر خود کو ایک طویل آزمائش میں ڈالنے کی وجہ کیاتھی؟۔ وہ اس بات کی بھی وضاحت نہیں کرسکے کہ اگر انتخابات اتنے ہی شفاف ہوئے ہیں تو وہ خود مستعفی ہوکر پورے انتخابی عمل کی تحقیقات کرانے کی پیشکش کیوں نہیں کرتے اور ملک کو ایک بڑی ہنگامہ آرائی اور خون خرابے کی جانب کیوں دھکیلنا چاہتے ہیں؟
ہم سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات کے نتائج پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے شکوک وشہبات کے اظہار کے بعد اب نگراں حکومت کا فرض ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو فوری طور پر روک دے اور سپریم کورٹ کی جج حضرات سے پورے انتخابی عمل کی شفاف انکوائری کرانے کا اعلان کرے اور اس تحقیقاتی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو شریک کیاجائے تاکہ وہ دھاندلی کے ثبوت تحقیقاتی ٹیم یا کمیٹی کے سامنے پیش کرکے اپنے نقطہ نظر کے وضاحت کرسکیں۔