آصف زرداری کے تین ساتھی اغوائ‘ ماضی اور حال کی کہانی
شیئر کریں
آصف زرداری اپنے دوستوں کو دل کھول کر نوازتے ہیں ،جب اپنی مرضی اور ضد پر آتے ہیں تو انہیں دل کھول کر برباد کرتے ہیں
حضور بخش کلوڑ، آفتاب پٹھان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، اب نواب لغاری‘ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کو پراسرار طور پر اٹھالیاگیا ہے
الیاس احمد
یہ بات تو پاکستانی سیاست میں عام کہی اور سنی جاتی ہے کہ آصف زرداری دوستوں کے دوست ہیں لیکن اس کا دوسرا حصہ یہ بھی ہے کہ وہ دشمنوں کے دشمن بھی ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اس کی واضح مثال ہیں۔ آصف زرداری اپنے دوستوں کو دل کھول کر نوازتے ہیں اور جب اپنی مرضی اور ضد پر آتے ہیں تو انہیں دل کھول کر برباد کرتے ہیں۔ اس کی مثال انجم شاہ کی ہے جس نے طالب علمی کے زمانے سے لے کر93ءتک آصف زرداری کے ناز نخرے اٹھائے اور جب ان سے دشمنی کی تو پھر انجم شاہ کو برباد کرکے رکھ دیا۔ اویس مظفر ٹپی پر رحم کیا کہ ان سے کچھ چھین کر ان کو دبئی میں ایک فلیٹ اور ایک جنرل اسٹور دے دیا جہاں وہ اللہ اللہ کرے زندگی کی گاڑی کودھکا دے رہے ہیں۔ آصف زرداری نے دوستی‘ دشمنی کا آغاز‘ انجم شاہ سے کیا جس نے آصف زرداری کو چھوٹے بھائیوں کی طرح پالا پوسا اور جب ناراض ہوئے تو انجم شاہ پر اتنے مقدمات بنائے کہ ان کو کنگال کردیا۔88ءمیں ستارکیریو کی شکل میں آصف زرداری کے نئے فرنٹ مین سامنے آئے اور ا ن کے نام اربوں روپے کی ملکیت خریدی۔2008ءمیں جب آصف زرداری ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے تو سب سے پہلے ستار کیریو کو محفوظ مقام پر منتقل کیا، ان سے سب کچھ چھین کر انہیں آزاد کردیا۔ پھر ریاض لال جی کو بڑی کمال مہارت سے دبئی سے کراچی لائے اور ان کے بھی اغواءکا ڈرامہ رچایا اور دوسری شام ریاض لال جی کو مواج گوٹھ سے بازیاب کرانے کا ڈرامہ کرکے قصہ ہی ختم کردیا۔ ریاض لال جی سے اگلے پچھلے حساب لے کر واپس دبئی بھیج دیاگیا اور پھر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے شوگر ملز چھین لیں۔ خالد شہنشاہ نے آصف زرداری کے کہنے پر بہت بڑے کام کیے پھر ایک دن رحمان ڈکیت نے خالد شہنشاہ کو مار ڈالا۔ آگے چل کر رحمان ڈکیت کو چوہدری اسلم نے ”مقابلہ“ میں مار دیا اور چوہدری اسلم بھی پراسرار دھماکہ میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اویس مظفرٹپی نے 2013ءکے عام الیکشن میں و زیراعلیٰ بننے کے لیے ٹھٹھہ سے الیکشن جیتا اس کو 20گاڑیوں کا پروٹوکول ملتا تھا اس نے کھربوں روپے کی جائیداد بناڈالی، ایک دن ان کو حفاظتی تحویل میں لے کر ان سے سب کچھ چھین لیاگیا۔بس یہ احسان کیاگیاکہ دبئی میں ان کو ایک فلیٹ اور ایک جنرل اسٹور دے دیاگیا۔ بلال شیخ چیف سیکورٹی گارڈ تھے وہ ایک دن پراسرار حملہ میں مارے گئے لیکن آج تک ان کا کیس آگے نہیں بڑھ سکا۔ محمد علی شیخ بھی اچانک اٹھالیے گئے، چار ماہ تک وہ بھی حفاظتی تحویل میں رہے سب کچھ چھین کر اس کو امریکا کا راستہ دکھادیاگیا۔ حضور بخش کلوڑ، آفتاب پٹھان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، سب کچھ لے کرانہیں چھوڑدیاگیا اب نواب لغاری‘ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کو چار روز میں پراسرار طور پر اٹھالیاگیا ہے۔ نواب لغاری کون ہے؟ اس بارے میں حقائق کی چھان بین کی گئی تو حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔30دسمبر1988ءمیں حیدر چوک حیدرآباد میں ایک درجن مسلح افراد نے شام کے وقت فائرنگ کی جس کے نتیجے میں200سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ نواب لغاری اس کیس کے ملزم تھے ،آگے چل کر نواب لغاری سے آصف زرداری کیمپ میں چلے گئے۔ اسٹیل ملز کے چیئرمین سیدسجاد حسین کے قتل کیس، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس راشد عزیز کے بیٹے عمران عزیز پر قاتلانہ حملے‘ عالم بلوچ کے قتل کیس سمیت ہائی پروفائل مقدمات میں نواب لغاری کا نام بطور ملزم سامنے آیا۔ پچھلے سال جب ڈاکٹرنثار مورائی کوگرفتار کیاگیا تو اس نے جے آئی ٹی کے سامنے ہائی پروفائل مقدمات کا ذکر کیاتو پھرکیس میں نواب لغاری کا نام سامنے آیا۔ اب ان کو اسلام آباد سے اٹھالیاگیا ہے ، عین اسی رو ز کراچی اور حیدرآباد کے درمیان اور منی گروپ میں مالی معاملات کے انچارج اتفاق لغاری کو اٹھالیاگیا۔ یہ اتفاق نہیں، طے شدہ منصوبہ بندی تھی ابھی یہ معاملہ ایک طرف ہوا ہی نہیں تھا کہ ٹنڈوالہیار کے زمیندار غلام قادر مری کو بھی حیدرآباد سے اٹھالیاگیا۔ اسی طرح آصف زرداری کے تین ساتھی چار رو ز میں اٹھالیے گئے ۔ تعجب کی بات ہے کہ بلاول ہاﺅس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اس کا مطلب ہے کہ ان تینوں کے اٹھائے جانے سے آصف زرداری خاموش ہیں اور پانچ رو ز بعد خورشید شاہ اور مراد علی شاہ بول پڑے ہیں کہ تتینوں افراد کو رہا کیاجائے۔ حکومت سندھ ان افراد کی بازیابی کے لیے کوشش کررہی ہے لیکن ہماری اطلاع ہے کہ جس طرح اوپر سے پولیس پر کوئی دباﺅ نہیں ہے اس لیے پولیس بھی اشفاق لغاری اور غلام قادرمری کی بازیابی کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہی ہے تاہم نواب لغاری کی اسلام آباد سے گمشدگی پر ان کی اہلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کررکھی ہے۔