سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
شیئر کریں
آئین کے آرٹیکل 62-1(ایف)کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالہ سے کیس میں تمام وکلاء اورعدالتی معاونین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے آج مختصر حکم جاری نہیں کریں گے تاہم جلد ازجلد مختصر حکم جاری کردیں گے۔ دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین پیش ہو گئے اور پارلیمنٹ کی جانب سے نااہلی کی مدت پانچ سال کرنے کے حوالہ سے قانون سازی کو نامناسب قراردے دیا۔ چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی کوئی درخواست ہمارے سامنے نہیں اس لئے ہوسکتا ہے کل کوپی ٹی آئی آکر کہہ دے کہ یہ ہماری نمائندگی نہیں کررہے تھے، پی ٹی آئی نے اس قانون کو چیلنج کیوں نہیں کیا، ہمارے لئے مسئلہ یہ ہو رہا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کے خلاف آپ کی پارٹی کے رکن فیصل واوڈا کو ریلیف ملا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے آرٹیکل 62-1(f)کے تحت ناہلی کی مدت پانچ سال کرنے کے حوالہ سے قانون سازی سے سارا پاکستان خوش ہے کیونکہ کوئی شخص ہمارے سامنے نہیں آیا۔ پارلیمنٹ نے قانون بنادیا ہے اگر یہ چیلنج ہو گا توہم دیکھ لیں گے۔ پارلیمان نے کام کر لیا ہے اور پانچ سال مدت کردی ہے کیوں اسے چھوڑنہیں دیتے، پارلیمان کو اپنا کام کرنے دیں، جمہوریت کا مطب عوام کی رائے کی عکاسی ہوتاہے۔ پارلیمنٹ نے کہا کہ پانچ سال کریں ہمیں اس میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کسی نے الیکشن ایکٹ کی شق 232-2کو چیلنج نہیں کیا جس میں آرٹیکل 62-1(f)کے تحت نااہلی کی مدت مقررکردی ہے۔ قانون میں تھوڑی سی زبان بدلنے پر پورے ملک کو بند کردیا گیا تھا۔ بعض اوقات کسی چیز کے بارے میں زیادہ نہ سوچنا بہترہوتا ہے۔ اخبارات میں پبلک نوٹس دیا اورایک بھی سیاسی جماعت عدالت نہیں آئی۔ ہم کیوں آرٹیکل 62-1(f)میں پھنس گئے ہیں جو ایک جنرل نے آئین میں شامل کیا۔ دنیا بھر میں پاکستان کی طرح ارکان پارلیمنٹ کیت ٹیسٹ نہیں ہے۔ نیب میں 10سال سزا ہے اور 62-1(F)میں ہم تاحیات نااہل کردیتے ہیں، یہ عجیب بات ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں صادق اورامین کون ہے۔ جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی خان کو میاں محمد نوازشریف کا نام لینے روکتے ہوئے کہا کہ کیس کو سیاسی نہیں بنانا چاہتے اورنہیں چاہتے کہ کسی بھی شخص کا نام لیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62-1(f)کب اپلائی ہوتا ہے، الیکشن سے پہلے، بعد یا الیکشن کے بعد کسی بھی اپلائی ہوسکتا ہے۔کیا ہم سیکشن 232-2کو کالعدم قراردے سکتے ہیں جبکہ یہ معاملہ ہمارے سامنے ہی نہیں۔آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے۔ عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی۔ کیس کی سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگا دیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا لیکن کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کردیں کچھ نہیں ہوتا،کاغذات نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہل کر دیتی ہے۔ان کا کہنا تھا ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں ؟ ہم آئینی تاریخ کو ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں؟ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟ سردار جہانگیر خان ترین کے وکیل مخدوم علی خان کااپنے دلائل میں کہنا تھا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کیلئے ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کیا ہمارے سیاستدان پوری دنیا کے سیاستدانوں سے الگ ہیں؟ کاغذات نامزدگی میں ذاتی معلومات دیں اور انتخابات کیلئے اہل ہو جائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا سمیع اللہ بلوچ کیس میں معاشرے کے قرض کا ذکر مضحکہ خیز ہے، قتل پر لواحقین سے صلح پرمعاملہ ختم ہو جائے تو معاشریکا قرض کہاں جاتا ہے؟ کاغذات نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے توتاحیات نااہل کیسے ہو جائیگا؟ کاغذات نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ اگر سونا رکھنے سے متعلق درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فراڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے توکیا سزاکے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ دھوکہ دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے، الیکشن ٹربیونل پورے الیکشن کوبھی کالعدم قرار دے سکتا ہے۔وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے۔اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی، آئین وکلا کیلئے نہیں عوام پاکستان کے لیے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے، فلسفیانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون صادق اور امین ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا لارجربینچ بنایا تاکہ سوالات کا جواب ہو لیکن معاملہ الجھتا جا رہا ہے، انتظارکرلیتے ہیں،کیا پتا سوالات کے جوابات اس سے بڑے بینچ سے آجائیں۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے؟ مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں، کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مخصوص مقدمہ بنے اورپورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے، عدالت کسی کوبددیانت قرار دے لیکن معاشرہ اسے ایماندار سمجھتا ہو تو فیصلے کا کیا ہوگا؟جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کیا عدالت الیکشن ایکٹ سیکشن 232-2کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا سیکشن 232-2 عدالت کے سامنے چیلنج نہیں ہوا، اس کوکالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، عدالت خود کو صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے تک محدود رکھے، الیکشن ایکٹ ترمیم پر فیصلے کیلئے اس کیخلاف درخواست آنا ضروری ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عدالت نے اپنا ہی فیصلہ دیکھنا ہے توکیا 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟جسٹس محمدعلی مظہر نے پوچھا کوئی کاغذات میں جھوٹ بولے توکیا آراا مواد دیکھ کر ڈکلیئریشن دے سکتا ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بالکل نہیں، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لا نہیں جو ڈکلیئریشن جاری کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا ہائیکورٹ ڈکلیئریشن جاری کر سکتی ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا میں سمجھتا ہوں آرٹیکل199 کے تحت ہائیکورٹ ڈکلیئریشن دے سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کردی پھرتویہ اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا اگرسمیع اللہ بلوچ فیصلے کوکالعدم قراردیں تو سزا کتنی ہوگی؟ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا پارلیمنٹ کہہ چکی ہے نااہلی 5 سال ہوگی، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کونوٹس کیا گیا تھا؟ریکارڈ منگوالیں۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 کو چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریہ کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کوختم کرنا ہوگا، سمیع اللہ بلوچ فیصلے کوختم کریں کیونکہ اس کیس میں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کیاکوئی مثال ہے نااہل اور سزا یافتہ شخص کولنگ پیریڈ کے بعد انتخابات لڑنے آجائے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا عدالت قراردے سکتی ہے الیکشن ایکٹ سیکشن 232 آنے سے تاحیات نااہلی کا فیصلہ خود بے اثرہو گیا؟ جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا اس سوال کا جواب ہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں دے چکے، قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات جمع کرا دیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے 5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اسحاق خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس ڈسکس نہیں ہوا، جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اصل میں خاکوانی کیس کیا تھا؟اٹارنی جنرل بیرسٹر ل نے بتایا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے ہی متعلق تھا، کورٹ آف لا کیا ہوگی2015 میں 7 رکنی بینچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا، چیف جسٹس نے پوچھا سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیار میں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی ہے، سپریم کورٹ تعین کریکہ سیاستدانوں کی اہلیت کی ڈکلیئریشن کس نیدینی ہے۔جسٹس امین نے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے سوالات کا فیصلہ ہم کریں؟ جس پر منصور عثمان نے کہا عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہوگا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیئریشن کس نے دینی ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے 2015 کے اسحق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورٹ آف لا کیا ہو گی 2015 میں سات رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ آف لا سے متعلق سمیع اللہ بلوچ نے فیصلہ نہیں کیا لیکن اسحق خاکوانی کیس میں 2015 میں یہ معاملہ اٹھا تھا، اسحق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلئیریشن پر سوالات اٹھائے، اسحاق خاکوانی کیس میں یہ کہا گیا کہ نااہلی سے متعلق سوالات کا آئندہ کسی کیس میں عدالت فیصلہ کرے گی۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینی ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اسحق خاکوانی کیس میں سات رکنی بینچ فیصلہ کر چکا تھا تو پانچ رکنی بینچ نے وہ فیصلہ کیوں نہ دیکھا؟ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ سات رکنی بنچ کے فیصلے کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟ سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا۔چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بنچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بنچ تھا، سات رکنی بنچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بنچ دیکھے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بعد میں پانچ رکنی بنچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں پانچ رکنی بنچ نے اس پر اپنا فیصلہ کیسے دیا؟ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا ، انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلئیریشن پر سوالات اٹھائے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینا ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لا کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا، جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے ابھی ہم نے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی، ڈیکلیریشن کا طریقہ کار کیا ہو گا یہ ہم کیسے طے کر سکتے ہیں؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے طے کر دی ہے پانچ سال کی مدت، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کیا ہے، نااہلی کی ڈکلئیریشن اور طریقہ کار کا تعین ابھی نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے جسٹس منصور کے سوال پر اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ منصور صاحب اس کا جواب یہ دیں کہ پارلیمنٹ آئندہ یہ بھی طے کر لی گی، عدالتیں قانون نہیں بناتیں، عدالتیں صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ لے سکتا ہے کہ قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1973 کا آئین بنانے والے زیادہ دانشمند تھے، بعد میں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئے آئے کہ چلو اس میں کچھ اور ڈال دو، انہوں نے کہا یہ لوگ سر نہ اٹھا لیں، انہوں نے سوچا ایسی چیزیں لاتے ہیں جس کو جب دل چاہا نااہل کردیں گے، کسی جگہ آئین میں اگر خاموشی رکھی گئی تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب میں کہتا ہوں میں نے کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرنا تو یہ بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم سمیع اللہ بلوچ کیس میں پھنس گئے ہیں ، دنیا کے وکیل اس میں پیش ہوئے اور کسی نے بھی اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ نہیں دیا۔تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ بینچ کے سامنے پیش ہو گئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ بڑی دیر کردی مہرباں آتے، آتے ۔شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ نااہلی کی مدت مقرر کرنے کا پارلیمنٹ کا طریقہ مناسب نہیں۔چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس قانون کو چیلنج کیوں نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے لئے مسئلہ یہ ہو رہا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کے خلاف آپ کی پارٹی کے رکن فیصل واوڈا کو ریلیف ملا ہے، کل کو ہوسکتا ہے کوئی آکر کہہ دے کہ شعیب شاہین ہماری نمائندگی نہیں کررہے تھے، ہمارے سامنے کوئی پی ٹی آئی کی درخواست نہیں ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ چلیںمان لیا ڈکلیئریشن بھی آگئی تویہ تاحیات نااہلی کیسے ہو گی۔ چیف جسٹس نے سماعت مکمل ہونے پر تمام وکلاء اور عدالتی معاونین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عدالتی معاونین نے مختصر وقت میں عدالت کی معاونت کی۔نااہلی کیس کی سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آج مختصر حکم جاری نہیں کریں گے تاہم جلد ازجلد مختصر حکم جاری کردیں گے۔