آصف زرداری اور عوامی رجحانات کے برخلاف جوڑتوڑ کی سیاست کا بدترین کھیل
شیئر کریں
سیاست ایک کھیل ہے اور پاکستان کے سیاسی کھیل یا سیاسی میدان میں جتنے بھی کھلاڑی موجود ہیں سابق صدر آصف علی زرداری ان میں سب سے نمایاں ہیں۔ وہ تحمل مزاجی اور حالات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ انہیں اپنی حدود کا بہت اندازہ رہتا ہے اور وہ اپنی سیاسی حدود کے اندر رہتے ہوئے بہت اچھے انداز میں سیاسی چال چلتے ہیں۔ آصف زرداری میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ حکومت سازی میں ان کے پاس اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد نہ بھی ہو تو وہ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ ملک کے تمام صوبوں میں ان کے سیاسی خاندانوں اور انفرادی حیثیت میں اپنی اپنی سیٹوں پر ناقابل شکست سمجھے جانے والے سیاستدانوں سے ذاتی تعلقات ہیں۔ وہ ان تعلقات کو نبھاتے ہوئے آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر وہ کسی سیاسی مہم پر نکلتے ہیں تو ملکی سیاست میں ہلچل ضرور ہوتی ہے۔ آصف علی زرداری ان دنوں بھی متحرک ہیں۔ ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے، سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد کر رہی ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کی فہرستوں کو حتمی شکل دے چکی ہیں اور کاغذات نامزدگی بھی جمع ہوچکے ہیں۔تاہم سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی فائدے کو سامنے رکھتے ہوئے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، سیاست دان بھی ایک سے دوسری جماعت میں جا رہے ہیں، لطیف کھوسہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن گئے ہیں تو ہمایوں اختر پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہونے کے بعد استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے خیبر پختونخوا گورنر ہاؤس میں صوبے کے گورنر غلام علی سے اہم ملاقات کی تھی لیکن گورنر خیبر پختونخوا نے جو مولانا فضل الرحمان کی سمدھی ہیں آصف زرداری سے کسی طرح کی سیاسی ڈیل یابات چیت کی تردید کر کے بظاہر آصف زرداری کے گورنر ہاؤس میں قیام کے معاملے ہی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے سابق صدر کو پشاور پہنچنے پر سیکورٹی وجوہات کی بنا پر گورنر ہاؤس میں قیام کرنا پڑا ہے، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ مہربانی صرف آصف زرداری کے ساتھ ہی کیوں؟آخر دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کا کیا قصور ہے کہ انھیں گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر سیاستدانوں یا بالفاظ دیگر الیکٹیبلز کے ساتھ جو ڑ توڑ کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ دیگر کسی پارٹی کو گورنر ہاؤس کے قریب بھی کسی سیاسی سرگرمی کی ہمت نہیں ہوتی۔عام انتخابات کی تیاریاں کرتے ہوئے اگر امن و امان کے حوالے سے ایسی صورتحال ہو کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سرپرست اور پاکستان کے صدر کے عہدے پر براجمان رہنے والے فرد کو حفاظتی نقطہ نظر سے گورنر ہاؤس میں بیٹھنا پڑتاہے تو پھر اسے کوئی حوصلہ افزا بات ہرگز ہرگز قرار نہیں دیاجاسکتا۔ بہرحال امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے سکیورٹی ادارے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی پشاور میں بیٹھک کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں پیپلز پارٹی کا وفد اور جے یو آئی (ف) کے رہنما بھی موجود تھے، ملاقات میں صوبے کے سیاسی معاملات، امن و امان کی صورتحال اور انتخابات کے انعقاد اور سیاسی حکمت عملی پر غور کیا گیا ہے۔ آصف علی زرداری کی گورنر ہاؤس میں پارٹی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقات سے جو خبریں سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق ملاقات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ اس ملاقات میں یہ بھی طے پایا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے فیصلے کا اختیار صوبائی قیادت کے ذمہ داران کو دیا جائے۔
آصف علی زرداری کی سیاست سے اختلاف کیاجاسکتاہے، ان کے طرز حکومت پر بھی تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ان کے کریڈٹ پر کچھ کام ایسے ضرور ہیں جو ان کی سیاست میں سیاسی سمجھ کا اشارہ دیتے ہیں، بینظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے، مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی، آگ لگی لیکن آصف علی زرداری نے ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر سب کو حیران کیا۔انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب فسادات کا خطرہ تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹرز کسی کو سننے کے لیے تیار نہ تھے اور دشمن طاقتیں بدامنی پھیلانے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسے حالات کا انتظار کرتی ہیں، آصف علی زرداری نے اپنے ووٹرز کو پرامن اور سب کو پاکستان کے ساتھ جڑے رہنے کا درس دیتے ہوئے اس وقت کے اعتبار سے قوم کی درست انداز میں رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ ان کے دور میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ بھی وقت کی ضرورت تھی اگر ہماری حکومتیں ملکی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے دنیا کو قائل کرنے کی طرف توجہ دیتیں اور اس منصوبے کو مکمل کرنے پر کام ہوتا تو ہم توانائی کے بحران سے بچ سکتے تھے۔ اسی طرح سی پیک منصوبے میں بھی آصف علی زرداری کا کردار اہم ہے۔ سیاسی میدان میں وہ جوڑ توڑ کرتے ہیں اور اس میں مہارت رکھتے ہیں، مسائل کو گفتگو کے ذریعے حل کرنے اور دلائل سے قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاسی مخالفت میں بھی کوشش کرتے ہیں کہ نامناسب زبان استعمال نہ کی جائے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح بات چیت کے دروازے ہر وقت کھلے رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اس وقت بھی برداشت، تحمل مزاجی، رواداری اور سیاسی حریفوں کو تسلیم کرنے کی روایت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ آصف علی زرداری اس حوالے سے متحرک رہتے ہیں۔ سیاسی کھلاڑیوں کو کم از کم ہر وقت طعنوں اور الزامات کی سیاست سے بہرحال باہر نکلنے اور تعمیری سیاست کی سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ آئندہ عام انتخابات ایک مرتبہ پھر آصف علی زرداری کا امتحان ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ بدلتی ہوئی سیاست میں وہ اپنی جماعت کے لیے کیا کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس سب سے قطع نظر پاکستان کی سیاست کی ایک خوف ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ سودے بازی کے کھیل سے چلتی ہے اور اس حوالے سے آصف علی زرداری کی سیاست شہرت سے زیادہ بدنامی کی حد تک ہے۔ افسوس ناک طور پر اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے آصف علی زرداری کی سیاست، سیاست دانوں کے کردار کو طفیلی بنانے میں مددگار بنتی ہے، یہ ایک خطرناک رجحان بھی اُن کی سیاست کا اب ایک غالب حصہ بن چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کھیل کو کیسے کھیلنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ کیونکہ حالیہ سیاست کا کھیل عوامی رجحانات کے بالکل برخلاف کھیلا جا رہا ہے اور یہ عوامی ردِ عمل کی لہروں کو توانا بھی کرسکتا ہے جس میں جوڑ توڑ کی سیاست کو شکست بھی ہو سکتی ہے۔