لاڈلوں کی سیاست اور سیاست دانوں میں اضطراب
شیئر کریں
جوں جوں الیکشن کی مجوزہ تاریخ قریب آرہی ہے خود کو عوام کی مقبول پارٹیاں ہونے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب خود کو مقتدر طاقتوں کا لاڈلہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے والی مسلم لیگ ن اور ملک کی سب سے بڑی اور بااثر مقبول مذہبی جماعت ہونے کی دعویدار جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ الیکشن کی مجوزہ تاریخ موخر کردی جائے،اس حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ انتخابات کو ڈیڑھ 2سال کے لیے موخر کر دیا جائے۔ الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش کرنے والی پارٹیوں نے اس کے لیے طرح طرح کے موقف پیش کیے ہیں۔انتخابات میں تاخیر کے لیے کسی کی طرف سے سردی کا جواز پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمان کا اصرار ہے کہ پاکستان کے کچھ حصوں میں دہشت گردی ہورہی ہے لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے ایسے کسی جواز کو تسلیم نہیں کیا گیااور یہ واضح کردیاگیاہے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے کسی بھی صورت سود مند نہیں ہو گا۔ نگران حکومت کے پاس محدود اختیارات ہیں اور عالمی سطح پر بھی یہ سب کچھ دیکھا جاتا ہے۔ خصوصی طور پر عالمی مالیاتی ادارے کسی عارضی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ جمہوری اور منتخب حکومت کے ساتھ ہی اپنے معاملات آگے بڑھاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سردی کا جواز بناکر انتخابات ملتوی کرنے کا موقف درست نہیں جبکہ ملک میں سیکورٹی سے متعلق صورتحال بھی تسلی بخش ہے۔ الیکشن کمیشن میں عام انتخابات ملتوی کرنے کی درخواستوں پر مشاورت کی گئی۔ حکام نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں دائر درخواستیں ٹھوس وجوہ پیش کرنے میں ناکام ہوگئیں، ملک کے بیشتر علاقوں میں سردی سے متعلق موقف میں کوئی دم نہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ایک طرف مبینہ طور پر الیکشن ملتوی کرانے کی تگ ودو کررہے ہیں،دوسری جانب مریم صفدر سمیت دیگر تمام مسلم لیگی رہنماعوام میں یہ تاثر راسخ کرنے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں کہ نوازشریف ایک بار پھر کسی کے لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ یہ دلیل دیتے ہیں نواز شریف کے لاڈلہ ہونے کا ثبوت ان کی وطن واپسی کے بعد سے ان کے ساتھ ہونے والے خصوصی سلوک سے لگایا جاسکتاہے،اکتوبر سے لے کر آج تک اُن کی لندن سے واپسی کے بعد جس طرح اُن کی مشکلیں آسان ہوتی جارہی ہیں اوراُن کے خلاف بنائے گئے پچھلے سارے مقدمات ختم ہوتے جارہے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لاڈلہ بن کر ہی ڈیل کے تحت واپس آئے ہیں اور اس ڈیل میں ان کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم کی کرسی پر بٹھانا شامل ہے۔مسلم لیگی رہنماؤں کا یہ پروپگنڈہ اس قدر کامیاب ثابت ہواہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اس بات کا پختہ یقین ہوگیاہے کہ نواز شریف ڈیل کے تحت واپس آئے ہیں اور مقتدر قوتیں انھیں ہی اگلا وزیراعظم بنا نا چاہتی ہیں اسی لیے بلاول زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے لوگ پہلے دن سے اس بارے میں نہ صرف بیانات دے رہے ہیں بلکہ اپنے بیانات میں مسلم لیگ نون اور خاص طور پر نوازشریف کو تواترکے ساتھ ہدف تنقید بناتے دکھائی دے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کا بھی موقف یہی ہے کہ نوازشریف ایک بار پھر کسی کے لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ اکتوبر سے لے کر آج تک اُن کی لندن سے واپسی کے بعد جس طرح اُن کی مشکلیں آسان ہوتی جارہی ہیں اوراُن کے خلاف بنائے گئے پچھلے سارے مقدمات ختم ہوتے جارہے ہیں اس سے ظاہرہوتاہے کہ مقتدر قوتیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں۔
عام انتخابات میں کس کی جیت ہوگی اورکون اسلام آباد میں حکومت کرے گا، ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔سارے تبصرے اورتجزئیے مفروضوں پر مبنی ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کو یقین کی حد تک شک ہے کہ مقتدر قوتیں نوازشریف کو دوبارہ برسراقتدار لانا چاہتی ہیں۔عام تاثر یہی بنتا جارہا ہے کہ وہی اس بار پھر وزیراعظم بن جائیں گے۔ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ خود مسلم لیگ نون کو اپنے لاڈلی ہونے کا تاثر پوری قوت کے ساتھ پھیلانے کی کوششوں کے باوجود اپنی اس کامیابی کا مکمل یقین نہیں ہے اور اسی لیے وہ تمام سیاسی پارٹیوں اورالیکٹیبلز سے سمجھوتے اورسیٹ ایڈجسمنٹ کرتی نظر آرہی ہے، اگر اسے اتنا ہی یقین ہوتا جس طرح بلاول زرداری کو گمان اوریقین ہے تو وہ بھلایہ سب کچھ کیوں کررہی ہوتی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول ایک طرف نوازشریف کو لاڈلے ہونے کاطعنہ دے رہے
ہیں اور دوسری جانب اُن کی دیگر سیاسی شخصیات سے اتخابی اتحادکی کوششوں کو بھی ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہسیاسی شخصیات سے اتخابی اتحادکی کوششیں اس سے پہلے ہمیشہ خود آصف زرداری کرتے ہیں اور اپنی اس حکمت عملی کو وہ دوستی اورمفاہمتی
سیاست کانام دیاکرتے تھے مگر اس بار یہ کام نوازشریف نے اُن سے پہلے شروع کرکے اُن کے ارادوں پر بظاہر پانی پھیر دیا ہے شاید اسی
لیے وہ برہم اورنالاں نظر آرہے ہیں۔سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔الیکشن میں ابھی تقریبا ً دوماہ باقی ہیں اوراِن 2مہینوں میں کچھ
بھی انہونی بات ہوسکتی ہے۔اسی لیے ابھی سے کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آئے گی۔صوبہ سندھ تک
سب لوگوں کو 100فیصدی یقین تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی اس صوبے میں اپنی حکومت بنائے گی لیکن پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں
بننے والے اتحادوں کے بات یہ یقین بھی ڈھل ملا گیاہے اور اب یہ کہاجارہاہے کہ جی ڈی اے سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کو بڑ دھچکہ لگائے
اور زرداری کو سندھ میں بھی حکومت بنا نے کیلئے بیساکھیاں تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑجائے۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران سندھ میں کسی نہ
کسی صورت برسراقتدار رہنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی کارکردگی اتنی بھی اچھی اورمتاثرکن یاقابل ستائش نہیں رہی ہے کہ سندھ اور خاص
طورپر شہری سندھ کے عوام اسے ایک بار پھراس صوبے میں حق حکمرانی عطاکردیں۔ وڈیروں اورجاگیرداروں سمیت اس صوبے کی مخدوم
خاندانوں کی اکثریت کا تعلق چونکہ پیپلزپارٹی سے ہے لہٰذا اُن کے زیراثر ہاری اورمحکوم لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی نمک حلالی پرمجبور ہوتے
رہے ہیں، حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے حالات اس طرح شاید ہی کبھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔جس دن اُن کے حالات
اچھے ہوگئے وہ اِن جاگیرداروں کے اثر اورتسلط سے باہر نکل آئیں گے۔پیپلز پارٹی بھی یہ اچھی طرح جانتی ہے اسی لیے وہ اس صوبے کے
حالات بدلنے میں دلچسپی اورگرم جوشی نہیں دکھاتی ہے۔18ویں آئینی ترمیم نے اس ملک کی صوبائی حکومتوں کومالی طور پراچھا خاصا امیر کردیا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس ترمیم کے ثمرات صوبوں خاص طورپرسندھ کے غریب افراد تک قطعاً نہیں پہنچے ہیں۔ساری دولت کہاں چلی جاتی ہے، یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کاسراغ لگانے والا ہی مجرم اورصوبائی خود مختاری کادشمن تصور کیاجائے گا۔آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اس18ویں ترمیم کو پاس کرواکے صوبائی حکومتوں اور وزرا کے لیے دولت کے وہ خزانے کھول دیے ہیں جن سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیضیاب ہوتے رہیں گے۔پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں الیکشن جیتناآج سے پہلے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ سارے ملک میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو یقین نہیں ہوتاکہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں الیکشن جیت کروہاں حکومت بناپائیں گے مگر پاکستان پیپلزپارٹی ایک واحد جماعت ہے جسے پورا اورکامل یقین ہوتاہے کہ سندھ کی حکمرانی ان ہی کا حق اور مقدر ہے۔ تو عام انتخابات
کے متوقع نتائج کے بارے میں ویسے تو کوئی بھی سیاسی پارٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ یہ معرکہ جیت جائے گی لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کو یہ بھرپور
یقین اور اطمینان ہے کہ وہ اس ایک صوبے میں تو ہرحال میں الیکشن جیت جائے گی۔اب آئیے دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرف، پاکستان
تحریک انصافکو تو بظاہر مبینہ طورپر مقتدر قوتوں نے اقتدار سے باہر رکھنے کا فیصلہ کررکھا ہے،اگر یہ صورت حال تبدیل ہوجائے یعنی مقتدر
قوتیں تحریک انصاف کو اقتدار سے باہر رکھنے کی ضد ختم کردیں توپھرشاید کوئی بھی اسے یہ الیکشن جیتنے سے روک نہیں سکتا۔ مظلومیت اور
محرومیت کا عنصرہماری قومی سیاست میں ہمیشہ اہم رہا ہے جس کافائدہ تحریک انصاف بہرحا ل عوام کے ان فطری جذبات سے آسانی سے
فائدہ اُٹھاسکتی ہے۔مسلم لیگ نون ابھی تک اپنے چاہنے والوں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی ہے اس کی بڑی وجہ
صرف اس کی ناقص کارکردگی اوراپنے ہمدرد کارکنوں سے بے اعتناعی ہے۔ اس صورتحال کے میں مسلم لیگ کیلئے عوام کی ہمدردی کا کوئی بھی
عنصر شامل نہیں ہے۔ اس کی مقبولیت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت کی وجہ سے پہنچا،وہ اگر اس وقت اقتدار قبول
نہ کرتی توشاید آج اُسے الیکٹیبلز اوردیگر سیاسی گروپوں سے سیٹ ایڈجسمنٹ کی اتنی حاجت نہ رہتی۔ اگر نواز شریف اور ان کے بھائی میں
اقتدار کی ہوس کے علاوہ تھوڑی سی بھی دوراندیشی ہوتی تو وہ عدم اعتماد کی تحریک منظورہونے کے فوری بعد اقتدار کے کھیل سے الگ ہو جاتے اورجس نے عدم اعتماد کی تحریک کی پلاننگ کی تھی حکومت بھی اسی کے سپرد کردیتے۔آصف علی زرداری اس عدم اعتماد کی تحریک کا
کریڈٹ اپنے نام کرتے ہیں اورساتھ ہی ساتھ وہ شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کااحسان بھی جتاتے دکھائی دیتے ہیں تو اصولا ہونا تو
یہی چاہیے تھا کہ جس نیعدم اعتماد کی منصوبہ بندی کی تھی،اس 16ماہ کی حکومت بھی اسے ہی سنبھالنی چاہیے تھی مگرآصف زرداری نے مسلم
لیگ نون کو اکثریتی پارٹی کا جھانسہ دیکر یہ مصیبت بھی اسی کے گلے میں ڈال دی، اور اپنے بیٹے کو جس کو وہ خود بھی ناتجربہ کار قرار دے چکے
ہیں۔ وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز کرا کر اس مفلس اور مقروض قوم کی محنت کی کمائی سے پوری دنیا کی سیر سپاٹے کاذریعہ فراہم کردیا یہی نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے متعدد نااہل اور ناکارہ افراد کو بھی کابینہ میں شامل کراکے شہباز شریف کو ایک جمبو کابینہ بنانے کا طعنہ سننے پر مجبور کردیا اب وہ بڑی آسانی سے اس دورکی تمام مشکلات سے خود کوبری الذمہ کرتے ہوئے ساری مہنگائی کا ذمے دار مسلم لیگ نون کوقراردیتے پھر رہے ہیں۔مسلم لیگ نون کو الیکشن جیتنے کے لیے آج جن مشکلات کاسامنا ہے وہ شہبازشریف کی اسی16ہ کی حکومت کا نتیجہ ہے۔ اپنے اس دور کی وجہ سے وہ اپنے کئی اچھے کارکنوں سے بھی محروم ہوگئی ہے۔ مفتاح اسمعٰیل، دانیال عزیز اور شاہد خاقان عباسی جیسے مخلص ورکر پارٹی کا اثاثہ تھے۔انھیں کھوکرپارٹی نے شاید خود اپنا نقصان کیا ہے۔اس وقت سیاسی میدان میں اگر کوئی دل جمعی سے جلسے کررہا ہے تو وہ بلاول
زرداری ہی کررہے ہیں باقی لوگ فی الحال سیاسی اتحاد بنانے میں مصروف ہیں۔ بلاول زرداری کی دلی آرزو بھی یہی ہے کہ وہ اس ملک کے ایک باروزیراعظم بن کر تاریخ میں اپنا نام لکھوالیں۔انھوں نے خود کو جلسوں کی سیاست میں مصروف کیا ہوا ہے تو والد محترم کوہمیشہ کی طرح سیاسی جوڑتوڑ کا ٹارگٹ دیا ہوا ہے، ویسے میدان ابھی سب کے لیے کھلا ہوا ہے، کسی کو بھی پتہ نہیں ہے کہ کون یہ معرکہ فتح کرے گا۔ قیاس آرائی یہی کی جارہی ہے کہ اس بارکسی کو بھی سادہ اکثریت نہیں مل پائے گی۔ دیگر جماعتوں اورشخصیات سے ملکر ہی ایک قوی یامخلوط حکومت بن پائے گی۔ اس لیے یہ کہنا کچھ غلط بھی نہ ہوگاکہ اصل سیاسی معرکہ الیکشن کے نتائج کے بعد ہی شروع ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔