فرانسیسی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی
شیئر کریں
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے فرانس کی درجن بھر سے زاید کمپنیوں کے نمائندوں نے پاکستان میں سرمایہ لگانے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔فرانسیسی سفیر کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرانس-پاکستان بزنس کونسل آف میڈیف انٹرنیشنل کے چیئرمین اور ٹوٹل گلوبل کے صدر ایم تھیری فلیملن نے کہا کہ ‘پاکستان میں مالی صورت حال سازگار ہے اور گزشتہ 3 برسوں میں سیکورٹی کی صورت حال شاندار طریقے سے بہتر ہوئی ہے’۔تھیری فلیملن، فرانس کی 16 کمپنیوں کے وفد کی قیادت کررہے ہیں جو 12 سال کے وقفے کے بعد 4 اپریل سے 6 اپریل کے دوران پاکستان کے دورے پر ہے۔فرانسیسی کمپنیوں کے وفد کے رہنما کا کہنا تھا کہ ‘ہم مخصوص شعبے زراعت، فوڈ پروسیسنگ، پن بجلی سمیت توانائی، الیکٹرونکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایل این جی اسٹوریج اور گیس وغیرہ کو ہدف بنا چکے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ دورے کا مقصد پاکستان کو سمجھنا اور یہاں پر کاروباری مواقع دریافت کرنا ہے، پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یورپ بھی پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔
مختلف شعبوں میں کام کرنے والی دنیا کی بڑی فرانسیسی کمپنیوں کا پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار بلاشبہ خوش آئند ہے ،فرانسیسی کمپنیوں کواپنے3 روزہ دورے میں پاکستان میں کاروباری ترجیحات کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا۔فرانسیسی تجارتی وفد کے قائد تھیری فلیملن نے پریس کانفرنس کے دوران بتایاکہ ان کی اور وفد کے دیگر افراد کی پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے عہدیداروں اور پیٹرولیم، منصوبہ بندی، تجارت اور خوراک کی وزارتوں کے افسران کے ساتھ بہت تفصیلی اور فائدہ مندگفتگو ہوئی ہے۔فرانسیسی وفد کے قائد نے پاکستان کے بہترین پروفیشنل اور تعلیم یافتہ افراد کی بھی تعریف کی ۔وفد کے ارکان نے صدر ممنون حسین سے بھی ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی، اسی طرح یہ وفد کراچی کا بھی دورہ کرے گا جہاں پاکستان بزنس کونسل کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔فرانسیسی وفد نے اس سے قبل منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر احسن اقبال سے بھی ملاقات کی اور انہوں نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ وہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال اور سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ ہیں۔وفاقی وزیر نے فرانسیسی کاروباری شخصیات کو ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان کے جدید صنعتی شعبے کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت، فرانس کے ساتھ کاروباری حجم کو بڑھانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
ایک ایسے وقت جب پاکستان کی حکومت کی جانب سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لیے مختلف سہولتوں کی پیش کش کی جارہی ہے، اور وزیر اعظم میاں نواز شریف خود بھی متعلقہ ارباب اختیار کوسرمایہ کاری میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جامع ضابطہ تیار کرنے کی ہدایت دے چکے ہیں اور یہ واضح کرچکے ہیںکہ سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اس حوالے سے درخواستوں پر کارروائی مقررہ وقت میں ہو گی۔
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کوتمام ممکن سہولتیں فراہم کرنے اور ان کی درخواستوں پر ایک مقررہ مدت کے اندر کارروائی مکمل کرنے کے علاوہ سرمایہ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جامع ضابطہ تیار کرنے کی ہدایت اگرچہ سرمایہ کاری کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جامع ضابطہ تیار کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی، ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال میں یہ فیصلہ تو بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ بدامنی اور سیاسی افراتفری کی وجہ سے پہلے ہی بہت سے ملکی سرمایہ کار یہاں سے اپنا کاروبار غیرممالک میں لے گئے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کار بھی خوف کی وجہ سے ہی نہیں آ رہے اس صورت حال میں حکومت اور خاص طورپر ہماری وزارت خزانہ ، وزارت تجارت اور وزارت خارجہ کے حکام کو مل کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے سے کوئی جامع لائحہ عمل اور طریقہ کار کا فیصلہ کرلینا چاہیے تھا۔ ارباب اختیار اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوںگے کہ ہ ہمارا کرپٹ دفتری نظام ہمیشہ ہی ہر جائز کام میں رکاوٹ اور طوالت کا باعث بنتا رہا ہے اس لیے انہیں اس کی اصلاح پر سب سے پہلے توجہ دینی چاہیے تھی لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ حکام نے ابھی تک اس کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ارباب اختیار نے کرپٹ دفتری نظام میں اصلاح کے لیے ابھی تک کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے ، ارباب اختیار کی جانب سے مسائل کی اصل بنیاد کی جانب سے پہلو تہی سے ظاہر ہوتاہے کہ اربا ب اختیار ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کی راہ میں حائل غیر محسوس رکاوٹوں کو دور کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور وزیر اعظم کی واضح ہدایات کو بھی کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹ بننے والے کرپٹ نظام کی اصلاح ہو جائے اور سرمایہ کاروں کو تحفظ اور عزت کا احساس ملے‘ بروقت ان کی درخواستوں پر عملدرآمد ہو تو ملک سے اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرون ملک جانے والے سرمایہ کار بھی دوبارہ لوٹ سکتے ہیں۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت سرمایہ کاری کے لحاظ سے پاکستان سب سے زیادہ منافع بخش ملک بن چکا ہے۔ حکومت اگر ایمانداری سے دیر آید درست آید کے مصداق سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر کے اپنے ضابطہ کار کو نافذ کر کے اس پر عمل بھی کرے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار لوٹ کر آ سکتے ہیں۔
ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے دوسری بڑی ضرورت اس کے لیے ضروری انفرااسٹرکچر اورپانی بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کی بلاتعطل فراہمی بھی ہے ،جبکہ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے نا م پر عوام سے ووٹ لے کر برسراقتدار آنے والی حکومت 4سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بجلی کی کمی پر قابو میں پانے میں بری ناکام رہی ہے اور طرفہ تماشا ہے کہ پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے عوام کو طفل تسلی دینے کے بجائے انہیں لوڈشیڈنگ برقرار رہنے کی ”نوید“ سنا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لوڈشیڈنگ والے علاقوں کے تمام عوام کی پیشانیوں پر بجلی چور کا لیبل بھی لگا رہے ہیں ، اس موقع پر عوام یقیناً ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ چین‘ ترکی اور دوسرے ممالک کے ساتھ توانائی کے حصول کے جن معاہدوں کی خوشخبریاں عوام کو سنائی جاتی رہی ہیں‘ کیا وہ معاہدے اہل اقتدار کی فائلوں میں پڑے پڑے ہی کہیں گم ہوگئے ہیں؟ اور وزیراعظم نوازشریف نے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں ہائیڈل‘ تھرمل‘ کول‘ شمسی توانائی اور دوسرے ذرائع سے پچاس ہزار میگاواٹ تک بجلی حاصل کرنے کے جو دعوے کیے تھے‘ انہیں اپنے اقتدار کے 4سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں عملی قالب میں نہیں ڈھالا جا سکا۔ اگر ملک میں سستی اور پائیدار ہائیڈل بجلی کے حصول کے وافر ذرائع موجود ہیں تو انہیں بروئے کار لانے کے لیے حکمرانوں نے اب تک کیوں اغماض برتا ہے جبکہ صرف اس ذریعہ سے فراہم ہونیوالی بجلی کے باعث ہم بجلی کی پیداوار میں خودکفیل ہوسکتے ہیں۔ارباب اختیار یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک بجلی کی بلاتعطل اور وافر فراہمی کا انتظام نہیں کیا جاتا کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہمت نہیں کرے گا اور جب تک ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں ہوگی ، ملک سے بیروزگاری اور غربت کے خاتمے کا خواب بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔