میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مثالی حاکمین

مثالی حاکمین

منتظم
جمعرات, ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

تاریخ شاہد ہے حضرت عمرؓ کے دورخلافت میں چلنے والا نظام حکومت نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے اپنی مثال آپ ہے
وسیع تر سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود حضرت عمر مدینہ منورہ کی گلیوں میں پیوند لگے لباس میں گشت کیا کرتے،اکثر اینٹ کا تکیہ لگائے بلا تکلف سوجاتے
امتیاز علی شاکر
تاریخ کائنات کے اوراق کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیامیں مثالی حکومت اسلام کی تربیت حاصل کرنے،اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ﷺ کے احکامات پرپورا عمل کرنے اوراولیا ءاللہ کی صحبت اختیارکرنے والوں نے ہی کی ،جن میں سرفہرست مثالی حاکمین سرکاردوعالم ﷺ کے صحابہ اکرام ہیں ،حضرت ابوبکرصدیقؓ کی وفات کے بعد جب عام لوگ حضرت عمرؓ کے ہاتھ پربیعت کرچکے توآپؓ نے منبر پرکھڑے ہوکریہ خطبہ دیا۔اے لوگو!میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، مجھے حضرت ابوبکرصدیقؓ کی نافرمانی کا خیال نہ ہوتاتومیں تمہارا امیر اور حاکم بننا کبھی پسند نہ کرتا ۔لوگو!اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے لیے آزمائش بنایا ہے ،تم میں جونیک کام کرے گااُس کے ساتھ نیک سلوک کروں گااور جو بُرائی کاارتکاب کرے گااسے عبرت ناک سزا دوں گا۔عرب کی مثال اس اُونٹ کی ہے جواپنے ساربان کامطیع ہے ،اس کے ساربان (رہنما)کافرض ہے کہ وہ اسے کس طرف لے جارہا ہے۔میںاللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تمہیں سیدھے راستے پرلے کرچلوں گا “۔تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمرؓ کے دورخلافت میں چلنے والا نظام حکومت نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔وطن عزیزکاحال یہ ہے کہ ایک چوردوسرے چور کی تلاشی لینے کی بات کرتاہے،بھلایہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کرپٹ شخص دوسرے کرپٹ شخص کا احتساب کرے؟ اورپھر جس کی جیب میں چوری کامال ہو، طاقتور بھی ہو وہ تلاشی نہیں دیاکرتا۔وسیع تر سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود حضرت عمر نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی ،آپ اکثر مدینہ منورہ کی گلیوں میں پیوند لگے لباس میں گشت کیا کرتے،اکثر مقامات پر اینٹ کا تکیہ لگائے بلا تکلف سوجاتے ،خود بھی سادگی پسند کرتے اور اپنے حکام کو بھی سادگی کی تلقین کرتے تھے؟ایک لباس سردیوں کااور ایک گرمیوں کارکھتے ،کبھی کبھی صرف ایک جوڑا ہوتا جسے دھوکرپہن لیتے ۔آپؓ گزربسر کے لیے صرف 2درہم روزانہ بطور وظیفہ لیتے ۔کاش! پاکستان کے عوام اور حکمران حضرت عمرؓ کی طرح سادگی پسند ہوتے تو آج وی وی آئی پی کلچر اس قدر نہ پھیلتا، وی آئی پی کلچر تو تمام مسائل کی جڑ ہیں ۔آج ہر طرف سفارش ، رشوت ،کرپشن ،اقرباءپروری اور بے ایمانی کابازار گرم ہے ۔سرکاری محکمے تو اپنی جگہ پرائیوٹ مقامات پر بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے ۔کچھ دن پہلے میرے بیٹے کوتیزبخار ہوگیاہروالدکی طرح میرابھی دل چاہا کہ علاقے کے اچھے ڈاکٹر سے علاج کرواﺅں ،آپ جانتے ہیں کہ اچھے ڈاکٹرکی فیس بھی اچھی خاصی ہوتی ہے،بچے کولے کر کلینک پہنچا تو وہاں مریضوں کاکافی رش تھا،میں بھی ٹوکن لے کر اپنی باری کاانتظار کرنے لگا۔آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب ٹوکن والے ایک مریض کے ساتھ چار سے پانچ وی آئی پی مریض چیک کررہے تھے ،کوئی دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد میں نے اپنے ایک دوست کوفون کیا جو ڈاکٹر صاحب کا بھی دوست ہے ۔اُسے ڈاکٹر کو فون کرکے سفارش کرنے کو کہا،اُس نے فون کر کے میری سفارش کردی ۔سفارش کا اثر یہ ہواکہ نرس نے آکر پوچھا کہ امتیاز صاحب کون ہیں اور کمرے میں چلی گئی ،جب سفارش کے بعد ایک گھنٹا گزر جانے پر بھی میری باری نہ آئی تومیںنے ڈاکٹر صاحب کے ایک ملازم کو پچاس روپے کے ساتھ اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر کہا کہ پچاس روپے آپ کے ہیں یہ کارڈ ڈاکٹرصاحب تک پہنچادیں ۔کارڈ کا ڈاکٹرصاحب کے سامنے جانا تھا کہ مجھے اندر بلا لیا گیا،ڈاکٹرصاحب نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور فوری طور پر ٹھنڈے پانے کے بعد چائے کاآڈر بھی کردیا ۔ڈاکٹر صاحب کے عام مریضوں والے کمرے کے پیچھے ایک وی آئی پی مریضوں کوبیٹھانے والا کمرہ تھا ،مجھے اُس کمرے میں بیٹھا کر پانی،چائے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے آدھاگھنٹا ٹائم دیا اور آئندہ میرے لیے ٹوکن سسٹم بھی بند کردیا ،یہ سارا قصہ بیان کرنے کا مقصد ہے کہ جب ایک مسیحا فیس لے کر بھی انصاف نہیں کرتا تو پھر واپڈا،سوئی گیس ،تھانے عدالتوں ،سرکاری اسپتالوں میں جہاں ایک بیڈ پرچار چار مریض ایک ہی وقت میںڈال دیے جاتے ہیںوہاں انصاف کون اور کس کو فراہم کرے گا؟ جہاںملک کوبجلی بحران، مہنگائی ،دہشتگردی، کرپشن ،امن وامان کی خراب صورت حال،بے روز گاری وغیرہ وغیرہ کاسامنا ہے وہاں سفارش،کرپشن، رشوت ، اقرباءپروری اور وی وی آئی پی اور خوشامدی کلچر کے چیلنج کا سامنا بھی ہے۔اور یہ امراضِ خبیثہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ رشوت ، کرپشن، سفارش،اقرباءپروری اور اس کے علاوہ بہت سی خرابیوں کی فصل وی آئی پی کلچر کے کھیت میں اُگتی ہے اور وی آئی پی کلچر کے سارے کے سارے کسان حکمرانوں کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں۔وی آئی پی کلچر آج ہمارے معاشرے میںبہت زیادہ مضبوط ہوچکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اسلامی ،فلاحی ریاست بنائے بغیر مسائل کے گرداب سے نکلنا ممکن ہے؟ بحرانوں سے نکلنے کیلیے سرکار دوعالم حضرت محمدﷺ اور اُن کے غلاموں کی سادگی اور عاجزی کو اپناناہوگا۔آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں، یہ سارے ترقی یافتہ دورکی پیداوار ہیں جس نے ہمیں ہمارے دین سے دور کرکے تباہ برباد کردیا ہے۔کتنی دردناک حقیقت ہے کہ ہم نے ایٹم بم تو بنالیا پرکسی بلندعمارت پر لگی آگ میں جلتے ہوئے انسانوں کو بچانے کے لیے ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں ؟یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ایسی حقیقتوں پر ہرمسلمان اورمخلص پاکستانی کادل خون کے آنسوروتا ہے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ”مسلمانوں کے مال پر میرااتنا ہی حق ہے جتناایک یتیم کے مال پر متولی کا ہوتا ہے “یہ یاد رہے کہ حضرت عمرؓنے جب یہ قول فرمایا اُس وقت وہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت کے عظیم حاکم تھے ۔
حضرت عمر ؓ ایسے مثالی حاکم ہیں جن کاطرزحکمرانی آج غیرمسلم بھی اپناناچاہتے ہیں لیکن افسوس اسلامی سلطنتوں کے حاکمین کی سوچ اسکے برعکس ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں