میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نریندر مودی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے امریکی پیشکش سے فائدہ اٹھائیں

نریندر مودی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے امریکی پیشکش سے فائدہ اٹھائیں

ویب ڈیسک
جمعرات, ۶ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہپلی نے نیو یارک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش ہے، ہمیں دونوں ملکوں کے درمیان کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کا انتظارنہیں کرنا چاہیے۔ امریکی حکومت پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے لیے اپنے بہتر مقام کو دیکھ رہی ہے۔
نکی ہیلی نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے دونوں بڑے ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے اقوام متحدہ کے دیگر ارکان بھی کردار ادا کریں گے اور کسی کو اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے اگر اس معاملے میں بذات خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہوجائیں۔ ایک سوال کے جواب میں نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ ہے، جسے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مسئلہ کشمیرکے حوالے سے امریکہ کا تازہ ترین موقف خوش آئند ہے ،پاکستان کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ بڑی عالمی طاقتوں اور خاص طورپر امریکہ اور برطانیہ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی اور یہ مسئلہ حل کرانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنا چاہیے ،لیکن پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کا موقف تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات باہمی معاملات ہیں، جن کو انہیں ہی حل کرنا چاہیے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی رہنماﺅں کو بھی امریکہ کی اس مخلصانہ پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی انا کو بالائے طاق رکھ یہ مسئلہ پرامن طور پر خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ بھارتی رہنماﺅں کو پوری طرح یہ اندازہ ہوچکاہوگا کہ وہ طاقت کے زور پر کشمیریوں کو زیادہ دنوں اپنا غلام بنا کر نہیں رکھ سکتے ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے حالیہ دورہ کشمیر کے دوران یہ بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں ان کی پٹھو حکومت اور ان کے زرخرید رہنما کشمیری عوام کے ذہنوں کو تبدیل نہیں کرسکتے ،اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد کے مطابق حق خودارادیت سے کم کسی چیز پر تیار نہیں ہوں گے۔
پوری دنیا نے گزشتہ روز جموں سری نگر نیشنل ہائی وے پر طویل سرنگ کے افتتاح کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آمد کے خلاف ریاست بھر میں مکمل ہڑتال سے ایک دفعہ پھر یہ دیکھ اور سمجھ لیا ہوگا کہ کشمیری عوام بھارت کا تسلط کسی طور قبول کرنے کوتیار نہیں ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم کے دورہ مقبوضہ کشمیر کے موقع پر وادی کے تمام بازار اور دکانیں بند رہیں اور کنٹرول لائن کے دونوں جانب احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ پوری حریت قیادت کو نظر بند کیے رکھا گیا۔ کئی علاقوں میں کرفیو بھی نافذ رہا، اس دوران نوٹیہ میںدستی بم کے حملے میں ایک پولیس افسر مارا گیا جبکہ آر سی پی ایف ایس ایف کے 4 اور پولیس کے10 اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے دو کی حالت نازک ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مودی کی سری نگر آمد کے سلسلہ میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے مودی سرکار کی معاونت سے پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد کو پوری طرح سیل کر کے مختلف مقامات پر چیکنگ پوائنٹ اور عارضی بینکر تعمیر کرائے تھے اور سرغ رساں اداروں سے وابستہ سربراہان نے خود سیکورٹی کا جائزہ لیا تھا، اس طرح پوری وادی کو فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کر دیا گیا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے دورے میں چھ دہائیوں سے جاری کشمیر کی آزادی کی جنگ کو بے فائدہ قرار دیا اور کہا کہ اس جنگ میںبے قصور لوگوں نے جان گنوائی، دوسری جانب خود بھارتی میڈیا اس امر کی گواہی دے رہا تھا کہ نریندر مودی کے مقبوضہ وادی کے دورے کے موقع پر پورا علاقہ سراپا احتجاج تھا، بازار بند تھے اور علاقے میں قبرستان کی سی خاموشی تھی۔ بی بی سی کے مطابق مودی نے نام لیے بغیر اپنی تقریر میں پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سرحد پار والے تو خود کو ہی نہیں سنبھال پا رہے۔
یہ کشمیر میں اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی کا ہی ردعمل ہے کہ کشمیری عوام نے اپنی آزادی کے لیے چھ دہائیاں قبل چلائی گئی شمع کی لو آج تک مدھم نہیں ہونے دی اور بے شمار قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کر کے غاصب اور جارح بھارتی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ آج کشمیری عوام کی تیسری نسل بھی اپنے آباﺅ اجداد والے جوش و جذبے کے ساتھ غاصب بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہے اور اپنے مستقبل کے تعین کے لیے پورے جوش و جذبے کیساتھ جانی اور مالی قربانیاں پیش کر رہی ہے تو درحقیقت وہ دنیا کے سامنے کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والے ڈھول کا پول کھول رہی ہے اور اقوام عالم کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ کشمیر ہرگز بھارت کا حصہ نہیں بلکہ اس نے مقبوضہ وادی پر جبراً اپنا تسلط جمایا ہوا ہے جبکہ کشمیری عوام کی منزل بھی یو این قرار دادوں کے مطابق اپنے مستقبل کے تعین کے لیے استصواب کے حق کا حصول ہے۔ گزشتہ روز بھی مودی کی مقبوضہ وادی میں آمد کے موقع پر کشمیری عوام نے اپنے حریت قائدین کی اپیل پر پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال کر کے دنیا کو یہ ٹھوس پیغام دیا کہ انہیں بھارتی ریاست کے طور پر اپنا مستقبل قطعاً قبول نہیں اس لیے انہوں نے آج تک مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی کو بھی تسلیم نہیں کیا اور اس کے ہر انتخاب کا بائیکاٹ کیا ہے۔
اس سے پہلے مودی کے پیشرو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بھی سری نگر کے دورے کے دوران کشمیری عوام کی ایسی ہی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جن کی آمد پر کشمیری حریت لیڈروں نے ان کے دورے کے بائیکاٹ اور مقبوضہ وادی میں ہڑتال کا اعلان کیا تو منموہن سنگھ کو پوری مقبوضہ وادی میں کرفیو لگا کر سنگینوں کے سائے میں سری نگر آنا پڑا تھاجبکہ کشمیری نوجوان کرفیو اور بھارت سرکار کی دوسری سختیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور منموہن سنگھ کے سامنے سراپا احتجاج بن کر ان کے اٹوٹ انگ کے دعوے کو باطل قرار دیا تھا ،چنانچہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کشمیری عوام بھارتی فوجوں کے اقدامات کی مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل اس وقت کے بھارتی آرمی چیف بھی منموہن سنگھ کو مشورہ دے چکے تھے کہ کشمیر کے مسئلہ کا طاقت کے زور پر نہیں بلکہ سیاسی حل نکالا جائے، مودی سرکار نے اقتدار میں آتے ہی کانگرس آئی کی پالیسی کے برعکس مقبوضہ وادی میں کشمیری نوجوانوں کی آواز دبانے کیلئے ان پر ظلم و جبر کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کر دیے اور کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی پالیسی طے کر لی جس کی بنیاد پر مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ وادی کے علاوہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور اس کے شمالی علاقہ جات پر بھی حریصانہ نگاہیں گاڑ لی گئیں، اس تناظر میں مودی سرکار نے کنٹرول لائن پر پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائی اور اس کی سلامتی کیخلاف بھی گھناﺅنی سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے جبکہ کشمیری نوجوانوں پر بھارتی فوجوں اور پیرا ملٹری فورسز کے ظلم و تشدد کی آج انتہا ہو چکی ہے جنہیں پیلٹ گنوں سے فائرنگ کر کے مستقل طور پر اندھا اور اپاہج بھی بنایا جا رہا ہے۔ اگر ظلم کی ایسی انتہاﺅں کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت سرد نہیں کیا جا سکا اور آج وہ مودی کے دورہ سری نگر کے موقع پر انہیں مزاحمتی تحریک کے ذریعے چھٹی کا دودھ یاد دلاتے نظر آئے ہیں تو مودی سرکار کو اپنی تعصب کی آنکھ بند کر کے حقائق کا سامنا کرنا چاہیے اور کشمیریوں کو استصواب کا حق دے کر دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ نکالنی چاہیے۔ اگر بھارت نے کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی تو اسے کشمیری عوام کی سخت مزاحمتی تحریک کے علاوہ عالمی دباﺅ کا بھی مسلسل سامنا کرنا پڑے گا جبکہ اس بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث علاقائی اور عالمی امن بھی مستقل طور پر داﺅ پر لگا رہے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ مودی حکومت حقائق سے آنکھیں چرانے اور اپنا سر ریت میں چھپانے کے بجائے حقائق کاادراک کرتے ہوئے امریکی پیشکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے مذاکرات کے لیے پیش رفت کرنی چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں