میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یمنی حوثیوں کا اسرائیل پر حملہ

یمنی حوثیوں کا اسرائیل پر حملہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہونے والی جنگ روزافزوں سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔یہ جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے۔ اب تو دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہونے لگے ہیں۔ یمن نے بھی اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ یمن سے تعلق رکھنے والی عسکری تحریک انصار اللہ نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل فائر کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ترجمان حوثی فورسزنے کہا کہ بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ آنے والے دنوں میں ایسے مزید حملے کیے جائیں گے۔یمنی حوثی باغیوں کی مسلح افواج کے ترجمان جنرل یحییٰ ساری نے کہا کہ ہم نے فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں صہیونی دشمن کے مختلف اہداف پر بڑی تعداد میں بیلسٹک اور کروز میزائل اور بڑی تعداد میں ڈرونز داغے ہیں۔یہ آپریشن فلسطین میں ہمارے مظلوم بھائیوں کی حمایت میں تیسرا آپریشن ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک اسرائیلی حکومت کی جارحیت بند نہیں ہوتی وہ میزائلوں اور ڈرونز سے مزید حملے جاری رکھیں گے۔فلسطین کاز کے حوالے سے ہمارے یمنی عوام کا موقف مستحکم اور اصولی ہے اور فلسطینی عوام کو اپنے دفاع اور اپنے مکمل حقوق استعمال کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔غزہ پر حملہ امریکا کی حمایت اور بعض حکومتوں کی شمولیت سے کیا گیا ہے۔ہماری افواج نے غزہ کی حمایت میں اپنا فرض ادا کیا اور مقبوضہ علاقوں میں دشمن کے ٹھکانوں پر بیلسٹک اور کروز میزائل داغے۔
جنرل یحییٰ ساری نے حملے میں استعمال ہونے والے مخصوص ہتھیاروں کی شناخت نہیں کی۔ تاہم ایرو ڈیفنس سسٹم کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بیلسٹک میزائل حملہ تھا۔حوثیوں کے پاس برقان بیلسٹک میزائل کی ایک قسم ہے، جسے ایرانی میزائل کی ایک قسم کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایلات کے قریب حملہ کرنے لائق ہیں اور 1,000 کلومیٹر (620 میل) سے زیادہ تک پہنچنے کے قابل ہے۔حوثیوں کے اعلان نے ایران کو مزید تنازعے کی جانب کھینچ لیا ہے کیونکہ تہران نے طویل عرصے سے حوثیوں اور حماس کے ساتھ ساتھ لبنانی شیعہ ملیشیا گروپ حزب اللہ کی سرپرستی کی ہے۔حوثی باغیوں کا ہمیشہ سے نعرہ رہا ہے کہ ‘اللہ سب سے بڑا ہے؛ امریکا کی موت اسرائیل کی موت یہودیوں پر لعنت اسلام کی فتح’۔
چند روزہ جنگ میں اسرائیل نے غزہ میں القدس ہسپتال اور انڈونیشیا کے ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا جبکہ مشرقی علاقے میں ترکیہ کے ایک ہسپتال اور جنوبی علاقے میں ایک یورپی ہسپتال پر بھی بمباری کی۔ جس میں بچوں اور خواتین سمیت 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے۔حماس اسرائیل کے خلاف مسلسل آپریشن کر رہی ہے۔ حماس کے جانبازوں نے اسرائیلی زمین حملے میں ٹینکوں کو اڑا دیا جس کی وجہ سے اسرائیل کو زمینی آپریشن روکنا پڑا۔ مسئلہ فلسطین اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی قراردادوں اور بیانات سے حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انہیں متحد ہوکر جاندارانہ موقف اپنانا اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اسرائیل دہائیوں سے فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسلامی دنیا اگر اپنے دس فیصد وسائل بھی فلسطینیوں کو دے دیں تو مسجداقصیٰ آزاد ہوجائے گی۔ گریٹر اسرائیل کے منصوبے میں پڑوسی اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، یہ ایران اور پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہے۔فلسطین کا نوجوان آج کی دنیا کے ہر نوجوان سے زیادہ جری، غیرت مند اور کچھ کرنے کی لگن سے سرشار ہے۔ اگر اس کو موقع دیا جائے تو وہ یہودیوںکو بھی بہت پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ فلسطینی قوم نے ملک کے ایک ایک چپے کی آزادی کا عزم کررکھا ہے۔ فلسطینی نوجوان وطن کی آزادی کے لیے مسلح جہاد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وطن کا ایک ایک چپہ آزاد نہیں ہوجاتا۔
اسرائیل ، فلسطین جنگ کے حوالے سے امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی برادری کا رویہ انتہائی افسوسناک نظر آرہا ہے۔امریکا غاصب اسرائیل کی پشت پناہی کر کے معاملات کو بگاڑنے کی جو روش اختیار کیے ہوئے ہے، یہ اسے مہنگی بھی پڑسکتی ہے کیونکہ ابھی تک وہ مسلم ممالک کو تنہا کر کے ان کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ لیکن قبلہ اول کے ضمن میں ایسا نہیں ہوگا اور جو صورتحال امریکا پیدا کرنا چاہ رہا ہے وہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ جس تیزی سے یہ جنگ طول پکڑ رہی ہے خدشہ ہے کہ جلد ہی مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اس میں شریک ہو جائیں گے۔ دو روز قبل ایرانی صدر نے اسرائیل کو دھمکی دی اور کہا کہ اسرائیل اب ہمارے جواب کا انتظار کرے۔ ادھر، مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف یمن بھی اس جنگ میں کود پڑا۔ گزشتہ روز حوثی باغیوں نے اسرائیل پر بلیسٹک میزائل داغنے کا دعویٰ کیا ہے اور ایسے مزید حملوں کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین اور اسرائیل کی یہ جنگ آہستہ آہستہ دوسرے خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جو عالمی طاقتوں بالخصوص اقوام متحدہ کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اگر امریکہ، برطانیہ اور دوسری الحادی قوتیں اسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی رہیں اور فلسطینیوں کے خلاف اس کی ننگی جارحیت پر اسے تھپکی دیتی رہیں تو یمن اور ایران کے بعد مسلم دنیا کے دوسرے ملک بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے اس جنگ میں کود سکتے ہیں اور پھر یہ جنگ لامحالہ تیسری عالمی جنگ پر منتج ہوگی۔ اس لیے اقوام متحدہ کو کسی عالمی طاقت کے دباؤ میں آئے بغیر جارح اسرائیل کے جنونی ہاتھوں کو روکنا ہوگا تاکہ اس جنگ کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں