فلسطین کی شہید مائیں ،بہنیں
شیئر کریں
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم نے ہر اس دل کو لہو کر دیا ہے ،ظلم کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے،جنگ بندی کی قرار داد کو مسترد کرتے ہو ئے صیہونی بھیڑیوں کی ابھی تک ہوس پو ری نہیں ہو ئی اور مسلسل غزہ پر بمباری بلکہ فاسفورس بم استعمال کئے جا رہے ہیں، جو انسانیت کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔ اسرائیلی وحشی درندوں نے گزشتہ کئی دنوں سے جا ری جنگ میں اپنی بربریت و جارحیت کا مطاہرہ کرتے ہو ئے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے،جہاں اب انسان نہیں بلکہ وہ مردوں کے رہنے کی جگہ قبرستان کا منظر پیش کررہا ہے،آج غزہ میں انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کی جا رہی ہے،اور ان درندوں کو روکنے والا کوئی بھی نہیں،سینکڑوں کی تعداد میں ہماری فلسطینی ،مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ،بچے شہید ہو چکے ہیں،سفاک اسرائیل کی زمینی اور فضائی بمباری سے انسانی خون کی ندیاں بہادیں، کھنڈر بنی غزہ کی سرزمین آج حضرت انسان کی بے توقیری پر دہائی دے رہی ہے اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور اداروں سمیت دنیا کے کسی کونے میں ایسا تحرک پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا جو اسرائیلی صیہونیوں کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے برتری کے اور طاقت کے نشہ میں دھت پر انہیں جواب دے سکے اور فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے اٹھنے والے اسکے قدم اور ہاتھ روک سکے۔ یہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟عالمی میڈیا خاموش کیوں ہے؟اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہنے والا صیہونی امریکہ کیوں خاموش ہے؟کیا یہ کسی کی ماں نہیں،بیٹی نہیں،بہن نہیں،معصوم بچے کسی کی اولاد نہیں؟اسرائیلی حملوں کی بجائے مذمت کر نے کہ یہ طاقتیں اس کو تھپکی دیتی ہو ئی نظر آتی ہیں،اس بائولے درندے کے سامنے اقوام متحدہ ،عالمی برادری اور نام نہاد مسلم ممالک سب بے بس نظر آتے ہیں، انسانیت کیلئے یہ دوہرا معیار آخر کیوں ہے؟کیونکہ یہ مسلمان ہیں،اور رہی بات مسلم حکمرانوں کی تو وہ تو صرف بیانات میں مذمت کر نے کی حد تک ہیں،آج غزہ میں ،خوراک،ایندھن ،کی کمی ہے،انٹرنیٹ جیسی سہولت محروم ہے،غزہ کی مائیں ،بہنیں،بیٹیاں ،بھائی،معصوم بچے امداد کے منتظر ہیں لیکن کہیں بھی مسلم ممالک کی جانب سے کوئی خاطر خواہ امداد نہ پہنچ سکی،جو انتہائی دکھ کی بات ہے اور بڑا المیہ ہے ،فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،لیکن وحشی اسرائیلی درندے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے،بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے جو بہترین انصاف کر نے والا ہے،صیہونی و سامراجی گماشتوں نے غزہ پر بمباری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے آخری اطلاعات پر غزہ پر اس وقت کی شدید ترین فضائی و زمینی بمباری کی گئی جس میں اس وقت تک سات ہزار پانچ سو فلسطینی مرد و خواتین و بچے شہید ہو چکے ہیں جس میں تین ہزار پانچ پچانوے معصوم بچے ،ایک ہزار آٹھ سو تریسٹھ خواتین بھی شامل ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد بیس ہزار سے متجاوز ہے،اور ابھی تک دو ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہیں،ان درندوں کو یہ نہیں معلوم کہ جنگ میں عورتوں و بچوں کو قتل ممنوع ہے ،اسرائیل اپنی طاقت نشہ میں یہ چاہتا ہے کہ خواتین و بچوں کا قتل عام کر نے ان کی نسل کشی کی جائے لیکن ان شاء اللہ ایساکبھی نہیں ہو گا،اللہ تعالیٰ انہی مجاہد خواتین کے بطن کے مجاہد جوان پیدا کرے گا جو اسرائیل کی تباہی کا باعث بنیں گے،فلسطینی مائوں بہنوں،بیٹیوں نے قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کیلئے بے انتہا قربانی دی ہے اور دے رہی ہیں،اپنے بچے قربان کردیئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے رب کے حضور پیش ہوگئیں،ان شاء اللہ ہماری ان مائوں ،بہنوں،بیٹیوں،جوانوں،بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور یہ خون اس امت پر قرض ہے اور یہ خون ضرور انقلاب لا کر رہے گا، صیہونی درندوں نے ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے غزہ پٹی سے تمام سہولیات کو ختم کر دیا ہے،اس لئے صحافتی اداروں ،ایمبو لینس سروسز اور امدادی کارکنوں کو شد ید مشکلات کا سامنا ہے،مبصرین بھی انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں، دنیا بھرمیں فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ فلسطین کا پرچم لہرایا جا رہا ہے۔میں اس پرچم کو دیکھتا ہوں اور دل کو رہ رہ کر کچھ کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ اداسی اور کرب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر مسلمانوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس صہیونیوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور اس وقت سے لیکر آج تک مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن کے شہر’ دیہات’ کاروباری مراکز’ تعلیمی ادارے اور مساجد سمیت کوئی بھی پبلک مقام اور نجی عمارتیں اسرائیلی فوج کے حملوں میں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ غزہ کی سرزمین پر جو باشندے اس وقت زخمی اور بے یارومددگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں’ انہوں نے اپنی دھرتی کو اسرائیلی بمباری سے برباد ہوتے اور اپنے عزیزوں’ رشتہ داروں’ پیاروں کے جسموں کے چیتھڑے اڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ اپنے معصوم بچوں کے ادھڑے لاشے اٹھائے بے بسی کے عالم میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑتے ہیں تو یقیناً ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر آسمان بھی رونے لگتا ہوگا۔ مگر سفاک انسانوں کا دل پسیجتا نظر نہیں آرہا۔اقوام متحدہ کو اس حقیقت کا تو احساس ہے کہ فلسطینیوں کی غزہ میں اسی طرح ناکہ بندی جاری رکھی گئی اور انہیں ادویات اور کھانے پینے تک کی اشیاء سے مسلسل محروم کیا جاتا رہا تو وہ بہت جلد بھوک سے مرنے لگیں گے مگر زخموں سے چوور اور کرب و بلا میں ڈوبے ان انسانوں کو بچانے کیلئے کسی ملک’ کسی ادارے اور کسی تنظیم کو کوئی عملی اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہورہی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم فلسطینی مائوں،بہنوں،بیٹیوں،بچوں،جوانوں کی شہادت کو قبول فرمائے اور فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی غیب سے نصرت و مدد فرمائے اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اللہ ان کی بھی مدد فرمائے اور اللہ تعالیٰ اسرائیل اور اس کے حواریوں کو نیست و نابود فرمائے،آمین