دختران کی وراثت
شیئر کریں
وراثت کی منتقلی انسانی زندگی کا حصہ ہے اس کا غربت وامارت، بادشاہت ورعایا سے کوئی تعلق نہیں۔ جب عام آدمی کا ترکہ ورثاءمیں تقسیم ہوتا ہے تو صرف اثاثہ جات ہی تقسیم ہوتے ہیں، لیکن جب سیاستدان کا ترکہ تقسیم ہوتا ہے تو پھر خاندانی سیاسی پارٹی بھی ترکہ قرار پاتی ہے اور ورثاءکا استحقاق بن جاتی ہے۔ سمجھدار اور دوراندیش سیاستدان سیاسی ترکہ کی تقسیم کے لیے جانیشن کا انتخاب کر کے اس کی سیاسی تربیت شروع کر دیتے ہیں۔ برصغیر میں سیاسی ترکہ کی بنیاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رکھی، پنڈت جواہر لال نہرو کی نرینہ اولاد نہیں تھی، یوں اندرا فیروزگاندھی المعروف اندرا گاندھی پنڈت جی کی وارث قرار پائیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے 17 سالہ دور اقتدار میں اندرا گاندھی کی سیاسی تربیت کی اور اندرا گاندھی پنڈت جی کی سیاسی مشیر رہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے دیہانت کے بعد گلزاری لال نندا عبوری اور بعد ازاں لال بہادر شاستری وزیراعظم بنے تو اندرا گاندھی وزیراطلاعات مقرر ہوئیں اور بعدازاں لال بہادر شاستری کے دیہانت کے بعد وزیراعظم منتخب ہوئیں اور مختصر وقفوں کے سوااکتوبر 1984ءمیں اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہونے تک وزیراعظم رہیں۔ جس طرح پنڈت جواہر لال نہرو کے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس ہی طرح اندرا گاندھی کے کوئی بیٹی نہیں تھی، اندراگاندھی نے اپنا سیاسی وارث چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کو بنایا تھا مگر ہوائی حادثے میں سنجے گاندھی کی ہلاکت کے بعد راجیو گاندھی جو کمرشل پائلٹ کے طور پر انڈین ایئرلائنز میں ملازم تھے ،کو،اندرا گاندھی نے اپنا جانشین بنایا ،یوں وہ 31اکتوبر 1984ءمیں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد وزیر اعظم بنے اور 1989ءمیں تامل ناڈو میں خودکش حملہ کا شکار ہوئے۔بھارت کی طرح پاکستان میں بھی خاندانی اور موروثی سیاست عروج پر رہی ہے، قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کے بعد سے موروثی سیاست نے اپنی جگہ بنائی تھی لیکن اس کو عروج ذوالفقار علی بھٹو نے دیا ۔پنڈت جواہر لال نہرو کی مجبوری تھی کہ وہ اپنی دختر کو اپنا سیاسی جانشین بناتے کہ وہ اولاد نرینہ سے محروم تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے 2 بیٹے تھے اور دو بیٹیاں تھیں، بھٹو کی سب سے بڑی اولاد بے نظیر بھٹو تھیں اس کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو اور پھر صنم بھٹو، لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی جانشین کے طور پر میر مرتضیٰ یا میر شاہ نواز کے بجائے بے نظیر بھٹو کا انتخاب کیا۔ جب 1966ءمیں ذوالفقار علی بھٹو ڈیڈی جنرل ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہوئے (یہ استعفیٰ دیا نہیں گیا تھا)اس وقت بے نظیر13/14 سال کی تھیں1972ءمیں جب ذوالفقار علی بھٹو سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریڑ کے طور پر بھارت گئے اور شملہ میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سے مذاکرات ہوئے تو اس وقت بے نظیر بھٹو جو کیمبرج کی طالبہ تھیں، سیاسی مشیر کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے وفد کا حصہ تھیں، اس وقت بے نظیر بھٹو کی عمر 19 سال تھی جبکہ اس وقت انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اہلیت کم از کم 21 سال اور ممبراسمبلی کے امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی عمر 25 سال مقرر تھی۔شملہ مذاکرات سے بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت کا آغاز ہوا تھا، جو ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے محروم ہونے سے قبل تک ہونے والے ہر غیر ملکی دورے میں جاری رہی۔ جولائی 1977ءمیں پاکستان قومی اتحاد سے مذاکرات کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو اچانک لیبیا کے دورے پر گئے جو کہ ان کا آخری غیر ملکی دورہ ثابت ہوا اس وقت تک بے نظیر بھٹو غیر ملکی دورے میں وزیراعظم کی مشیر امور خارجہ کے طور پر وفد کا حصہ ہوتی تھیں۔
ضیاءالحق کی زندگی میں ان کی اولاد میں سے کوئی بھی سیاست میں داخل نہیں ہوا محمد خان جونیجو نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو سیاست کا حصہ نہیں بنایا ان کے انتقال کے بعد 2001ءکے بلدیاتی انتخابات میں صغریٰ جونیجو نے سیاست میں قدم رکھا لیکن ضلعی نظامت سے آگے کا سفر نہ کرسکیں اور گوشہ نشین ہو گئیں ،جبکہ اسد جونیجو سیاست کے خارزار سے دور ہی رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور میر مرتضیٰ بھٹو کی دختر بھی سیاست سے دور رہی ہیں مگر میر مرتضیٰ کی بیوہ غنویٰ بھٹو جان بہ لب پارٹی کی قائد ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے جب 1997ءمیں تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالا (1990ءسے اپریل 1993ءاور پھر مئی1993ءسے جولائی1993ء)تو اس وقت سے ہی نواز شریف نے مریم صفدر ،جواب مریم نواز کے نام کے ساتھ شناختی کارڈ کی حامل ہیں ،کو اپنا سیاسی جانشین بنانے کا فیصلہ کیا۔ 1999ءمیں اقتدار سے بے دخلی اور جیل یاترا کے دوران کلثوم نواز کے ساتھ مریم نواز بھی سرگرم رہیں اور 2013ءمیں میاں محمد نواز شریف کے چوتھی مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی مریم نواز کو عملاً اپنا سیاسی جانشین قرار دے دیا۔ حسن نواز اور حسین نواز کیوں محروم رکھے گئے، اس راز سے پردہ نواز شریف ہی اُٹھا سکتے تھے، روایتی طور پر فرزند ہی جانشین ہوتا ہے لیکن پاناما پیپرز نے اس راز کو عیاں کر دیا ہے کہ حسن نواز اور حسین نواز ،نواز شریف کی صنعتی سلطنت کے جانشین اور مریم نواز سیاسی سلطنت کی جانشین ہیں۔ دختران پر یہ نظر کرم کیوں ہے، اس کا جواب ذوالفقار علی بھٹو اور پنڈت جواہر لال نہرو تو نہیں دے سکتے نواز شریف جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں اور انہیں جواب ضرور دینا چاہیے۔
٭٭….٭٭