ملکی صورت حال اور نواز شریف کے دعوے!!
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک سے مفرور سربراہ نواز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر پی ڈی ایم ڈیفالٹ سے نہ بچاتی تو آج پیٹرول ایک ہزار روپے لیٹر ہوتا۔ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کے اس دعوے کا بھی اعادہ کیا کہ انھوں نے اپنی سیاست کو داؤ پر لگاکر ملک کو بچایاہے،نواز شریف اور ان کے بھائی کے پاس چونکہ اب عوام کے پاس لے کر جانے کیلئے کوئی منجن نہیں بچاہے، اس لیے وہ ایسی باتیں کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ شہباز شریف نے اپنی 16 ماہ کی حکومت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا،انھیں وسائل سے محروم اور بھیک مانگنے پر مجبور اس ملک کے خزانے پر 90 کے قریب وزرا،معاونین اور صلاح کاروں کی ایک فوج مسلط کرکے اور بلاضرورت غیرملکی دوروں پر بھاری بھرکم وفود کے ساتھ دورے کرکے اور اپنے وزرا اور معاونین کو دورے کراکے اس 16 ماہ کے دوران ملک کے خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔اس کے باوجود اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ملک کیلئے اپنی سیاست قربان کردی تو انھیں کون روک سکتاہے،ان کے اس دعوے کا جواب تو عوام،عام انتخابات میں دیں گے اور اسی خوف کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی بہانے انتخابات کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ موجودہ نگراں حکومت جو بظاہر ان ہی کے ایجنڈے پر کارفرما ہے اور جس میں ان کے کئی چہیتے اہم عہدوں پر متمکن ہیں، مہنگائی میں مزید اتنا اضافہ کر کے عوام کو پی ڈی ایم کی زیادتیاں فراموش کرنے پر مجبور کردے۔
آج اس ملک کی معیشت جس حالت میں ہے، اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ ملک اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو بھی دیوالیے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں۔اب عوام نہ تو اپنا کچن چلانے کے قابل ہیں نہ ہی بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں،نہ ہی ڈاکٹر اور اسپتال کو فیس دے کر علاج کرا سکتے ہیں۔ہر دو ہفتے بعد تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمت بھی بڑھائی جارہی ہیں۔پیارا ملک پاکستان اس وقت ہر سمت سے ایک نئے مسئلے کی لپیٹ میں ہے۔ ملکی قرضوں کی بات کی جائے توا سٹیٹ بینک کی حالیہ جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 60 ہزار 839 ارب روپے ہو جائے گا۔ یہ قرض کس کس نے لیا اور کتنا کتنا لیا، اس پر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان نے سب سے زیادہ قرض آئی ایم ایف کے پروگرام سے لیا ہے۔ آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ پاکستان پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس 1958 میں گیا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے تب ڈھائی کروڑ کا معاہدہ طے کیا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پاکستان نے پہلی دفعہ قرض لیا تھا تو اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جاتے اور ایسے حالات بنائے جاتے کہ پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا اس خیال کے بر عکس ہوا۔ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی اور آہستہ آہستہ پاکستان کا قرض خطرناک حد تک پہنچ گیا۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، پرویز مشرف، عمران خان، پی ڈی ایم ہر ایک نے آئی ایم سے قرض لیا جس کی وجہ سے آج اس ملک کے ہر بچے پر لاکھوں کا قرض ہے۔ ہر جماعت نے ملک کا قرض بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب یہ قرض آگے کس کس کو دیا گیا اور کہاں کہاں لگا،یہ ایک الگ بحث ہے۔ اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اس بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں، اگر کوئی محروم رہا تو وہ صرف بے چارے عوام ہیں۔ ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی بھی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے کوئی نیا پروگرام طے کرتی ہے تو اس کی تفصیلات کو منظرعام پر نہیں لایا جاتا اور اگر تفصیلات سامنے آتی بھی ہیں تو یا تو اس وقت تک سارا معاملہ طے ہو چکا ہوتا ہے یا اس سارے معاملے کو اتنی پیچیدگی سے بتایا جاتا ہے کہ جس کو سمجھنا عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ اس سب کی وجہ سے عوام کو یہی معلوم نہیں ہوتا کہ کس حکمران نے کتنا قرض لیا ہے اور یہ قرض کہاں استعمال ہوا؟ اگر پی ڈی ایم حکومت کی بات کی جائے تو اس حکومت نے سب سے زیادہ قرض لیا۔ پی ڈی ایم حکومت نے قرضوں میں روزانہ اوسطاً 41 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں بڑی لاپروائی سے قرض لیا جس کی وجہ سے پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات اب بڑھ کر 77.1 ٹریلین روپے ہو گئے ہیں۔ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے بعد ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر آج تک اس ملک نے اتنا بڑا قرض لیا ہے تو وہ پیسہ گیا کہاں؟ اتنے بڑے قرض کے بعد بھی عوام کی حالت ابتر کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب پاکستان کے ہر باسی کو معلوم ہے بس اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ صرف اتنا بڑا قرضہ ہی ہمارا مسئلہ نہیں ہے دن بہ دن بڑھتی ہوئی ڈالر کی قیمت بھی ہمارے لیے ایک درد سر ہے۔ جیسے ہی ڈالر کی قیمت میں ہلکی سی جنبش ہوتی ہے ملکی قرضوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سارے مسئلے کا ایک ہی حل ہے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ حالات کو اتنا سازگار بنایا جائے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہو اس سے ایک تو ملک میں ڈالر آئیں گے دوسرا ملک میں روزگاری کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ہمارے خیال میں نگران حکومت سے اتنی امیدیں لگانا درست نہیں۔ نگران حکومت اگر بجلی کے بلوں میں ہی عوام کو ریلیف دے دے تو بہت ہوگا جو کہ بہت مشکل نظر آتا ہے۔ آج ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ملک کے سارے مقتدر حلقے ایک جگہ پر بیٹھیں اور باہمی تعاون سے ملک کو درپیش مسائل کا حل نکالیں اور اگر ہم ایسا کرنے میں بھی ناکام رہے تو پھر ایک بات ہر ایک کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں اگر پاکستان نہیں ہے تو ہم کچھ بھی نہیں۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم سب ہوش کے ناخن لیں اور ملک کے حالات کا سوچیں۔آج معاشی بحران پر ماہرین معیشت بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کاسنجیدگی سے جائزہ لیاجائے کہ معیشت کو بحران سے نکالیں کیسے؟ ایسا کونسا لائحہ عمل ہو جو روشن باب کی عکاسی کرتا ہو۔ ایک ایسا دور آئے جو غربت کا خاتمہ کرے، پاکستان کا روپیہ ڈالر سے مضبوط ہوجائے، دنیا نوکری اور کاروبار کی تلاش میں پاکستان آئے، ایسے دور کیلئے کن کن اقدامات کی ضرورت ہے اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ تاریخ میں ہم نے کونسی غلطیاں کیں اور بحران آئے ان کا تذکرہ بھی اس طرح اہم ہے۔ غلطیوں سے سیکھ کر معاشی ترقی کی طرف بڑھیں گے۔سب سے پہلے دیانتدار اور قابل قیادت ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی قابل ذکر حکمران وطن عزیز کو نصیب نہیں ہوا۔ معاشی بحرانوں کے آنے اور جانے کا شروع سے علم ہونا ضروری ہے پھر ہم معاشی ترقی کیلئے حکمت عملی بنا سکتے ہیں، معاشی بحران پاکستان کے بننے سے پہلے ہی شروع ہوچکے تھے، جب تقسیم کا وقت آیا، پھر 1951 میں جب پاکستان میں پہلی مردم شماری ہوئی تو مغربی پاکستان کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ پناہ گزینوں پر مشتمل تھا۔ جبکہ بھارت میں اس کا تناسب 2 فیصد سے بھی کم تھا۔ ملک سے باہر پیدا ہونے والے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی پاکستانی معیشت اور اس کے سیاسی نظام کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو آباد کرنا پاکستان کی نئی حکومت کو درپیش بڑا بحران تھا۔لیکن لیاقت علی خان اور ان کے رفقا نے جن میں پیر الہٰی بخش جیسے سندھ کے نامور سپوت بھی شامل تھے مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ کسی طرح حل کرلیا،اس کے پاس پاکستان کی ترقی کا دور شروع ہونا تھا لیکن دشمنان ملت کو یہ بات پسند نہیں تھی اس لئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لیاقت علی خان کو ہم سے جدا کردیا گیا جس کے بعد ترقی کا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی رک گیا اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کے3 ادوار رہے ہیں 60 کی دہائی میں 80 کی دہائی میں اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں۔ ترقی کے ان ادوار میں مالی اعانت امریکہ سے آنے والی رقم سے ہوئی۔ ساٹھ کی دہائی میں، پاکستان نے روس کو جنوبی ایشیا میں پیش قدمی سے روکنے کے لیے امریکی قیادت میں 2دفاعی معاہدوں میں شمولیت اختیار کی۔ 1980 کی دہائی میں، پاکستان نے مجاہدین کے گروپوں کی مدد کی تاکہ وہ سوویت فوجیوں کو افغانستان سے نکال باہر کریں جنہوں نے 1979 میں ان کے ملک پر حملہ کیا تھا۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شمولیت اختیار کی۔اس دوران اگرچہ پاکستان میں صنعتی ترقی بھی ہوئی اور ان صنعتوں کی بدولت پاکستان میں دولت مندوں کا ایک ٹولہ پیداہوگیا لیکن بعد کی حکومتیں صنعتی ترقی کی اس رفتار کو نہ صرف برقرار نہیں رکھ سکیں بلکہ ان کی عدم توجہی کی وجہ سے پاکستان کی صنعتیں بحران کا شکار ہوتی گئیں اور بہت سے پاکستانی صنعت کار صورت حال سے مایوس ہوکر بیرون ملک منتقل ہوگئے اور ان میں سے بعض اب بیرون ملک بڑے سرمایہ کاروں میں شمار ہوتے ہیں،اس سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکلنے کیلئے سب سے پہلے اپنی مقامی صنعت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان صنعتوں میں تیار ہونے ولا مال برآمد کرکے زرمبادلہ کی آمدنی میں اس حد تک اضافہ کیاجاسکے کہ آئندہ کبھی پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ اس کے علاوہ ملک میں صنعتی ترقی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور بیروزگاری میں کمی سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے کیونکہ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک خواہ وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اپنے ملک کے تمام لوگوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم نہیں کرسکتا،کیونکہ سرکاری دفاتر میں ایک مخصوص حد تک ہی لوگوں کو کھپایا جاسکتاہے بصورت دیگر اس کا حشر بھی پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے جیسا ہی ہوگا، پاکستان کو نئے پلانٹ اور آلہ جات کی تنصیب کے ذریعے اپنی صنعتوں کو جدید تر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے انضمام میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ اس کیلئے پاکستان تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری کرسکتا ہے تاکہ مصنوعات کی ایجاد اور مزید پیداوار کو بڑھاوا دیا جاسکے۔ ان مسائل میں سب سے پہلے اور بڑا سوال برآمداتی سامان کی فہرست ہے جس میں کم قیمت ٹیکسٹائل، چاول، آلات جراحی، قالین، کھیلوں کا سامان اور چمڑے سے تیار اشیاء شامل ہیں پاکستانی برآمدات کے حجم کو وسعت دینے اور ان کیلئے نئی منازل جیسا کہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی ممالک کی تلاش غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدن کو نئی زندگی دے سکتی ہیں۔وصولی کے اہداف کے حصول کیلئے ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ لادنے کے بجائے مالی شفافیت کو بہتر بنانے اور قومی و صوبائی سطح پر ٹیکسوں کی وصولی میں ربط کو مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ اقدامات ملک میں کمزور حکومتوں کے سبب پیدا ہونے والے ان گنت مالی خسارے کے مسائل پر لمبے عرصے کیلئے قابو پانے میں مدد دیں گے۔ معاشی بدحالی کے تدارک کیلئے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔تمام درآمدات کو زیادہ سے زیادہ 40 ارب ڈالر تک محدود کیا جائے اور غیر ضروری اشیاکی درآمدات کو منجمد کیا جائے اور درآمدات کی اجازت کے بارے میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن قطعی قبول نہ کی جائے۔ ساتھ ہی برآمدات میں اضافہ کرنے کی بھی ضرورت ہے اس کیلئے برآمد کنندگان کو اضافی مراعات کی فراہمی اور صنعتی سامان سازی کے شعبے کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کے ذریعے زیادہ مسابقتی بنانے کی ضرورت ہے۔آگے بڑھنے کا واحد راستہ ”علم پر مبنی معیشت“ میں منتقلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سنگاپور، ایک ملک جو کسی بھی قسم کے قدرتی وسائل سے آراستہ نہیں، اس کی برآمدات تقریباً 400 ارب ڈالر سالانہ ہیں اس کی بہت آسان وجہ یہ ہے کہ سنگاپور کی حکومت ممتاز تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہے جہاں ہر متعلقہ شعبے کے ماہر ین متعین ہیں جن میں ایک ”علم پر مبنی معیشت“ کے اجزا کو سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ان ممالک کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہیں۔ ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت کے قیام کے لئے ایک تکنیکی ماہرین کا بورڈ تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو تبدیل کرنے کیلئے یہ اقدامات ضروری ہیں:(1) بنیادی، ثانوی، تکنیکی، کالج اور جامعہ کی تعلیم کیلئے انجینئرنگ کے علوم پر خاص توجہ کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پرسب سے زیادہ بجٹ رکھنا ہوگا۔ اس میں تمام اسکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نظام اور اہم حکومتی اصلاحات کی مکمل تبدیلی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں بیرون ملک،ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے بھیجے جانے والے طلباکی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ تربیت و تعلیم کے بعد ان کی اپنے وطن واپسی کویقینی بنانے کیلئے ان کیلئے ملازمتوں کے مناسب مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ وہ وطن واپس آکر اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس ملک کی تعمیر میں ہاتھ بٹاسکیں۔ ملک کو خوراک اوردرآمدی خام مال پر انحصار ختم کرنے کیلئے زرعی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا زرعی اور نہری نظام کو جدید نظام سے آراستہ کرنا ہوگا، تاکہ بنجر زمینوں کو آباد اور جنگلات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی احتساب کا نظام میرٹ کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا تاکہ کرپشن کو ختم کیا جاسکے۔ اس پروگرام پر عملدرآمد کیلئے ہمیں ایک صاحب بصیرت، دیانت دار اور قابل تکنیکی صلاحیتوں سے آراستہ حکومت کی ضرورت ہے جو دنیا میں سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے علم کے کردار کو سمجھ سکے۔لیکن دیکھا جائے تو گزشتہ 76 سال خاص طورپر گزشتہ 25-30 سال سے حکمرانی کے مزے لینے والی کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر میں یہ صلاحیت نہیں ہے،اس لئے عوام کو اب عام انتخابات میں صرف قابل اور مخلص رہنماؤں کو ہی منتخب کرکے ایوان اقتدار میں بھیجنے کی کوشش کرنا ہوگی۔