پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر20)
شیئر کریں
لیبیا کے صدر قذافی کے نام پر10 آف شور کمپنیاں کام کررہی تھیں
٭ ہم نے سربراہان مملکت کے نام کا ایک نیا ذیلی فولڈر بنایا اور قذافی لکھ کر جب بٹن دبایا تو”ورلڈ ووڈٹریڈز لمیٹڈ“ مون سلک لمیٹڈ، سرونٹ اسٹار کارپوریشن، برسٹوز کارپوریشن، ریجنسی بیلے کارپوریشن، سی فائر سسٹمز لمیٹڈ ،مارننگ اسٹار ٹیکنالوجی لمیٹڈ، پیسیفک مسٹ لمیٹڈ ،ایچ سی نومینیز (بی وی ایل ) لمیٹڈاورالبین انٹرنیشنل گروپ نامی کمپنیاں سامنے آئیں
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
اب ہمیں اپنے ڈیٹا کوسنبھالنے کیلیے 2معاونین کی خدمات حاصل ہوگئی تھیں اس لیے ہم نسبتاً فارغ تھے اس لیے ہم نے سوچا کہ دیکھا جائے کہ جرگن موزاک پاناما کیسے پہنچا تھا۔اس کیلیے ہم نے آرکائیو آفس سے کئی درخواستیں کیں ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا جرگن موزاک کے والد نازی تھے،اور کیا انھیںکسی خاص مقصد سے لاطینی امریکا بھیجاگیاتھا۔ہماری طلب کردہ معلومات پر ہمیں معلوم ہوا کہ ارحاد موزاک وافن ایس ایس میں تھا ۔فیڈرل آرکائیو سے ہمیں اس کاسروس کارڈ بھی مل گیا جس کے مطابق ارحاد کو ستمبر1944 میں”راٹن فیوہرر“ یعنی کارپورل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ہمیں ملنے والی معلومات کے مطابق ارحاد 16اپریل 1924 کو گروپ اریکا میں پیداہواتھا اور 15سال کی عمر میں ہٹلر کی نوجوانوں کی تنظیم میں شامل ہوگیاتھا جس کے بعد 18سال کی عمر میں وہ وافن ایس ایس میں شامل ہوا تھا ۔معلومات کے مطابق ارحاد موزاک نومبر 1942 کو ایس ایس ٹوٹن کوپف ڈویژن میں شامل ہوا یہ ڈویژن اس وقت چیکوسلواکیہ ،فن لینڈ اورناروے میں جنگ میں مصروف تھا کارپورل کے عہدے پر ترقی پانے کے چند دن بعد ہی اسے مارچ میں مغربی محاذ پر بھیج دیاگیا۔جہاں امریکی فوجیوں نے اسے قیدی بنالیا،لیکن اسی سال دسمبر میں وہ فرانس میں لی ہاور کے مقام پر قائم جنگی قیدیوں کے کیمپ سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔بعدازاں اسے 1946 میں گرفتار کیاگیا اس وقت امریکا کی کاﺅنٹر انٹیلی جنس کور کے ایک مخبر نے دعویٰ کیاتھا کہ ارحاد موزاک کے پاس ایک زیر زمین تنظیم سے منسلک لوگوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے ارحاد خود بھی اس تنظیم کارکن تھا۔ہٹلر کے نوجوانوں کی ٹیم میں شامل رہنے کی وجہ سے وہ اب بھی نازیوں کی دنیا میں ہی رہتاتھا ۔
اب ایک بڑا سوال یہ تھاکہ وافن ایس ایس سے تعلق رکھنے والے شخص کو امریکا میں داخلے کی اجازت کیسے مل گئی ؟۔اس کا جواب یہ تھا کہ جنگ کے بعد ارحاد نے اپنی پارٹی تبدیل کرلی تھی۔ہمیں اس حوالے سے گوگل پر ایسے لوگوں کے ناموں کی ایک فہرست ملی جنھوں نے جنگ کے بعد امریکا کی انٹیلی جنس سروس کی معاونت کی تھی ان میں ارحادکا نام بھی شامل تھا۔اس کے امیگریشن پرمٹ میں یہ تفصیلات درج تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکا میں داخلے کی اجازت ملی بصورت دیگر اسے کبھی بھی امریکا میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی اور وہ پاناما نہیں پہنچ سکتاتھا۔اس سے ظاہرہوتاتھا کہ وہ سی آئی کی سرپرستی میں امریکا میں داخل ہواتھا ۔اس وقت پاناما ایسے قومی سوشلسٹوں کی جنت تصور کیا جاتاتھا جنھیں بوجوہ امریکا میں قبول نہیں کیاجاتاتھا۔امریکی ادیب ایرک لچٹ بلو نے اپنی کتاب نازیوں کا دوسرا دروازہ میں اس حوالے سے متعدد مثالیں درج کی ہیں۔
ہمیں سی آئی اے کی ایک کیبل بھی مل گئی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ارحاد مخبر کی حیثیت سے سی آئی اے کیلیے کام کرتاتھا ،لیکن سی آئی اے کو یہ یقین نہیں تھا کہ ارحاد پر دوبارہ نازیوں کی سوچ غالب نہیں آجائے گی۔تاہم یہ ثابت ہوچکاتھا کہ ارحاد نے انٹیلی جنس سروسز کے ساتھ معاونت کی تھی یاکرتارہاتھا، پیٹر ارحاد موزاک نے 1965 میں یونین الیمانا ڈی ایکسپورٹیشن اےس اے کے نام سے ایک کمپنی قائم تھی۔وہ خود اس کمپنی کاچیئرمین اور ڈائریکٹر تھا جبکہ اس نے اپنی بیوی کو بھی اس کاڈائریکٹر بنایاتھا، 1970تک اس کمپنی کا دفتر کرائے کی جگہ پر قائم تھا۔
1989 میں جب لندن میں قائم وکلا کی ایک فرم 1960 میں قائم کی گئی کوئی کمپنی خریدنے میں دلچسپی لے رہی تھی جرگن موزاک اس کے بیٹے اور پاناما کنگ نے اپنی اس کمپنی کو 20 ہزار ڈالر میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ یہ کمپنی 1960 کی نہیں بلکہ اس کے 5سال بعد قائم کی گئی تھی اس لیے یہ سودا نہیں ہوسکا۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ لندن کی فرم 1960 میں قائم ہونے والی کمپنی کیوں خریدنا چاہتی تھی تواس سوال کاجواب یہ ملا کہ طویل عرصہ قبل قائم کی گئی کمپنیاں زیادہ معتبر تصور کی جاتی ہیں اور ان کے نام پر سرکاری ٹینڈرز کا حصول آسان ہوتاہے اور ٹینڈر ز دینے والے تجربہ کار کمپنیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
دراصل ہم فی الوقت وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عوامی زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوںکا کچا چھٹا معلوم کرنا تھا ،اس لیے ہم نے جرمنی کے تمام اہم سیاستدانوں، تجارتی اداروں کے سربراہوں ،کھیل کے شعبے سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور عوامی شخصیات کے نام شامل تھے۔ ہم سب سے زیادہ دولت مندوں، جرائم پیشہ عناصر اور دھوکہ بازوں کا پتہ چلانا چاہتے تھے۔ اس لیے ہماری کوشش تھی کہ ماضی میں اسکینڈلز، میں ملوث رہنے والے زیادہ سے زیادہ افراد کے نام مرتب کریں یعنی ہماری کوشش تھی کہ جرمنی کی معروف سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو عطیات کے اسکینڈل میں ملوث افراد جیسے لوگوں کا پتہ چلایاجائے۔
ہم اس فہرست میں شامل ناموں سے ان کاماضی معلوم کرناچاہتے تھے۔پارٹی کوعطیات دینے والے لوگوںکے حوالے سے ہماری تیار کردہ فہرست میں 130 افراد کے نام شامل تھے جبکہ سابق اسٹاسی حکام اور ان کے مبینہ مددگاروں کی فہرست میں مجموعی طورپر 94 ہزار856 افراد کے نام شامل تھے۔
اب ہم نے سربراہان مملکت کے نام کا ایک نیا ذیلی فولڈر بنایا اور قذافی لکھ کر جب بٹن دبایا تو”ولڈ ووڈٹریڈز لمیٹڈ“ مون سلک لمیٹڈ، سرونٹ اسٹار کارپوریشن، برسٹوز کارپوریشن، ریجنسی بیلے کارپوریشن، سی فائر سسٹمز لمیٹڈ ،مارننگ اسٹار ٹیکنالوجی لمیٹڈ، پیسیفک مسٹ لمیٹڈ ،ایچ سی نومینیز (بی وی ایل ) لمیٹڈاورالبین انٹرنیشنل گروپ نامی کمپنیاں سامنے آئیں۔ان کمپنیوں کی تفصیلات دیکھتے ہوئے ہمیں حکام کی جانب سے لکھے گئے متعدد خطوط نظر آئے جن سے ظاہرہوتاتھا کہ تفتیش کاروں نے یہ تصور کرلیا کہ یہ کمپنیاں علی ڈابائبا نامی ایک شخص کی ملکیت تھیں جو قذافی کے زیر انتظام جغرافیہ کے استاد تھے اور ڈیولپمنٹ آف ایڈمنسٹریٹو سینٹر نامی ادارے کا سربراہ تھا جو سرکاری خریداریوںکا سب سے بڑا ادارہ تھا۔
اب مئی کامہینہ اختتام کے قریب تھا او ر تفتیشی رپورٹنگ کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے اور لی مونڈے، گارجین، آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ ہماری تفتیشی رپورٹنگ میں شمولیت میں آمادگی کی تصدیق کرچکی تھیں،جبکہ سوئس سنڈے نیوز پیپر سونتاگ زیتانگ کو ابھی اس پروجیکٹ میں شمولیت کی منظوری کاانتظار تھا۔لیکن ہم نومبر میں اس کی اشاعت شروع کرنا چاہتے تھے۔اس کے معنی یہ تھے کہ اب ہمیں اپنا کام شروع کردینا چاہئے تھا۔اب ہمیں آپس میں ایک میٹنگ کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ہم اپنے منصوبے پر تبادلہ خیال کرکے ہر ایک کو اس کی ذمہ داری سونپ سکیںیعنی ہر ایک کی ذمہ داریوں کا تعین کیاجاسکے۔