میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مہنگائی کے خلاف کامیاب ہڑتال، حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار

مہنگائی کے خلاف کامیاب ہڑتال، حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار

جرات ڈیسک
پیر, ۴ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کے خلاف گزشتہ روز ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔اس موقع پرکراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ اور بسیں بھی معمول سے کم دیکھنے میں آئی۔ وکلا نے بھی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔ادھرکراچی تاجر ایکشن کمیٹی نے حکومت کو 72 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بجلی کے بلوں میں کیے گئے اضافوں کو واپس نہ لیا گیا تو ایک ہفتے سے 10 دن تک کے طویل دورانیے کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کریں گے، جس سے ملک کی تمام چھوٹی بڑی معاشی سرگرمیوں کا پہیہ جام ہوجائے گا، یہ الٹی میٹم کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کے کنوینر محمد رضوان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ حکومت بحران سے نکلنے کے لیے کوئی مناسب حل تلاش کرلے گی، کچھ روز کے بعد ہم اجلاس منعقد کرکے صورتحال کا جائزہ لیں گے، اور مناسب فیصلے کریں گے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال شیخ نے بھی کہا ہے کہ حکومت دیوار پر لکھے کو پڑھنے میں ناکام ہورہی ہے حکومت نے، دوبارہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم دینے کی بنیاد رکھ دی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کی برآمدات بری طرح سے متاثر ہوں گی،انھوں نے کہا کہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آؤٹ آف دا باکس حل ڈھونڈنے ہوں گے۔بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف عوام کا غم وغصہ بیجا نہیں ہے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شہباز حکومت نے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں 50 سے80 فیصد تک اضافے نے عوام کی چیخیں نکال دی تھیں،بعد ازاں نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی شہباز شریف کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ٹیرف میں ایک دفعہ پھر اضافہ کردیا،بجلی کے بلوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتاہے کہ کمرشل بلز پر78فیصد ٹیکسزجبکہ گھریلو صارفین پر ٹیکسز کی شرح 50 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔گزشتہ ڈیڑھ برس میں مختلف سلیبزکا ٹیرف 50 سے80 فیصد تک بڑھ چکا ہے، نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی قیمت80 فیصد تک بڑھی اور ٹیرف 10 روپے 91پیسے اضافے کے ساتھ فی یونٹ13 روپے48 پیسے سے بڑھ کر24 روپے39 پیسے ہوگیا۔200یونٹ تک کے بلز میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔جو یونٹ 18روپے95 پیسے کا تھا وہ11 روپے 91 پیسے اضافے کے ساتھ30 روپے 86 پیسے ہو گیا۔ 300 یونٹ والے صارفین کا ٹیرف12 روپے91 پیسے بڑھا،قیمت22 روپے14 پیسے سے بڑھ کر35 روپے 04پیسے یونٹ ہو گئی۔ 400یونٹ والوں کیلئے14 روپے41 پیسے اضافے کے ساتھ فی یونٹ بجلی39 روپے 94 پیسے کی ہو چکی، 500 یونٹ اوراس سے اوپر بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے ڈیڑھ سال میں فی یونٹ 15 روپے41 پیسے مہنگا ہوا ہے۔ 700 یونٹ سے اوپر والوں کا کو بجلی 50 روپے 63پیسے یونٹ مل رہی ہے۔ CGs بجلی بلوں میں بڑا اضافہ گزشتہ ڈیڑھ برس میں مختلف سلیبز کا ٹیرف50سے80فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ کمرشل بلز پر 78 فیصد ٹیکسز عائد ہیں گھریلو صارفین پر ٹیکسز کی شرح 50 فیصد سے زائد ہوگئی،اس صورت حال میں بے بس عوام کے پاس ہڑتال کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا،لیکن ایک جانب پوری قوم بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف احتجاج کر رہی ہے لیکن حکمرانوں کے بیانات اور انداز سے ایسا محسوس ہو رہا ہے بلکہ وہ ایسا محسوس کرا رہے ہیں کہ عوام کی حیثیت ان کے نزدیک کیڑے مکوڑوں کی طرح ہے۔ چنانچہ ایک جانب وزیر اعظم عوام کو دھمکی دے رہے ہیں اور دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کر دیا۔گویا ان کی بلا سے ہڑتال کرو یا خود کشی ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں کہ ایک طرف قوم چیخ رہی ہے بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ خودکشیاں ہو رہی ہیں اور وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ جہاں بل جلائے گئے بجلی بھی وہیں چوری ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی قوم پر پیٹرول کے نرخوں میں تقریباً15روپے اور ڈیزل کے نرخ میں ساڑھے18روپے اضافہ کر دیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے حکمران ٹولے کا علاج ایک دن کی ہڑتال نہیں ہے۔ انہیں ایوانوں میں ڈرایا بھی گیا ہے کہ انقلاب فرانس سے ڈروایسے مواقع پر جب عوام نکلتے ہیں تو ان کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کچھ سمجھنے کو تیارنہیں ہیں۔ عوام بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ ان کے پاس مقدمات درج کرانے کے سوا اور کیا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ چند ہزار لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کر لیں گے کچھ گرفتار ہو جائیں گے، کچھ کو سزا بھی ہو جائے گی۔ لیکن اس سے عوام کے غم وغصے میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوگا کیونکہ عوام جس عذاب میں گرفتار ہیں وہ خود کسی سزا سے کم نہیں۔ معاملہ صرف یہی نہیں ہوا ہے بلکہ ڈالر323 روپے کا ہو گیا ہے اور بالآخر پاکستانی روپیہ سری لنکا کے روپے سے بھی نیچے آ گیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں بھی تباہ کن مندی ہو گئی لیکن آئی ایم ایف کے نوکروں کو اس سے کیا غرض۔ انہیں تو یہ نہیں پتہ کہ ا صل مسائل کیا ہیں۔ جب وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ پہیہ جام کیا جائے۔ بلوں کا معاملہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔48گھنٹے میں ریلیف کا اعلان کریں گے۔ لیکن جس چیز میں قوم ریلیف مانگ رہی ہے اسے تو انہوں نے ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام کیا جائے لیکن شاید وہ نہیں جانتے بلکہ یقیناً نہیں جانتے کہ مہنگائی ہوتی کیا ہے۔اس سے تو لوگوں کا چولہا بجھ گیا ہے۔ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور یہ سوچنے کو بھی تیار نہیں کہ بھوک سے تڑپتے انسان بھوکے شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ا گر عوام اس بات کا جواب دینے پر تل گئے تو وزیر اعظم صاحب کو90 دن دور کی بات ہے48گھنٹے بھی منصب پر رہنا ممکن نہیں رہے گا اور پھر انھیں بھی شاید اسلام آباد سے گھر کے بجائے نواز شریف کی طرح بیرون ملک پناہ لینا پڑے،وہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوں کا معاملہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ شاید وہ کبھی بل ادا ہی نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بجلی گیس پیٹرول اورد یگر اشیاء کو خریدنا کیسا کام ہے۔ انہوں نے سب سے بڑی بات یہ کہی ہے کہ جہاں بل جلائے گئے ہیں بجلی چوری بھی وہیں ہوتی ہے۔ان کی یہ بات اس اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے کہ جہاں سے بجلی کے بلوں میں اضافے جیسے فیصلے کئے جاتے ہیں، بجلی کی چوری وہیں سے شروع ہوتی ہے۔مفت بجلی کا فیصلہ وہیں ہوتا ہے بجلی چوری صرف کنڈا مارنے کا نام نہیں۔ بجلی چوری یہ بھی ہے کہ قوم سے ٹیکس وصول کیا جائے اور اشرافیہ کو مفت بجلی، مفت پیٹرول، مفت ٹیلی فون، مفت سفر کی بے حساب سہولتیں فراہم کی جائیں۔ جس ملک کے وزیر کے نوکر وں کے گھر سے کھربوں روپے برآمد ہو رہے ہوں جس ملک کے ایک ایک وی آئی پی کے پاس بیرون ملک کئی کئی گھر ہوں اور جو مفت بجلی، پیٹرول اور سفر کے مزے لے رہے ہوں وہاں بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والے غریب عوام کی کیا وقعت ہوسکتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ نگراں وزیر اعظم کو عوام کے اس بھرپور احتجاج کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور اس ہڑتال کو فلم کا ٹریلر تصور کرکے عوام کے اس احتجاج کو پرامن رکھنے اور عوام کے دلوں میں امید کی شمع جلائے رکھنے کیلئے بروقت الیکشن کرانے کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ عوام کو اس ملک کی تباہی کے تمام ذمہ داروں کو مسترد کرکے گھر بھیجنے اور عوام کے حقیقی ہمدردوں کو اقتدار سونپنے کا موقع مل سکے۔ ہمارے خیال میں اب یہ کھیل ختم ہونا چاہیے کہ ہر آنے والا پچھلے پر ساری ذمہ داری عائد کرکے خود کو پاک دامن ثابت کرنے کی کوشش کرکے قومی خزانے کی لوٹ مار میں لگ جائے۔ اب اس باری باری کے کھیل سے کام نہیں چلے گا کیونکہ اب تمام چہرے عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ پی پی پی، مسلم لیگ پہلے باری باری بے نقاب ہوئے اور اب پی ڈی ایم کی حکومت میں تو سب ہی بے لباس ہوچکے ہیں،اقتدار کی طلب میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر عمران خاں کے ساتھ آنے والے الیکٹبلز نے 9 مئی کے بعد جس طرح کینچلی بدلی ہے اس سے ثابت ہوگیاکہ وہ مسلم لیگ اور پی پی پی کے نہیں رہے تو پی ٹی آئی کے کیوں کر رہ سکتے
ہیں۔ انھیں تو صرف اقتدار سے پیار ہے۔اقتدار جس طرف نظر آئے گا وہ اس طرف لڑھک جانے میں ہتک محسوس نہیں کریں گے۔ اس لئے اب عوام ایسے الیکٹیبلز کو بھی عام انتخابات میں ان کی اوقات یاد دلائیں گے۔ عوام نے حکمرانوں کے ظالمانہ بلکہ سفاکانہ فیصلوں کے خلاف ہڑتال کرکے اپنے غصے کا اظہار تو کردیا ہے لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ عام انتخابات میں ان گدھوں کو یکسر مسترد کرکے انھیں اس طرح رسوا کریں کہ وہ عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں جب تک عوام تمام سابق حکمرانوں کو مسترد نہیں کردیتے اس وقت تک ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔عوام کو اب اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات،محبتوں برادریوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مسائل حل کرنے کے لیے مخلص لوگوں کو اس بھاری اکثریت سے منتخب کرنا ہو گا کہ کوئی ان کے فیصلوں کی راہ نہ روک سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں