آئی ایم ایف سے قرض کا حصول
شیئر کریں
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹوبورڈ نے پاکستان کے ساتھ 3ارب ڈالر کے ا سٹینڈبائی پروگرام کی منظوری دینے کے ساتھ ہی اس پروگرام کے تحت پاکستان کو 1.2ارب ڈالر فوری طور پر جاری کردیے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ ا سٹینڈ بائی معاہدے کا مقصد پاکستان کے معاشی اصلاحات کے پروگرام،معیشت کو استحکام دینا،مختلف کس قسم کے خطرات کے خلاف حفاظت فراہم کرنا اور ملک کے عوام کے لیے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کو مشکل معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔اس معاہدے سے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی عدم توازن کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے کثیر الاقوامی اداروں اور پارٹنرز سے مالی مدد کے حصول کے لیے ایک فریم ورک دستیاب ہوگا۔آئی ایم ایف سے قرض کے اجرا کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کو موصول ہوگئے ہیں۔ بدھ کو سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ ا سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کی منظوری سے فوری سے درمیانی مدت کے معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی اقتصادی پوزیشن کو تقویت ملے گی اور آئندہ حکومت کو آگے بڑھنے کے لیے مالیاتی وسائل میسر آئیں گے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کا 3 ارب ڈالرز قرض جاری کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یہ تنبیہ کی ہے کہ پاکستان کوبجٹ اہداف پر عملدرآمد‘طے شدہ پالیسیوں پر سختی سے کاربند رہنااورمالیاتی نظم وضبط بہتر بنانا ہوگا‘ پاکستان کو سخت مانیٹری پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ادارہ جاتی اور توانائی شعبے کیلئے مزید اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ بیسڈ کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوانے کہاہے کہ نیاپروگرام پاکستان کیلئے میکرو اکنامک استحکام لانیکا موقع ہے‘پاکستان کو اس پروگرام پر پوری لگن سے عمل کرنا ہوگا‘ بجٹ 2024 کے ذریعے پرائمری سرپلس مالی استحکام کی جانب خوش آئندقدم ہے
آئی ایم ایف نے اس قرض کے اجرا سے قبل ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں خاص طورپر حکومت کی جانب سے راندہ درگاہ بنانے کی کوششوں کی ہدف تحریک انصاف کے سربراہ سے بھی اس معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت مانگی تھی۔ اس اعتبار سے تحریک انصاف کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تعاون کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ اس پر کوئی اعتراض کردیتے تو شاید یہ معاہدہ ایک دفعہ پھر لٹک جاتا،قرض کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ملک کی خاص طور پر حکومت کے عتاب کی شکار سیاسی پارٹی سے صلاح مشورے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت اور سیاسی کشیدگی میں آئی ایم ایف محض ایک ایسی حکومت کے ساتھ اتفاق کرنا کافی نہیں سمجھتا جس کی عوامی سطح پر پزیرائی نہ ہونے کے برابر ہو اور جس کے اقتدار کی سانسیں بھی آخر ی لمحات میں داخل ہورہی ہوں۔اس لیے آئی ایم ایف نے سیاسی استحکام کے ملفوف مشورے دیے لیکن حکومت نے ان مشوروں پر کان نہیں دھر ا اور یوں آئی ایم ایف کو آگے بڑھ کر ”میثاق معیشت“کے اس تصور کو عملی جامہ پہنانا پڑا جس کی تجویز شہباز شریف وزیر اعظم بننے سے پہلے پیش کرتے چلے آئے تھے۔وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے میثاق معیشت کو بھول بھال کر سیاسی حریف جماعت کو کچلنے کا کام سنبھال لیا۔ ڈیڑھ سال سے پی ڈی ایم کی حکومت نے دل سوزی اورعرق ریزی سے صر ف دو ہی کام کیے ہیں۔ اول یہ کہ حکمران اتحاد میں شامل رہنماؤں پر قائم بدعنوانی کے مقدمات کا خاتمہ دوئم یہ کہ سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کودبانا۔اس سے آدھی توجہ معیشت پر دی گئی ہوتی تو آج رضا ربانی کو آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہہ نہ دینا پڑتی۔آئی ایم ایف کے وفد کی پیپلزپارٹی کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات خبر نہ بن سکی کیونکہ پیپلزپارٹی اس وقت حکومت کا حصہ ہے اور اس کے وزیر تجارت سید نوید قمرآئی ایم ایف سے ملاقات کرنے والوں میں خود بھی شامل تھے۔پیپلزپارٹی سے ملاقات کا مطلب حکومت سے ہی ملاقات ہے مگر اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف آمدہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ایک کیمپ میں کھڑا نہیں دیکھ رہا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آئی ایم ایف کو حکومت میں شریک ایک جماعت سے بات چیت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اسحاق ڈار سے ہونے والے مذاکرات کا مطلب حکومت سے مذاکرات تھا اور حکومت کا مطلب مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے غالب حصے کی حکومت ہے۔ آئی ایم ایف نے ان مذاکرات کو پوری حکومتی سیاسی قیادت کا فیصلہ نہ جان کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قربتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ آئی ایم ایف کی اصل ملاقات وہ تھی جو لاہور کے زمان پارک میں ہوئی اور اس نے ملکی کی سیاست کے موجودہ سیاسی منظراور بیانیوں کی جنگ کا میدان ہی بدل ڈالا۔جس طرح آئی ایم ایف کے وفد کا پیپلزپارٹی کے وفد کے ساتھ ملاقات میں خبرنہیں تھی اسی طرح اس وفد کی زمان پارک کی یاتر اایک بہت بڑی خبرثابت ہوئی ہے۔حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی رنگ سے آؤٹ کرنے کا تہیہ کیے بیٹھی ہے اور بلکہ اپنے تئیں پارٹی کا تیا پانچہ کر چکی ہے۔پارٹی کے ہزاروں افراد جیلوں میں ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔پارٹی کے سربراہ پر قائم مقدمات کی تعدادغالباً 200سے تجاوز کرچکی ہیں اور ان کی صبحیں اور شامیں عدالتوں کے کٹہروں میں اپنی صفائیاں دینے میں گزر تی جا رہی ہیں۔میڈیا پر ان کا نام لینا ممنوع ہے اور آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات میں ایک ٹی وی چینل نے جس طرح عمران خان کی تصویر کو دھندلا کیا اس نے سنسر شپ کو کہانی کو ایک نیا رنگ وآہنگ دیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے دور میں یہ سنسر شپ کی تاریخ کا ایک نیا دور اور انداز ہے۔حد تو یہ کہ ٹی وی چینل پر کرکٹ کی ڈاکیو منٹریز میں بھی ایک سبز سا ہیولا ہاتھوں میں ورلڈ کپ اُٹھائے میدان میں فاتحانہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے۔خود فریبی سی خود فریبی ہے کہ ان حیلوں بہانوں سے تاریخ کا دھارا موڑا جا سکتا ہے۔سیاسی عداوت میں اپنی تاریخ کو کھرچنا کس قدر عجیب رویہ ہے۔حکومت نے پی ٹی آئی کوایک سیاسی جماعت کی بجائے شرپسندوں کا ٹولہ،ماسٹر مائنڈ اور فتنہ سمیت کئی موٹی موٹی اصطلاحات اور القابات سے نواز رکھا ہے۔عمران خان کو سیاست سے باہر کی دنیا کا آدمی قرار دے کر سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ ایسے میں آئی ایم ایف کا وفد اہتمام کے ساتھ زمان پارک کی یاترا کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عالمی اقتصادی ادارہ سرکاری بیانیے کو قبول نہیں کررہا اور حکومت کی تمام کوششوں کے باجود زمان پارک جانے سے رکتانہیں۔جس سے یہ مترشح ہے کہ عالمی اقتصادی ادارہ جو اس وقت پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے آگے بھی معاملات طے کر نے پر مجبور ہے اور پی ٹی آئی کے معاملے میں حکومت کے بیانیوں کو قابل اعتنا سمجھنے کے بجائے پاکستان کے زمینی حقائق پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور پاکستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت پوری قوت کے باوجود عمران خان کو سیاسی منظر سے غائب نہیں کر سکی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں ان کی مقبولیت بلند سے بلند تر ہو رہی ہے۔حکومت نے عمران خان کی پارٹی کو تو مینج کر لیا ہے مگر ان کے ووٹر کو کیسے مینج کیا جائے گا؟آئی ایم ایف جس پس منظر کا حامل ادارہ ہے اس میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی شخصیت سے ملاقات کرکے اسے جوازیت عطا کرے جسے وہ دہشت گردی شرپسند اور کسی تشدد کا ماسٹر مائنڈ سمجھتا ہو۔گویا کہ حکومت کا موقف عالمی سطح پر من وعن تسلیم نہیں کیا گیا ہے بلکہ پاکستانی میڈیا سے غائب ہونے کے بعد عمران خان نے اپنا مقدمہ عالمی میڈیا میں لڑنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ اپنا رنگ دکھانے لگا ہے اور عالمی سطح پر انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کی بجائے اب سول سپر میسی کے نئے علمبردار کے طور پر دیکھنے کا رجحان پیدا ہونے لگا ہے۔ایسے میں عمران خان نے یقیناآئی ایم ایف کے وفد کو حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تمام گلے شکوؤں سے بھی آگاہ کیا ہوگا لیکن ان تمام کے باوجود معاہدے کی حمایت کا مشروط اعلان کرکے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیااور ان کی اس ضمانت کے بعد ہی آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل سکی ہے۔یوں اسحاق ڈار کی تجویز یعنی میثاق معیشت کو عملی جامہ پہنایا گیا مگر یہ کام حکومت کے بجائے آئی ایم ایف نے براہ راست کر لیا جس پر سینیٹر رضا ربانی بے ساختہ بول پڑے کہ آئی ایم ایف کی ملاقاتوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی واپسی ہوئی ہے جو نامورلوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتی تھی کہ وہ کمپنی کے فیصلوں کی حمایت کریں۔انہوں نے اسے پاکستان کی سیاسی خود مختاری کے زوال پزیر ہونے سے تعبیر کیا۔رضا ربانی اگر اس کا تاریخی جائزہ لیتے تو اچھا تھا کہ ملک کی سیاسی خودمختاری کے لڑھکاؤ کا عمل اسی وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرض لے کر اس سے عیاشیوں کا راستہ اپنایا تھا۔پاکستان میں آئی ایم ایف کا قرض دینے سے پہلے سیاسی جماعتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے کی مثال پہلے موجود نہیں۔البتہ چیمبر زآف کامرس مزدور یونینوں سمیت معاشرے کے دوسرے طبقات سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط سے کسی نہ کسی حد تک براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔حکومت نے سیاسی اور معاشی استحکام کے قیام کا موقع ضائع کردیا او رچارو ناچار یہ کام آئی ایم ایف نے خود سنبھال لیا اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔