راہ عزیمت کا مسافر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
راہ عظیمت کا عظیم مسافر مرددرویش، مرد مجاہد ڈاکٹر نذیر احمد ایم این اے جنہیں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ہدایت پر ڈیرہ غازی خان میں مسلح افراد نے شہید کر دیا تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما تھے جنہوں نے صوبہ بہار کے آفت زدہ علاقوں میں 1946 میں دن رات امدادی کام کیا تھا اور جب مقبوضہ کشمیر میں کشمیری ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جہاد میں مصروف تھے تو انہوں نے جہاد میں حصہ لیا تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد نے 1970ء کے انتخابات میں،ڈیرہ غازیخان سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔یہ تمنداروں اور جاگیرداروں کے زیراثر حلقہ تھا۔ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے علاوہ دومذہبی جماعتیں بھی تھیں جو ان کی مذہبی جماعت کے سخت خلاف تھیں اس حلقہ کے سرکاری نتائج اس طرح تھے۔ڈاکٹر نذیر احمد جماعت اسلامی 32827 ووٹ، خواجہ قطب الدین (ایم جے یوپی) 30155 ووٹ، منظور احمد لنڈ(پی پی پی )23625ووٹ، محمد عبدالستار (جے یو آئی) 21477 ووٹ ، محمد خان لغاری (آزاد)19090ووٹ ۔ان میں آخرالذکر ہارنے والے سابق صدر اور چوٹی کے سردار فاروق خان لغاری کے والد سردار محمدخان لغاری آزاد امیدوار تھے۔
اس وقت ضلع ڈیرہ غازی خان میں قومی اسمبلی کے دو حلقے تھے۔ تحصیل ڈیرہ غازیخان میں ڈاکٹرنذیر احمد الیکشن لڑ رہے تھے تو تحصیل راجن پور کے حلقے میں سردار شیر باز خان مزاری کو انتخاب لڑنے پر آمادہ کیا ۔ ڈاکٹرنذیر احمد نے پورے ضلع میں دن رات انتخابی مہم چلائی اور سردار شیر باز خان مزاری بھی پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حالانکہ ڈاکٹرنذیر احمد کے مقابلے میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے والد محمد خان لغاری امیدوار تھے۔ وہ علاقے کے ایک بہت بڑے جاگیردار تھے اور یہ علاقہ لغاری خاندان کا مخصوص حلقہ تھا۔ اس حلقے میں 1946 میں سردار جمال خان لغاری پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس کے بعد اس حلقے سے محمد خان لغاری بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔ڈاکٹرنذیر احمد لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے ڈیرہ غازیخان میں ہر گاؤں، قصبے اور ہر علاقے میں برسوں دن رات کام کیا تھا اور وہ اپنے علاقے کے مقبول ترین سیاسی رہنما تھے جنہوںنے بھاری اکثریت سے محمد خان لغاری کو شکست دی۔
راقم الحروف کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا وہ دن بخوبی یاد ہے جب بھٹو صاحب مرحوم نے اسمبلی میں اپنی قمیض اتار کر کمر دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے جمہوریت کیلئے بڑی ماریں کھائی ہیں۔ اس ایوان میں جماعت اسلامی کے رکن ڈاکٹرنذیر احمد بھی موجود تھے انہوں نے بھٹو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صاحب کمر پر چوٹیں بھاگنے والوں کو لگتی ہیں۔ اگر زخم سینے پر کھایا ہے تو دکھائیں۔ بھٹو صاحب خاموش ہوگئے اور چند روز بعد بھٹوصاحب کی ہدایت پر ڈاکٹرنذیر احمد کو شہید کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس مرد درویش کی لاج رکھ لی۔ دو گولیاں ان کے سینے پر اور ایک گولی پیشانی پر لگی۔
شہید تیرے لہو کی خوشبو فلک کے دامن سے آرہی ہے
شہادت سے چند روز قبل مجھے پختہ یقین تھا کہ وزیر اعظم بھٹو ڈاکٹرنذیر احمد کو چند روز میں شہید کرادیں گے۔ ڈاکٹرنذیر احمد ملتان آئے ہوئے تھے ۔ میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان کو تنہائی میں ملاقات پر آمادہ کیا۔ ہم شیر شاہ روڈ پر واقع گلڈ ہوٹل میں بیٹھے۔ میں نے اشاروں کنایوں میں تمہید باندھ کر ڈاکٹرنذیر احمد سے کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ بھٹو صاحب آپ کو قتل کرانا چاہتے ہیں اور مصطفی کھر کو یہ مشن سونپا گیا ہے۔ انہوں نے ڈیرہ غازیخان کے چند بدنام بدمعاشوں کو آپ پر حملہ کرنے کیلئے تیار کر لیا ہے۔ میںنے ڈاکٹرنذیر احمد سے کہا کہ آپ احتیاط سے کام لیں اور ڈیرہ غازیخان زیادہ وقت گزارنے کی بجائے حفظ ماتقدم کے طور پر لاہور، ملتان یا کسی دوسرے علاقے میں جماعت کے کام میں مصروف رہیں تو بہتر ہوگا۔ ڈاکٹرنذیر احمد صاحب میری طویل گفتگو سن کر کہنے لگے کہ ریاض صاحب جو رات قبر میں آنی ہے وہ آکر ہی رہے گی۔ میں موت کے خوف سے ڈیرہ غازیخان نہیں چھوڑ سکتا۔ بھٹو صاحب کی ہدایت پر 8 جون 1972 کو علاقے کے بدمعاشوں نے فائرنگ کر کے ڈاکٹر صاحب کو شہید کر دیا۔ڈاکٹرنذیر احمد کی شہادت کی خبر جب ڈیرہ غازیخان، راجن پور، تونسہ شریف، جام پور، روجھان کے تمام قصبات و چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک پہنچی تو ان کی شہادت پر صف ماتم بچھ گئی۔ اس روز میڈیکل سٹور، فروٹ و سبزی کی دکانیں، حتیٰ کہ حجام، ترکھان، لوہار اور چھوٹے موٹے ہوٹل بھی بند ہوگئے۔ میںنے اپنی زندگی میں ڈیرہ غازیخان کے علاقے میں اتنا بڑا سوگ کسی بڑے سے بڑے قومی رہنما کی رحلت پر نہیں دیکھا۔
ہمارے محترم دوست اور ممتازدانشور جناب جاوید اختر ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے جنازے کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اپنے چند بزرگوں کے ساتھ ان کے جنازے میں شرکت کے لئے ،بذریعہ ٹرین ڈیرہ پہنچا تھا۔جس تانگے پر ہم ان کے گھر جانے کے لئے سوار ہوئے،میلے کچیلے کپڑوں میں اس کا کوچوان زاروقطار رو رہا تھا،مجھے اس کی ہچکیوں میں سے خودکلامی کرتی یہ آوازآج بھی یاد ھے”(ہائے ڈاکٹرا،نہ آپ ممبر بنتے نہ آپ کو گولی لگتی)۔
ڈاکٹرنذیر احمد ڈیرہ غازیخان کے مقبول ترین رہنما تھے انہوں نے اپنی بیٹیوں کے نکاح کیلئے جو جہیز تیار کیے تھے وہ بھی غریبوں کی بیٹیوں کی شادیوں میں بطور تحفہ دے دئے۔1965 کی جنگ کے دوران ڈی سی نے مالی امداددینے کیلئے علاقے کے لوگوں کا اجلاس منعقد کیا تو ڈاکٹرنذیر احمد نے اپنا سارا گھر بار بطور امداد پیش کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ملتان کے اخبارات ، روزنامہ امروز، کوہستان اور روزنامہ نوائے وقت میں شہ سرخیاں لگی تھیں۔
صدیق کیلئے ہے خدا کا رسولۖ بس
1970 کے انتخابات سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں مارشل لاء نافذ کر کے اقتدا ر سنبھال لیا تھا اور 70 کے انتخابات سے قبل ڈاکٹرنذیر احمد نے ڈیرہ غازیخان میں جمعہ کا خطبہ دیا تو ڈیرہ غازیخان کے قادیانی اے ڈی ایم اسلم ورک نے مارشل لاء کے ضابطہ نمبر5 کے تحت ڈاکٹرنذیر احمد کو گرفتار کر لیا۔ ان پر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پر تنقید کا الزام عائد کیا تھا اور اس الزام کی سزا موت تھی۔
راقم الحروف روزنامہ جسارت ملتان کا ایڈیٹر تھا۔ ڈاکٹرنذیر احمد صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی میاں محمد رمضان ایڈووکیٹ کو میرے پاس بھیجا جنہوں نے مجھے ڈاکٹر صاحب کی گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہدایت کی ہے کہ میں صرف آپ سے رجوع کروں اور آپ جیسا مناسب سمجھیں ، حکام سے رجوع کریں۔ راقم الحروف نے اسی وقت ملتان کے فرسٹ آرمرڈ ویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا کو فون کیا۔ انہوں نے مجھے فوراً اپنے دفتر میں بلا لیا۔ میںنے جنرل صاحب کو ڈاکٹرنذیر احمد کی جھوٹے الزام میں ناجائز گرفتاری کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اسلم ورک بہت بدنام قادیانی ہے جو اکثر اسلام کے منافی حرکات و سکنات میں مصروف رہتا ہے۔ میں نے جنرل صاحب کو یہ بھی بتایا کہ لاہور کے گالف روڈ پر واقع ڈپٹی کمشنر حفیظ اللہ اسحاق کے ساتھ ملتا رہتا ہے اور دونوں ناؤ و نوش کی محفلیں بھی سجاتے رہتے ہیں۔ میری لاہور میں حفیظ اللہ سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ لاہور کے ڈی سی ہاؤس میں میرا ایک دن جانا ہوا تو وہاں اسلم ورک اور ٹکا اقبال خان (عارف والا) بھی موجود تھے اور ناؤ و نوش میں مشغول تھے۔ میں نے جنرل مٹھا سے بات کی تو انہوں نے اپنے سٹاف آفیسر کرنل ضیاء الحق کو طلب کر کے ہدایت کی کہ ڈیرہ غازیخان کے ڈپٹی کمشنر کو بذریعہ ٹیلی گرام اطلاع کریں کہ ڈاکٹرنذیر احمد کو رہا کر کے ان کے خلاف مقدمے کی ایف آئی آر دوسرے روز صبح 8 بجے ہر صورت پہنچ جانی چاہیے۔ ان دنوں ڈیرہ غازیخان وائر لیس کے ذریعے بات ہوتی تھی۔ شام کو کرنل ضیاء الحق کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو رہا کردیا گیا ہے اور جنرل صاحب نے کہا کہ آپ صبح بروقت ان کے دفتر میں پہنچ جائیں۔ میں اگلی صبح ان کے دفتر پہنچا تو انہوں نے ایف آئی آر منسوخ کر کے میز کے ایک جانب رکھ چھوڑی تھی۔ میں چائے پی کر نکلا تو کرنل ضیاء الحق مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو جانتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بڑے اچھے دوست ہیں۔ تو کرنل صاحب نے کہا کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ آپ میری ان سے ملاقات کر وادیں۔ میںنے ملاقات کی حامی بھر لی اور ملاقات کروا دی۔
یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے والد کا خاندان قیام پاکستان سے بہت پہلے ڈی جی خان میںمنتقل ہوگیا تھا۔ کرنل ضیاء الحق کا تعلق بھی جالندھر کے آرائیں خاندان سے تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کے سماجی خدمات سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے وہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے متمنی تھے۔
٭٭٭