میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ قسط28

سفر یاد۔۔۔ قسط28

منتظم
هفته, ۱۷ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
خان صاحب نے کھانا پکانے کا کام اپنے ذمے لے لیا تھا۔ خان صاحب کی وجہ سے ایک ہفتے تک کڑک چائے بھی پینے کو ملتی رہی۔انہوں نے کیمپ کے دیگر مکینوں سے بھی دوستی کر لی تھی جس کی وجہ سے ہماری بھی کئی لوگوں سے سلام دعا ہو گئی تھی۔کھانا ہم مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے تھے ،مغرب کے بعد گلزار کی طرف جانا بھی برقرا ر رہا ، ہم گلزار کے لیے بھی کھانا ساتھ لے جاتے تھے۔کالج سے آنے کے بعد وقت اچھا کٹ رہا تھا، لیکن یہ اچھا وقت صرف دس دن ہی برقرار رہا۔ کالج میں ویلڈنگ کا کام ختم ہو چکا تھا جس کے بعد انہیں واپس اپنی سائٹ پرجانا تھا۔دسویں دن خان صاحب ہمارے ساتھ کالج گئے ضرور لیکن واپسی پر ہمارے ساتھ نہیں تھے۔چھٹی کے وقت ان کی سائٹ سے گاڑی نہیں لینے آگئی تھی۔ ہم اور جلال صاحب خان صاحب کو الوداع کہنے کے لیے پارکنگ تک ان کے ساتھ گئے۔عجیب جذباتی ماحول بن گیا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی عزیز بچھڑ رہا ہو، صرف دس دن کا ساتھ تھا ، زبان، تعلیم اور عمروں کا فرق بھی تھا،لیکن صرف پاکستانی ہونے کے ناتے خان صاحب سے ایسا تعلق بن گیا تھا کہ ان کے جانے پر دل اداسی کے اتھا سمندر میں ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا۔خان صاحب بالکل نارمل تھے ان کے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ویسے خان صاحب خوش تھے کہ کام سے جان چھوٹی یہاں کالج میں انہیں ویلڈنگ کا کام کرنا پڑا تھا وہاں اپنی سائٹ پر وہ چائے بناتے تھے پلاتے تھے اور خود بھی چائے پینے میں وقت گزارتے تھے۔ خان صاحب اپنی سائٹ کو وہاں کے دوستوں کو مسِ کر رہے تھے اس لیے یہاں سے جاتے ہوئے ہہت خوش تھے۔
ہمارے لیے شاید خان صاحب کا جانا اس لیے بھی سوہان روح بنا ہوا تھا کہ ان کے جانے کے بعد کیمپ میں پھر اکیلیے پاکستانی رہ جاتے۔ پھر وہی بوریت پھر وہی تنہائی کا احساس ، گلزار ضرور موجود تھا لیکن خان صاحب کے کیمپ میں ہوتے ہوئے ہم نے گلزار کو کچھ نظر انداز کردیا تھا، اب سوچ رہے تھے کہ دوبارہ گلزار کی طرف جائیں گے تو وہ کیا سوچے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ خان صاحب گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی روانہ ہوگئی۔ ہماری آنکھیں بھیگ گئیں۔ جلال صاحب نے ہمیں دلاسے دینا شروع کردیا وہ سمجھا رہے تھے میاں یہ بھی کوئی رونے والی بات ہے پردیس میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں یہاں کوئی دوستیاں اور حالات مستقل نہیں رہتے۔ کیوں دل جلا رہے ہو تم نے یہیں رہنا ہے اور ایسے ہی رہنا ہے اس لے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ خان صاحب کی گاڑی جا چکی تھی،ہماری بس بھی نکل چکی تھی، جلال صاحب کی گاڑی ان کی وجہ سے رکی ہوئی تھی اور جلال صاحب ہماری وجہ سے رکے ہوئے تھے۔
ہم نے کہا جلال صاحب آپ جائیے گاڑی میں سب انتظار کررہے ہیں۔ جلال صاحب نے کچھ سوچاپھر بولے چلو تم بھی ہمارے ساتھ چلو تم کو ریاض شہر دکھاتے ہیں رات کا کھانا بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا۔ ہم نے انکار کیا لیکن جلال صاحب کے اصرار کے آگے ہار مان لی۔ ہم اور جلال صاحب گاڑی میں جا بیٹھے۔ گاڑی نے کالج سے نکل کر مکہ روڈ پر دوڑنے لگی۔ یہ کافی چوڑی شاہ راہ ہے جس کے دونوں طرف مشہور کمپنیوں کے دفاتر اور ویئرہاوس بنے ہوئے ہیں، اس سڑک پر گاڑیوں کے مشہور برانڈز کے شو رومز بھی کافی نظر آرہے تھے۔ آگے جا کر شہری آبادی بڑھتی گئی پھر ہم انتہائی گنجان آباد علاقے میں پہنچ گئے۔ ہم بطحہ بازارکے قریب سے گزر رہے تھے یہ وہی جگہ تھی جہاں ریاض آمد کے بعد ہم ایک ہوٹل اپارٹمنٹ میں ٹہرائے گئے تھے۔ ہم بیس دن بعد دوبارہ اس علاقے کو دیکھ رہے تھے لیکن سب کچھ اجنبی لگ رہا تھا، یہاں قریب ہی ہمارے دوست امین کی رہائش تھی، جلال صاحب نے سچ کہا تھا دوست، تعلق، ماحول اور موسم سب بدل جاتے ہیں۔ جلال صاحب ہم سے باتیں کیے جا رہے تھے لیکن ہمارا ذہن کہیں اور کھویا ہوا تھا ہم ہاں ہوں میں جواب دے رہے تھے۔ گاڑی لوگوں کو اتارنے کے لیے کہیں رکتی تھی تو ہماری سوچ کو بھی بریک لگ جاتی ہے۔ بطحہ کے بعد گاڑی میں صرف ہم اور جلال صاحب رہ گئے تھے۔ گاڑی ایک گنجان علاقے کی گلیوں میں گھومتی ہوئی ایک مکان کے سامنے رک گئی، جلال صاحب نے کہا اترو میاں ہمارا گھر آگیا ہے، جلال صاحب نے اس علاقے کا نام منفوحہ بتایا۔ ریاض کی قدیم آبادیوں میں شامل منفوحہ میں زیادہ تر اجنبی یعنی غیر ملکی رہائش پزیر ہیں ،سستا علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی باشندے بھی بڑی تعداد میں اپنی فیملیز کے ساتھ منفوحہ میں رہتے ہیں۔ جلال صاحب نے ہمیں باہر ہی رکنے کا کہا اور خود تالا کھول کر مکان میں داخل ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد جلال صاحب نے دروازہ کھولا اور ہمیں اندر بلالیا،ہمیں بیٹھک میں بٹھانے کے بعد جلال صاحب خود دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ جلال صاحب کپڑے تبدیل کرکے واپس آئے تو ہم نے پوچھا جلال صاحب آپ یہاں تنہا رہتے ہیں کیا ، آپ نے تو بتایا تھا آپ فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ جلال صاحب نے کہا میاں تمہاری آنٹی چائے بنا رہی ہیں ابھی لے کر آتی ہیں، ہم نے کہا لیکن دروازہ تو باہر سے بند تھا آپ نے تالا خود کھولا تھا۔ جلال صاحب مسکرائے پھر بولے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے،سب دروازے کو باہر سے تالا لگا کر جاتے ہیں۔ خواتین اکیلے باہر نہیں نکلتیں۔ اتنے میں آنٹی چائے لے آئیں، ساتھ میں گرم گرم کباب بھی تھے۔ سلام دعا کے بعد پتہ چلا جلال صاحب نے ہمارا کافی تفصیلی تعارف کروا رکھا تھا، آنٹی نے ہماری ہمت بندھاتے ہوئے پردیس میں حوصلہ نہ ہارنے کی تلقین کی۔ آنٹی کہنے لگیں بیٹا پردیس کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے اب ہمیں ہی دیکھ لو ہم دونوں میاں بیوی یہاں ہیں دو بچے ہیں دونوں ہی لاہور میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے ددھیال میں رہتے ہیں ہم ہر سال ان سے ملنے جاتے ہیں،جب تک بچے کالج میں تھے گرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں یہاں بلوالیتے تھے لیکن اب دونوں کی الگ الگ یونیورسٹی ہے چھٹیاں بھی الگ الگ ہیں اس لیے ہم ہی ان سے ملنے چلے جاتے ہیں۔ مت پوچھو بچوں کے بغیر یہاں زندگی کیسے گزر رہی ہے لیکن مجبوری ہے۔پردیس اسی مجبوری کا نام ہے۔ (جاری ہے)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں