میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طاس سندھ معاہدے پر بھارت کی ہٹ دھرمی

طاس سندھ معاہدے پر بھارت کی ہٹ دھرمی

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۴ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت کی جانب سے عالمی بینک کی ثالثی قبول نہ کرنے پر واشنگٹن میں اگلے ماہ ہونے والے آبی مذاکرات کا دوسرا دور مو¿خر یا معطل ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں جاری آبی کشیدگی پر عالمی بینک نے ثالثی کی پیشکش تھی اور اس ضمن میں مذاکرات کا دوسرا دور اگلے ماہ واشنگٹن میں منعقد ہونا تھا۔ پاکستان نہ صرف ان مذاکرات کا انعقاد طے شدہ وقت پر چاہتا ہے بلکہ بطور سندھ طاس معاہدے کے ضامن ہونے کے ،عالمی بینک کی ثالثی کا بھی خواہاں ہے لیکن نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق بھارتی حکام نے صحافیوں سے کہاہے کہ بھارت کسی بھی ثالثی کے خلاف ہے اور معاملے کو سندھ طاس معاہدے کے فریم ورک کے تحت حل کرنا چاہتا ہے۔
قبل ازیں گزشتہ روز اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور میں بھارت کے دو متنازع ہائیڈرو پاور منصوبوں، کشن گنگا اور رتلے پر بات چیت ہوئی تھی اوربھارتی مذاکرات کار نے پاکستان کے اعتراضات تسلیم کرتے ہوئے میار ڈیم کے نقشے میں تبدیلی کرنے پر رضامند ہوگئے تھے جبکہ رتلے اورکشن گنگا کا معاملہ عالمی بینک کے زیر اہتمام ہونے والے مجوزہ اجلاس میں زیر بحث لانے کا فیصلہ کیاگیاتھا ، جس پر پاکستان عالمی بینک کے ذریعے بین الاقوامی ثالثی عدالت کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔رواں ہفتے اسلام آباد اور لاہور میں بھارتی اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات میں تینوں بھارتی منصوبوں کے حوالے سے بات چیت کی گئی تھی۔بھارت یہ تینوں منصوبے دریائے چناب پر بنانا چاہتا تھا جبکہ پاکستان کا مو¿قف یہ ہے کہ دریائے چناب پر ان تین ڈیمز کی تعمیر سے پاکستان کی جانب پانی کے بہاو¿ میں کمی آنے کا خدشہ ہے جس سے پاکستان کی زراعت بری طرح متاثر ہوگی جبکہ اس کے ساتھ ہی پینے کے پانی کی بھی شدید قلت پیداہوجانے کاخدشہ ہے ۔ اس ملاقات کے بعد وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ کشن گنگا اور رتلے منصوبوں پر بات چیت اگلے ماہ واشنگٹن میں ہونے میں والی ملاقات میں ہوگی جس میں عالمی بینک ثالثی کا کردار ادا کرے گاجبکہ نئی دہلی میںحکام ایسی کسی ملاقات سے لاعلمی کااظہار کررہے ہیں اور بھارتی حکام کاکہناہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بھارت سے کوئی باقاعدہ رابطہ نہیں کیا گیا۔
گزشتہ سال بھارت نے یکطرفہ طورپرسندھ طاس معاہدے پر بات چیت کا سلسلہ منقطع کردیا تھا۔اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ کے مشرقی دریا جن میں ستلج، بیاس اور راوی شامل ہیں ، بھارت کے حصے میں آتے ہیں جبکہ مغربی دریا جہلم، سندھ اور چناب پاکستان کے حصے میں آتے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد سے پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان طے شدہ معاہدے کی نہ صرف یہ خلاف ورزیوں میں مصروف ہے بلکہ ستمبر 2016ءمیں بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں،نریندر مودی کی اس دھمکی کا فوری جواب دیتے ہوئے پاکستان بھارت کو خبردار کرچکا ہے کہ ایسا کرنا ‘اعلانِ جنگ’ کے مترادف ہوگا۔
پاکستان بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی اور مغربی دریاو¿ں پر ڈیموں کی تعمیر پر بھارت کو مسلسل خبردار کرتا رہا ہے، جبکہ اب بھارت یہ شکوہ کررہاہے کہ معاہدے میں پاکستان کو پانی کا بڑا حصہ دے کر بھارت کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ پانی کی تقسیم میں ناانصافی کی شکایت کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی رہنماخود ہی اس معاہدے کے ضامن عالمی بینک کو ثالثی کی دعوت دیتے اور اس حوالے سے ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں اپنی شکایت پیش کرتے تاکہ اگر ان کا دعویٰ درست تسلیم کیاجاتاتو ان کی دادرسی کی جاسکتی، لیکن ایسا کرنے کے بجائے بھارتی رہنما عالمی بینک کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کرکے خود یہ ثابت کررہے ہیں کہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے ان کی شکایت اور دعووں میں کوئی وزن نہیں ہے ۔ واشنگٹن میں موجود ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ‘پاکستان کو خدشہ ہے کہ چونکہ بھارت کے پاس اپنی شکایات کے حوالے سے کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں ہے او ر اس کے مقابلے میں پاکستان کی شکایات حقیقی ہیں ،بھارتی رہنماﺅں کو خدشہ ہے کہ عالمی بینک کی ثالثی کی صورت میں اسے اپنے ضدی اور ہٹ دھرم رویے کو ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اس معاہدے کے حوالے سے عالمی بینک کی ضمانت کو نظرانداز کرنا چاہتا ہے’۔جبکہ عالمی بینک پاکستان کی ثالثی کی پیش کش میں دلچسپی رکھتا ہے تاہم بھارت کے دباو¿ کے بعد ہوسکتا ہے عالمی بینک ثالث بننے سے گریز کرے’۔
اس صورت حال میں امریکہ وبرطانیہ کو مداخلت کرنی چاہیے اوربھارت کو پانی کی تقسیم کے معاملے میں اپنی ہٹ دھرمی ترک کرکے سیدھی راہ اختیار کرنے اور ایسے تمام منصوبے ترک کرنے پر مجبور کرنا چاہیے جن سے پاکستان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوسکتاہو۔ اس حوالے سے خود عالمی بینک کے اعلیٰ حکام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے بھارت کی ناراضگی کا خیال کیے بغیر اس معاملے کو منصفانہ طریقے سے حل کرانے اور بھارتی رہنماﺅں کو اسے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ خود عالمی بینک کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے اور اس حوالے سے ان کے رویے سے دنیا پر یہ آشکارا ہوجائے گا کہ وہ اپنے قول وفعل میں کتنے مخلص ہیں اور وہ انصاف کے اصولوں کو کس حد تک مقدم رکھتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں