ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (یوم وفات پر خصوصی تحریر
شیئر کریں
مولانا محمد الیاس گھمن
اہل اسلام ایک خاندان کی مانند ہیں جن کے روحانی باپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آپ علیہ السلام کی ازواج مطہرات روحانی مائیں ہیں۔ اولاد کی اخلاقی، علمی اور فکری تربیت میں والد کا کردار بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ماں کے کردار کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اہل اسلام کی ان عظیم ماؤں نے اپنے اقوال و افعال، عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار سے امت کی تربیت کی ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم المرتبت، عظیم النسبت اورجلیل القدر ماں جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ۔
ولادت:
نبوت کے پانچویں سال شوال المکرم کے تقریباً آخری ایام میں آپ کی ولادت ہوئی۔
نام و نسب:
آپ کا نام عائشہ بنت ابو بکر صدیق۔لقب:صدیقہ،حمیرا ہے جبکہ آپ کا قرآنی اعزاز”ام المومنین“ہے۔ والدہ کا نام ام رومان ہے۔
بچپن:
انسانی زندگی میں بچپن کا زمانہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن بہت خوشگوار گزرا ہے، چاق وچوبندہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ صلاحیتوں نے آپ کی شخصیت کو خوب نکھارا۔ علم و ادب سے گہری وابستگی، فطری حاضر جوابی، ذکاوت و ذہانت، مذہبی واقفیت اور غیر معمولی قوت حافظہ کی وجہ سے آپ دیگر اپنی ہم جولیوں سے ممتاز حیثیت رکھتی تھیں۔
حرمِ نبوت میں:
آپ رضی اللہ عنہا کی فضیلت و منقبت ہر لمحہ روبہ ترقی رہی۔ جہاں آنکھ کھولی وہ گھر صداقت کا گہوارہ تھا جہاں جا کر ازدواجی زندگی بسر کی وہاں نبوت کا بسیرا تھا۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پر ملال کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ آپ نکاح فرما لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کس سے؟ حضرت خولہ نے جواب دیا کہ اگر بیوہ سے شادی کے خواہش مند ہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہ موجود ہیں اور اگر کسی کنواری سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی عائشہ موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہ سے فرمایا کہ چلو تم بات کر دیکھو۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے لیے پیغام نکاح دیا ہے ام رومان بہت خوش ہوئیں اورکہنے لگیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتظار کر لینا چاہئے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہیں سارا معاملہ بتایا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے منہ بولے بھائی ہیں۔ اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہ ان کی بھتیجی ہوئی، بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرے دینی بھائی ہیں، لہٰذا نکاح جائز ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سعادت پر لبیک کہا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نکاح کر دیا۔ نکاح کے کچھ عرصہ بعد تک آپ میکے میں رہیں۔ بالآخر ہجرت کے بعد آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئیں اور وہاں آپ کی رخصتی ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المومنین سے جو ازدواجی سلوک کا سبق امت کو دیا ہے۔بالخصوص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نرمی شفقت اور تربیت کا برتاؤ وہ ہم سب کے لیے قابل عمل نمونہ ہے۔
امام مسلم نے فضائل عائشہ رضی اللہ عنہا کے تحت اپنی صحیح میں حدیث ذکر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف لاتے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیل رہی ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر سیدہ عائشہ کی چھوٹی چھوٹی سہیلیاں چھپ جاتیں اور گڑیوں کو بھی چھپا لیتیں۔ آپ لڑکیوں کو بلاتے اور حضرت عائشہ کے ساتھ کھیلنے کو کہتے۔
مشہور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے”ازراہ محبت“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ دوڑ لگانے کو کہا چنانچہ جب دوڑ لگائی تو اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لیے از خود پیچھے رہ گئے اور سیدہ عائشہ پہلے پہنچ گئیں۔ ایک مرتبہ کسی سفر سے واپسی پر نبی کریم نے پھر دوڑ لگانے کا کہا اس بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقررہ جگہ تک جلدی پہنچ گئے اور فرمایا یہ ادلے کا بدلہ ہے۔ باہم خوش مزاجی کے ایسے واقعات ہیں کہ اگر ہمارے گھریلو نظام زندگی میں ان کو اپنا لیا جائے تو گھروں میں پروان پاتی رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں اپنی موت آپ مر جائیں اور خوشیوں سے گھر جنت کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
درسگاہ نبوت میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نور علم سے جن ہستیوں کوفیض یاب کیا ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی اور محبوبہ بیوی کو دنیا کی سلیقہ مندی، آداب معاشرت، تہذیب و شائستگی سے شناسا بھی کرایا اور کتاب و حکمت اورفقہ و اجتہاد سے بھی آشنا کرایا۔ معاشرتی زندگی میں باہمی برتاؤ کا طریقہ اور نجی زندگی میں فکر آخرت کی دولت بھی عطا فرمائی۔گھریلو زندگی میں سوکنوں سے حسن سلوک کا درس بھی دیا اور سوتیلی اولادوں سے محبت کا سبق بھی۔
عمدہ اوصاف:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمدہ اوصاف کی جھلک سیرت کی کتابوں سے چھلک رہی ہے۔ انتہاء درجے کی عبادت گزار تھیں چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے اٹھتے تو آپ رضی اللہ عنہا بھی اٹھتیں اور نماز تہجد ادا فرماتیں۔ چاشت کی نماز میں کبھی ناغہ نہ کرتیں۔اکثر روزہ سے ہوتیں۔ ایک دفعہ گرمیوں عرفہ کادن تھا آپ روزے سے تھیں۔گرمی اس قدر سخت تھی کہ بار بار سر پر پانی ڈالتیں۔ آپ کے بھائی حضرت عبدالرحمان نے کہا جب اتنی گرمی تھی تو روزہ کیوں رکھا؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں بھلا یوم عرفہ کا روزہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں جبکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ عرفہ کے روزے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔حج کی پابند تھیں بہت کم ایسا ہوا کہ آپ نے حج نہ کیا ہو۔ آپ نے کثرت کے ساتھ غلاموں کو آزاد کیا۔ شرح بلوغ المرام میں ہے کہ آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ حاجت مندوں کا بہت خیال فرماتیں۔ مالی صدقہ کثرت سے دیتیں۔ فقراء اور مساکین کو بہت نوازتیں۔ ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھتیں۔
فضائل و مناقب:
مستدرک حاکم اور طبقات ابن سعد میں ہے، خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نو باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔
”خواب میں فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش فرمائی، سات سال میں میرے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا، نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی، امہات المومنین میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی، امہات المومنین میں سے صرف میرے بستر پر قرآن کریم نازل ہوتا، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے، میرے حق میں قرآن کریم کی آیات اتریں، میں نے جبرئیل امین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گودمیں سر رکھے وفات پائی۔“
علمی کمالات:
جامع الترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی مشکل بات پیش آ جاتی تو ہم حضرت عائشہ سے رجوع کرتے وہ ہماری رہنمائی فرماتیں۔ مستدرک حاکم میں حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا فرمان موجود ہے آپ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والی، لوگوں میں زیادہ علم رکھنے والی اور دینی معاملات میں سب سے بہتر رائے دینے والی تھیں۔ امام ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ سے بڑے بڑے صحابہ کرام دین کے بارے میں سوالات کرتے آپ ان کو جواب عنایت فرماتیں۔
امام زرقانی نے حاکم و طبرانی سے بسند صحیح نقل کیا ہے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے قرآن، علم میراث، حلال و حرام، فقہ و اجتہاد، شعر و ادب، حکمت و طب، تاریخ عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام سخاوی رحمہ اللہ نے فتخ المغیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرویات کی تعداد 2210 بتا کر کے آپ کو کثیرالروایۃ صحابہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
پاک دامنی کی قرآنی شہادت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے زندگی کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جو حوادثات کہلاتے ہیں۔ دشمنان اسلام منافقین نے آپ کی عفت پاکدامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عرف عام میں واقعہ افک کہا جاتا ہے یہ بہت دلخراش سانحہ تھا کئی دنوں کے صبر واستقلال کے بعد بالآخر اللہ رب العزت نے آپ کی پاکدامنی پر قرآنی مہر ثبت کردی۔ جو کہ قرآن کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
وفات:
58 ہجری رمضان المبارک کی17 تاریخ کو آپ سخت بیمار ہوئیں امام ابن سعد نے لکھا ہے کہ کوئی خیریت دریافت کرنے آتا تو فرماتیں کہ اچھی ہوں۔ عیادت کرنے والے بشارتیں سناتے تو جواب میں کہتیں: اے کاش! میں پتھر ہوتی۔ کبھی فرماتیں کہ اے کاش! میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی۔ نماز وتر کی ادائیگی کے بعد آپ اس جہاں سے اس جہاں کو کوچ فرما گئیں جس کی خواہش سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللھم الرفیق الاعلی کے الفاظ سے فرمائی۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام حاکم تھے انہوں نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بھانجوں اور بھتیجوں قاسم بن محمد بن ابو بکر، عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابو بکر، عبداللہ بن عتیق، عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زوجہ اور امت محمدیہ کے مومنین کی ماں کو قبر میں اتارا۔ رضی اللہ عنہا
٭٭٭