جنون رکاؤٹوں سے نہیں رُکتا، عمران خان کا مینار پاکستان جلسے سے پیغام
شیئر کریں
نجم انوار
۔۔۔۔۔
٭معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی قابل عمل روڈ میپ ہے تو پیش کرے، وہ سیاست میں ایک طرف ہونے کو تیار ہیں، عمران خان کی پیشکش
٭ پنجاب پولیس نے مینار پاکستان جلسہ ناکام بنانے کے لیے تین ہزار سے زائد چھاپے مارے، سینکڑوں لو گ گرفتار کیے، تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں کو نوٹسز بھیجے
٭تحریک انصاف کے خلاف طاقت کے ننگے استعمال کے ساتھ حکومت کو ہر سطح پر یہ ’’سہولت‘‘ بھی میسر رہی کہ اس کا تذکرہ مرکزی ذرائع ابلاغ میں نہیں کیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب لاہور میں مینار پاکستان پر ایک جلسے سے خطاب میں کہا کہ’’ جو بھی آج پاور میں بیٹھے ہیں ان تک ایک پیغام جانا چاہیے کہ لوگوں کا جنون رکاوٹوں سے نہیں رک سکتا‘‘۔یہ ایک غیر معمولی حالات کی نشاندہی کرنے والا فقرہ ہے۔ اس لیے کہ عمران خان کے اس جلسے کو روکنے کے لیے پنجاب اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے ہر قسم کے حربے اختیار کرتے رہے ہیں۔ عمران خان اور اُن کی جماعت کے خلاف طاقت کے ننگے استعمال کے ساتھ حکومت کو ہر سطح پر یہ ’’سہولت‘‘ بھی میسر رہی کہ اس کا تذکرہ مرکزی ذرائع ابلاغ میں نہیں کیا گیا۔ عمران خان پر اس وقت سو سے زائد مقدمات قائم ہیں۔ وہ مسلسل ضمانتوں کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اُن کے گھر زمان پارک پر پولیس دھاوے میں ہر چیز کو اُدھیڑنے کے علاوہ طاقت کا استعمال ہو چکا ہے۔ زمان پارک کی گلیوں میں آنسو گیس کے گولے سمیت طاقت کے تمام ذرائع استعمال کیے جا چکے ہیں،اس کے علاوہ عمران خان کی جانب سے مختلف ریلیوں کے انعقاد کو بار بار طاقت کے ذریعے روکا بھی گیا ہے۔ تحریک انصاف کی صف اول کی تمام قیادت پر مختلف مقدمات قائم ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے سرگرم کارکنوں کو بھی مختلف انداز سے مسلسل نشانا بنایا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے اہم ترین ذمہ دار اظہر مشوانی کے علاوہ عمران خان کے بھانجے حسان نیازی گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہ وہ ماحول تھا جس میں خود تحریک انصاف کو مختلف قانونی اور دباؤ کے حیلوں حربوں سے مینار پاکستان کے جلسے کو بھی دو مرتبہ ملتوی کیے جانے پر مجبور کیا جاچکا تھا۔ ایسے میں 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب منعقد ہونے والا جلسہ اس اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف مینار پاکستان کے مذکورہ جلسے کو ناکام بنانے کے لیے پنجاب پولیس نے مختلف جگہوں پر تین ہزار سے زائد چھاپے مارے، سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا۔ تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں کو مختلف قسم کے نوٹسز بھیجے۔ یہ تمام جتن اس لیے کیے گئے کہ عمران خان ایک موثر عوامی اجتماع منعقد نہ کر سکیں۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اور مینارپاکستان کا جلسہ ایک طرح سے سرکاری اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم بن گیا۔ اجتماع میں موجود نمائندہ جرأت نے مختلف شرکاء سے بات چیت کی تو یہ انداز ا ہوا کہ حکومتی اقدامات نے ایک ایسے ردِ عمل کو جنم دیا ہے جس کے باعث جلسہ گاہ میں عوام نے شرکت کو ایک چلینج سمجھ کر قبول کیا۔ کیونکہ جلسہ گاہ میں شریک ہونے والے ہزاروں لوگ ایسے تھے جو مختلف رکاؤٹوں کو عبور کرتے ہوئے میلوں پیدل چل کر جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ جلسے میں صاف محسوس کیا جاسکتا تھا کہ وقت کادھارا عمران خان کے حق میں بہہ رہا ہے۔ جسے طاقت کے استعمال سے بدلا نہیں جاسکتا۔ خود عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان رکاؤٹوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’جلسہ ناکام بنانے کے لیے دو ہزار کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ سارے راستے پر کنٹینر رکھ دیے‘‘ ۔سابق وزیراعظم عمران خان نے جلسہ گاہ کے اندر بلٹ پروف کنٹینر سے خطاب کیا۔ اس موقع پر اُنہوں نے زمان پارک میں پولیس کے دھاوے کو یاد کیا اور کہا کہ’’ زمان پارک میں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر احساس ہوا کہ ‘فلسطین کے ساتھ اسرائیل کیا کرتا ہے اور کشمیر میں بھارت کیا کرتا ہے۔جب یہ لوگ صبح آرمڈ گاڑی لے کر آئے تو زمان پارک میں پچاس لڑکے رہ گئے تھے ۔ میں نے کہا میں گرفتاری دے دوں گا۔ وہ نہیں مانے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کو مار دیں گے ‘‘۔عمران خان نے اس پوری صورت حال سے یہ نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کوشش کر رہے ہیں کہ لوگ اتنا ڈر جائیں کہ وہ ان ظالموں کو قبول کر لیں‘‘۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ماضی میں اُن کی حکومت کو گرانے کا واقعہ بھی اس موقع پر ان حالات سے مربوط کیا کہ ’’ایک سازش کے تحت ہماری حکومت گرائی گئی۔ بڑے ‘جرائم پیشہ لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا۔ ہمیں اپنے ملک کو اس دلدل سے نکالنا ہے ‘‘۔عمران خان ایک موقع پر ظل شاہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر جذباتی ہوگئے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’جن لوگوں نے ظل شاہ کو قتل کیا، دل کرتا ہے ان کا قانون کے تحت بندوبست کروں۔ دل تو کرتا ہے کہ ویسے ہی کروں لیکن قانون کے تحت‘‘۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے اس جلسے کا اعلان کئی روز قبل کیا گیا تھا۔ مگر انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر یہ جلسہ متعدد مرتبہ ملتوی کیا گیا۔ مگر جب اس جلسے کا انعقاد انتظامیہ کی اجازت سے ہوا تب بھی پنجاب حکومت اور انتظامیہ نے اس جلسے کے انعقاد میں متعدد رکاؤٹیں پیدا کیں۔ اور لاہور کو ایک طرح سے کنٹینروں کا شہر بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کا جلسہ نماز تراویح کے بعد شروع کیاگیا جو صبح سحری تک جاری رہا۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ ’’اس جلسہ نے ان کے گزشتہ جلسوں کا ریکارڈ توڑ دیا‘‘۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی حفاظت کے پیش نظر اس ا سٹیج کو بلٹ پروف بنایا گیا جہاں سے عمران خان نے جلسے کے شرکاء سے خطاب کیا۔ واضح رہے کہ عین جلسے کے وقت پنجاب حکومت نے یہ شور کرنا شروع کر دیا کہ مینار پاکستان جلسے میں خود کش حملوں کا خطرہ ہے۔ سی ٹی ڈی پنجاب نے تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے جس منصوبے کو مینار پاکستان کے جلسے کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا گیا، وہ بجائے خود ایک مضحکہ خیز عمل لگ رہا تھا۔ سی ٹی ڈی پنجاب کی جانب سے جاری الرٹ کے مطابق تحریک طالبان کے مرکزی رہنما مکرم خراسانی نے مینار پاکستان پر دہشت گردی کا منصوبہ تیار کیا ہے ، دہشت گرد ملک میں افرا تفری پیدا کرنے کیلیے پی ٹی آئی کو زمان پارک، ریلیوں اور مینار پاکستان جلسے کو نشانہ بناسکتے ہے ۔سی ٹی ڈی نے مراسلے میں کہا کہ مکرم خراسانی نے دہشت گرد عبدالولی خان سے مشاورت کے بعد منصوبہ ترتیب دیا ہے ۔دہشت گردوں نے 25 خودکش بمباروں کے ساتھ حملے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔ عبدالولی خان ماضی میں لاہور شہر میں متعدد دھماکے کر چکا ہے ۔
لاہور انتظامیہ نے سیکورٹی کے نام پر مینار پاکستان آنے اور جانے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا۔ مگر عملاً اس کا مقصد تحریک انصاف کے جلسے میں عوامی شرکت کوروکنا تھا۔ مینار پاکستان گراؤنڈ کے طرف آنے اور جانے والے جن راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا اُن میں جی ٹی روڈ، راوی ٹول پلازہ، بتی چوک، آزادی چوک، سبزی منڈی روڑ، سیکرٹریٹ چوک، داتا دربار شامل ہیں جہاں کنٹینر رکھ کر راستہ بند کیے گئے اور پولیس کی بھاری نفری ہر وقت تعینات رہی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے لوگوں کو رکاوٹیں لگا کر جلسے میں جانے سے روکنے کی خلاف حقیقت سختی سے تردید کی۔ عامر میر نے تمام زمینی حقیقتوں کو جھٹلاٹے ہوئے کہا کہ ’’پولیس نے لاہور میں جلسہ گاہ جانے والے راستے بند نہیں کیے ۔ دہشت گردی کے حوالے سے سیریس تھریٹ الرٹس جاری ہونے کے بعد مخصوص مقامات پر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کچھ کنٹینرز لگائے گئے ہیں‘‘۔عامر میر یہ دعوے جب کر رہے تھے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے جلسہ گاہ کے اطراف کی سڑکیں بلاک کیے جانے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ چنانچہ اس کا تذکرہ کرنے خود تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی میڈیا کے سامنے آئے۔ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا کہ لاہور انتظامیہ نے اجازت میں رکاوٹیں ڈالیں تو ہائی کورٹ سے رجوع کیا،ہائی کورٹ سے اجازت کے باوجود نگران سیٹ اپ نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دی ہیں‘‘۔شاہ محمود قریشی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ’’ پندرہ سو سے اٹھارہ سو کے قریب پی ٹی آئی کارکنان گرفتار ہو چکے ہیں‘‘۔
مینار پاکستان کے جلسے کے بعد بھی یہ جلسہ تاحال ختم نہیں ہو سکا۔ کیونکہ مذکورہ جلسے کے بعد اس میں حاضری کی تعداد پر مختلف قسم کے روایتی تبصروں کا ایک کھیل شروع ہو گیا۔ پاکستانی صحافت کا ایک بڑا اور غالب طبقہ روایتی انداز سے تحریک انصاف کے جلسے اور اس میںحاضرین کے خلاف نفی تقسیم کا کھیل کھیلنے لگا۔ اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو بھی استعمال کرنے لگا۔ واضح رہے کہ اس نوع کے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں پر یہ الزام ہے کہ اُنہیں مبینہ طور پر مختلف ٹوئٹس کرنے پر فی ٹوئٹ ایک رقم دی جاتی ہے۔ اس موقع پر مینار پاکستان میں خود تحریک انصاف کے پرانے جلسوں کی ویڈیو بھی شیئر کی جاتی رہی ۔ جسے ایک موقع کے طور پر تحریک انصاف کے مخالفین نے استعمال کیا۔ سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف نیوز ویب سائٹس پر بھی یہ بحث دکھائی دی کہ مینار پاکستان کی ویڈیوز پرانی ہے یا نئی؟ اس ضمن میں بات سرے سے نظر انداز کردی گئی کہ جلسہ بالکل نیا تھا اور جلسے کی راہ میں رکاؤٹوں کے طور پر کھڑے کنٹینر کی تصویریں اور ویڈیوز بھی بالکل نئی تھیں اور اس پر تو کسی کو کوئی شک نہیں تھا۔ یہاں تک کہ حکومت کوبھی نہیں۔
عمران خان کے مینار پاکستان جلسے کے خطاب میں ایک مرتبہ پھر جنرل باجوہ پر طنزاً گفتگو کی گئی۔ عمران خان نے خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ سے پوچھا کہ اُن کے پاس پاکستان کے موجودہ حالات سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ ہے تو وہ پیش کریں ۔ وہ ایک کامیاب اور قابل عمل روڈ میپ پیش کرنے پر سیاست میں ایک طرف ہونے کو تیار ہیں۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ کسی کے پاس پاکستان کو موجودہ حالات سے نکالنے کے لیے کوئی روڈ میپ نہیںہے۔ عمران خان نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے طے کر رکھا ہے کہ عمران خان کا راستہ ہر صورت میں روکنا ہے۔ عمران خان نے اس موقع پر معیشت کی بحالی کے لیے اپنا دس نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیا جو ذرائع ابلاغ میں مختلف طرح سے زیر بحث لایا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینار پاکستان گراؤنڈ کے طرف آنے اور جانے والے جن راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا اُن میں جی ٹی روڈ، راوی ٹول پلازہ، بتی چوک، آزادی چوک، سبزی منڈی روڑ، سیکرٹریٹ چوک، داتا دربار شامل ہیں جہاں کنٹینر رکھ کر راستہ بند کیے گئے اور پولیس کی بھاری نفری ہر وقت تعینات رہی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے لوگوں کو رکاوٹیں لگا کر جلسے میں جانے سے روکنے کی خلاف حقیقت سختی سے تردید کی۔