میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سازشوں کے اشاروں کے بجائے کرداروں سے پردہ اٹھائیے

سازشوں کے اشاروں کے بجائے کرداروں سے پردہ اٹھائیے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

احتساب عدالت میں نواز شریف کی پیشیوں میں اضافے کے ساتھ ہی دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے اگلے الیکشن کی تیاریاں شروع کردی ہیں،عمران خان ،پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ اب جمعیت علمائے اسلام ف کے علاوہ اے این پی نے بھی جلسوں اور ریلیوں کاسلسلہ شروع کرکے اپنے وجود کااحساس دلانے کی کوشش شروع کردی ہے ، ایک طرف الیکشن کی یہ گہما گہمی ہے دوسری طرف نواز شریف اور ان کی ٹیلنٹیڈ صاحبزادی مریم صفدر ،ان کے تابعدار وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنمائوں کی جانب سے جتنا زیادہ تردید کی جارہی ہے ٹیکنوکریٹ اور عبوری حکومت کے بارے میں قیاس آرائیوں میں بھی اضافہ ہوتاجارہا ہے یہاں تک کہ اب عام آدمی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کسی بھی دن صبح اٹھتے ہی انھیں کسی عبوری یا ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی خبر سننے کو ملے گی ،دوسری جانب الیکشن کمیشن واضح الفاظ میں متنبہ کرچکا ہے کہ اگر ہماری پارلیمان نے یکسو ہوکر آئینی ترمیم کے ذریعے حال ہی میں مکمل ہوئی مردم شماری کی روشنی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد اور ان کی صوبوں کے مابین تقسیم کا کوئی فارمولہ فوری طورپر طے نہ کیا تو اگست 2018 میں وقتِ مقررہ پرعام نتخابات کا انعقاد ناممکن ہوجائے گا۔ہمارے سیاست دان،خواہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں ،تواتر کے ساتھ وقتِ مقررہ پر انتخاب کے حامی ہونے کے دعوے کر رہے ہیں۔ عمران خان صاحب تو قبل از وقت انتخاب کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ مقصد ان تیاریوں کا خلقِ خدا تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت کا قیام کسی صورت قابل قبول نہیں۔یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر 10نومبر تک پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے نئی مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابات کو وقتِ مقررہ یا اس سے قبل منعقد کروانے کے آئینی راستے فراہم نہ کیے تو یہ انتخابات کیسے ہوں گے۔ ان انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد اور ان کی صوبوں کے مابین تقسیم کا فیصلہ کون کرے گا۔ نئی حلقہ بندیاں کیسے ہوں گی؟۔شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے لیے اپنے تئیں مطلوبہ آئینی ترامیم کروانا ممکن ہی نہیں۔ سینیٹ میں اسے سادہ اکثریت بھی میسر نہیں۔ قومی اسمبلی میں اسے اکثریت کی حمایت حاصل ہے مگر اس حمایت کے باوجود وحکومت اس ایوان کے عام اجلاسوں کے کورم کے لیے ضروری قرار دئیے اراکین کی موجودگی برقرار رکھنے میں مسلسل ناکام نظر آرہی ہے۔قومی اسمبلی کے ا سپیکر ایاز صادق نے ممکنہ آئینی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں سے روابط استوار کیے تھے۔ بالآخر خفیہ اور اعلانیہ ملاقاتوں اور اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی جس میں تحریک انصاف سمیت ہر جماعت مطلوبہ ا ٓئینی ترمیم کو ہنگامی طورپر منظور کرنے پر آمادہ نظر آئی۔نظر بظاہر ایک طویل مشاورت کے بعد تیارکی گئیآئینی ترامیم مگر جب قومی اسمبلی میں پیش ہوئیں تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے جو امریکہ میں دورانِ تعلیم وزیر اعظم کے ساتھ ہاسٹل کے ایک کمرے میں رہائش پذیر بھی رہے ہیں، اعتراضات اٹھادئیے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ نئی مردم شماری کے بعد کونسل آف کامن انٹرسٹس کے ذریعے صوبوں کی رائے سے قومی اسمبلی کے مجموعی اراکین کی تعداد اور ان کی صوبوں کے مابین تقسیم کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح طورپر دی گئی مدت کو ذہن میں رکھتے ہوئیعام طورپر یہ یقین ظاہرکیاجارہا تھا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسیجس طرح ہنگامی بنیادوں پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین پارلیمان سے روابط استوار کر رہے ہیں وہ یقینا انہیں آئینی ترامیم کی منظوری پر آمادہ کررہے ہوں گے۔لیکن اے بساآرزو خاک شد وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک سیمینار میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوگئے اور وہاں موجود افراد کو یہ سمجھاتے رہے کہ آئینِ پاکستان میں ٹیکنوکریٹس حکومت کا کوئی تصور ہی نہیں۔ان کایہ استدلال بالکل درست ہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن سے پہلے اگر ارکان اسمبلی نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائیں تو پھر ’’غیر منتخب ادارے‘‘ ہی خلا پْر کریں گے اور ان کے پاس یہ کردار ادا کرنے کا اخلاقی جواز بھی ہر صورت حاصل ہوگا۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایک طرف یہ کہتے ہیں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں‘ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔دوسری جانب سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ’’سب ٹھیک نہیں ہے‘‘ کوئی بھی غیر آئینی مداخلت نہ کرے۔ انتخابات وقت مقررہ پر ہونے چاہئیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں یہ امر بھی مد نظر رکھا جانا چاہئے کہ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام شروع نہ ہونے پر2018کے انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ نون لیگ کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے اس موقف پر کہ حلقہ بندیوں کے لیے قانون سازی میں تاخیر کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے کے جواب میں پی پی پی کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ حکومت نے تاخیر سے مردم شماری کرائی جس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے۔ جواب الجواب اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی گنجائش نہ ہونے کے تواتر کے ساتھ اظہار نے عجیب و غریب صورتحال پیدا کردی ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عوام میں یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ ایوان اقتدار کے ذمہ دار اشاروں کنایوں میں تو بات کرتے ہیں لیکن دوٹوک انداز میں عوام کے سامنے صورتحال رکھنے سے پہلو تہی برت رہے ہیں۔ یہ پہلو تہی مصلحت آمیز ہے یا کسی دبائو اور خوف کی وجہ سے اس پر زیادہ مناسب انداز میں روشنی وہی صاحبان ڈال سکتے ہیں جو تواتر کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کی گنجائش نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے ادارے ہیں جن کی طرف چیئر مین سینیٹ اور دوسرے حکومتی اکابرین بالخصوص لیگی رہنما اشارے تو دے رہے ہیں مگر صاف بات نہیں کرتے۔ عام انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کے لیے جو چند بڑی رکاوٹیں ہیں ان میں اہم ترین تو یہی ہے کہ اولاً خود مردم شماری بہت تاخیر سے ہوئی اس تاخیر کی ذمہ دار موجودہ وفاقی حکومت بھی ہے۔ ان سے پہلی حکومتوں نے ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال پر مردم شماری نہ ہوسکنے کا ملبہ ڈال کر جان چھڑالی جبکہ نون لیگ پر بعض حلقے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ جب تک اس کی منشا کے مطابق نتائج کا اہتمام نہیں ہوگیا اس نے مردم شماری کرانے سے گریز کیا۔ ثانیاً یہ کہ وفاقی وزارت قانون و پارلیمانی امور اس امر سے بخوبی واقف تھی کہ مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں ناگزیر ہی نہیں بلکہ ایک آئینی ضرورت بھی ہے تو پھر کیوں صرف نظر کیاگیا؟ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ اگربروقت قانون سازی نہیں ہوتی تونئے مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔ حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں ہر دو کے لیے الیکشن کمیشن کو 6سے8 ماہ درکار ہیں۔ تب کہیں جا کر سہولت اور قانونی تقاضوں کے مطابق جون 2018 میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہوسکتا ہے۔ د وسری طرف سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی عدالتی نا اہلی کے دن سے سازشوں‘ ٹیکنو کریٹ اور قومی حکومت یا 3 سالہ متبادل انتظام کی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ یہ باتیں محض افواہوں پر اظہار خیال کا چسکہ ہیں یا پھر ان کا کوئی سر پیر بھی ہے معاملہ جو بھی ہو بہر طور تشویشناک ہے۔ اگر واقعتاً کہیں اس حوالے سے صلاح مشوروں کی کھچڑی پک رہی ہے تو یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ خود 1980 اور 1990 میں اس طرح کے ٹیکنو کریٹ تجربے کیے جا چکے اور نتائج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس یہ کہا جاسکتاہے کہ اس طرح کے انتظام کو جن مسائل کا حل قرار دیاگیا تھا وہ مسائل پہلے سے زیادہ گمبھیر ہوئے ثانیاً یہ عرض کرنا بھی مقصود ہے کہ خود آئین میں ایک منتخب حکومت سے اگلی منتخب حکومت کے درمیانی مدت جو انتخابی عمل کے مکمل ہونے کی ہے اس حوالے ماسوائے نگران عبوری حکومتوں کے اور کوئی راستہ نہیں۔ نظام حکومت مسلسل چلتا رہے اور خود احتسابی سے اجتماعی احتساب تک کے معاملات دیانتدارانہ انداز میں ہوں تو اصلاح احوال کی شرح بڑھتی رہتی ہے۔
وزیر اعظم اور چیئر مین سینیٹ سمیت مختلف الخیال رہنما اگر مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ خلاف آئین کوئی کام نہیں ہونا چاہئے بلکہچیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے توگزشتہ روز صاف کہہ دیا کہ’’ سب
ٹھیک نہیں ہے‘‘ تو ان بیانات سے بے یقینی کو بڑھاوا ملا ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ دستور سے انحراف کے نتیجے میں مشکلات پیدا ہوں گی اور بعض تنازعات کے ساتھ خطرات در آنے کا امکان بھی رد نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن موجودہ صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ موجودہ حکومت اور حکمراں پارٹی کے سربراہ نواز شریف کو اس کا کوئی خیال یا پروا نہیں ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ موجودہ حکومت اپنے سربراہ کے اعمال کا بوجھ کسی اور پر ڈال کر خود سیاسی شہید یامظلوم بننا چاہتی ہے؟جبکہ دانش مندی کاتقاضہ یہ ہے کہ اپنے اعمال کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی بجائے وفاقی حکومت اپنی اب تک کی کارکردگی پر نظر ڈالے اور کھوکھلے نعروں سے ہٹ کر یہ تجزیہ کرے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران اس نے عوام سے کیے ہوئے کتنے وعدے پورے کیے اور وعدے پورے کرنے کے بجائے عوام کے مسائل میںاضافے کے کیااسباب ہیں، وفاقی حکومت کے کارپردازان جب گزشتہ 4سال کی کارکردگی پر نظر ڈالیں گے تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ موجودہ حکومت نے اپنی پوری مدت کے دوران اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں‘ لمبے چوڑے وعدوں اور پھر ان پر مبارک سلامت کا شور برپا کرنے کے علاوہ کہیں کچھ بھی نہیں کیا؟ ارباب حکومت اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا‘ بیروزگاری کا جن بے قابو ہے۔ اس صورتحال کو سازشوں کاشور مچاکر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا،اور اگر ارباب حکومت سمجھتے ہیں کہ راگر واقعتا کہیں کوئی سازش یا سازشیں ہو رہی ہیں توپھر ارباب اقتدار ان سازشی عناصر کی نشاندہی کرنے سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ انھیں صاف سیدھے لفظوں میں مقام سازش اور کرداروں سے پردہ اٹھا کر عوام کو اعتماد میں لینا چاہئیاورپارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر سارا احوال اس کے سامنے بیان کرنا چاہئے تاکہ بے یقینی کاموجودہ ماحول ختم ہو اور ملک پر ہر سو چھائے ہوئے بے یقینی اور مایوسی کے بادل چھٹ سکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں