مہنگائی مزید بڑھے گی،وزیر اعظم نے خبردار کر دیا
شیئر کریں
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردیں، جلد ہی معاہدہ ہوجائے گا، پروگرام کے بعد مزید مشکلات آئیں گی۔وفاقی وزراء کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات آخری مراحل میں ہیں، امید ہے کہ اگلے چند روز میں طے ہوجائیں گے، عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہوگی، آئی ایم ایف کی شرائط ہیں کہ گردشی قرضہ کم کریں، بعض سبسڈیز کو بھی کم کروایا ہے، آئی ایم ایف نے غریبوں کیلئے سبسڈی کا کہا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مزید مشکلات آئیں گی، مخلوط حکومت عوام کے تعاون سے ملک کو مشکلات سے نکالے گی، ملک کو ا?گے بڑھنا ہے تو اجتماعی کاوشیں کرنا ہوں گی، ضمنی مالیاتی بجٹ پاس ہو چکا ہے، جس میں تمباکو، لگڑری آئٹمز پر ٹیکس لگائے ہیں، منی بجٹ میں کوشش کی گئی کہ غریب پر اثر نہ پڑے۔وزیراعظم شہبازشریف نے حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کا بچت پروگرام پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے تمام وزرائ، مشیر، معاونین خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے اس کے علاوہ تمام وزراء گیس، پانی و بجلی کے بل ذاتی جیب سے ادا کریں گے، کابینہ ارکان سے لگڑری گاڑیاں بھی واپس لی جا رہی ہیں، ضرورت کے تحت وزراء کو سکیورٹی کی ایک گاڑی دی جائے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ تمام حکومتی ارکان اندرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، وزراء بیرون ملک فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام نہیں کریں گے، وزراء کو معاون عملہ بیرون ملک ساتھ لے جانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی، اس کے علاوہ سرکاری افسران کو صرف ناگزیر قسم کے بیرون ملک دوروں کی اجازت ہوگی۔شہباز شریف نے کہا کہ جون 2024 تک ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل طور پر پابندی ہو گی، تمام وزارتوں، محکوں، ذیلی اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی، کابینہ ارکان کی سکیورٹی سے متعلق ایک خصوصی کمیٹی فیصلہ کرے گی، کوئی رکن لگڑری گاڑی استعمال نہیں کرے گا، سفری اخراجات سے بچنے کیلئے ویڈیو کالنگ کی سہولت کو سپورٹ کیا جائے گا۔گرمیوں میں توانائی کی بچت کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ بجلی اور گیس کی بچت کیلئے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سرکاری ملازمین یا حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ بھی نہیں کیا جائے گا، بڑے سرکاری گھروں کو شفاف طریقے سے نیلام کیا جائے گا جس کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جو منصوبہ بندی کرے گی، سرکاری بنگلوں کی نیلامی سے کھربوں روپے کما سکتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ عام انتخابات ایک ا?ئینی ضرورت ہے، خیبرپخوانخوا اور پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے اپنا مؤقف پیش کرنا ہے، آئینی ادارہ ہمیں جو تجویز کرے گا ہم اس پرعمل کریں گے، صدر کو صوبوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے آج سے 9 ماہ پہلے بھی غیر آئینی کام کیا تھا، صدر کو خط لکھ کر ان کی حرکت پر مذمت کی جائے گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے جا رہے ہیں، قوم دیکھ لے گی کہ توشہ خانہ میں کیا تحائف آئے اور ان کی کیا تفصیل ہے، آج کے بعد 300 ڈالر تک کا تحفہ رکھ سکیں گے اس سے اوپر کا تحفہ ہو گا تو کوئی رکن اس کو اپنے پاس نہیں رکھ سکے گا، توشہ خانہ میں تحائف کی قیمت تیسری پارٹی لگائے گی جو شفاف ہوگی۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ توانائی کی بچت سے متعلق جو پروگرام بنایا گیا تھا اس پرعمل درآمد نہیں ہوا، اس لیے ا?ج سے توانائی بچت کے پروگرام پر سختی سے عمل درآمد کرنے جا رہے ہیں، اب ساڑھے 8 بجے تک جو مارکیٹیں بند نہیں ہوں گی تو از خود وہاں کی بجلی منقطع کر دی جائے گی، وفاقی حکومت میں ا?ئندہ دو سال تک کوئی بھی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر سنگل ڈش کی پابندی اختیار کی جا رہی ہے، کابینہ اجلاس ہوں یا کمیٹی اجلاس ان تقریبات میں سنگل ڈش کی پابندی ہوگی، کابینہ ہو یا کمیٹی اجلاس ان میں چائے کی پالیسی بھی اپنا سکتے ہیں تاہم سنگل ڈش کی پابندی غیر ملکی مہمانوں کیلئے نہیں ہوگی، ا?ئندہ سال بجٹ کی تیاری کے موقع پر بھی کچھ مزید اقدامات کیے جائیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں 25 فیصد اضافہ کرنے جا رہے ہیں، قوم اور اپنے اکابرین کے تعاون سے قوم کو مشکلات سے نکالیں گے، گزشتہ 75 سال میں حکومتوں اور اشرافیہ نے ملک کیلئے اپنا فرض ادا نہیں کیا، ان کے بچوں کا بیرون ملک مہنگا علاج ہوتا ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ عدلیہ سمیت صوبائی حکومتیں بھی وفاقی حکومت کی پالیسی جیسے اقدامات کریں، میری چیف جسٹس پاکستان سمیت چاروں صوبائی چیف جسٹسز اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ سے بھی درخواست ہے کہ آپ بھی اسی نوعیت کے فیصلے کریں، یہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں، بچت ایک پائی کی کیوں نہ ہو عوام کا حق ہے۔